گاوں میں غریب لڑکے اکثر مٹی کے کھلونوں سے کھیلتے رہتے ہیں۔ کچھ کھلونے تو وہ مٹی سے خود بنا لیتے ہیں کچھ کھلونے دریاے سندھ کے کیہل بنا کے بستیوں میں بیچتے ہیں۔ لیکن یہ بچے جب کوئی قیمتی کھلونا وغیرہ دیکھ لیں تو دل تو آخر پاگل ہے مچلنے لگتا ہے۔
ایک غریب بچے نے کسی امیر بچے کی سایکل دیکھی تو اس کا بھی دل چاہ کہ اس کے پاس یہ سواری ہو اور اپنے غریب باپ سے فرمائیش کر ڈالی کہ میرے لیے ایسی سایکل خرید دیجیے ۔ غریب باپ کی آمدنی محدود تھی اور وہ اس فرمائیش کو پورا کرنے سے قاصر تھا اس نے بیٹے کی بات ٹال دی۔
لڑکا بار بار کہتا اور آخر باپ نے تنگ آ کے ڈانٹ کر کہا۔۔میں نے کہ دیا کہ میں سایکل خرید کے نہیں دونگا آیندہ مجھ سے ایسی بات مت کرنا ۔یہ سن کر لڑکے کی آنکھ میں آنسو آ گیے وہ کچھ دیر خاموش رہا اور پھر روتے ہوے کہا۔۔
آپ ہی تو ہمارے باپ ہیں آپ سے نہ کہیں تو پھر کس سے کہیں؟ یہ جملہ سن کر باپ تڑپ اٹھا اچانک اس کا انداز بدل گیا اور بیٹے سے بولا۔۔اچھا اطمینان رکھو میں تم کو ضرور سایکل لے کر دونگا۔ یہ کہتے ہوئے باپ کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گیے۔ اگلے دن اس نے پیسوں کا بندوبست کر کے بیٹے کو نئی سایکل خرید دی۔
لڑکے نے بظاہر ایک لفظ کہا تھا مگر اس لفظ کی قیمت اس کی زندگی تھی جس میں اس کی پوری ہستی شامل ہو گئی تھی ۔اس کا مطلب یہ تھا کہ اس نے اپنے آپ کو اپنے سرپرست کے آگے بالکل خالی کر دیا تھا۔یہ لفظ بول کر لڑکے نے اپنے آپ کو ایک نقطے پر کھڑا کر دیا جہاں اس کی درخواست اس کے سرپرست کے لیے بھی اتنا مسئلہ بن گئی جتنا خود اس کے لیے تھی۔
اب اوپر والے مکالمے سے اندازہ لگائیں کہ جب آدمی اپنے رحیم و کریم رب جو ماٶں سے زیادہ شفیق ہے سے پورے خلوص سے دعا کرتا ہے تو وہ لوٹائی نہیں جاتی۔ اس دعا میں بندہ اپنی پوری ہستی کو انڈیل دیتا ہے۔جب بندے کی آنکھ سے عجز کا وہ قطرہ ٹپک پڑتا ہے جس کا تحمل زمین و آسمان نہیں کر سکتے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب دعا زبان سے نکلا ہوا ایک لفظ نہیں ہوتی بلکہ ایک شخصیت کے پٹھنے کی آواز ہوتی ہے۔
اس وقت خدا کی نعمتیں بندے پر ٹوٹ پڑتی ہیں اور قادر مطلق اپنے عاجز بندے کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔اب میں آپ کو انڈیا کے ایک سینر صحافی اروند مشرا کی لکھی کہانی سناتا ہوں جو پچھلے دنوں یوپین یونین کے وفد کے ساتھ انڈین مقبوضہ کشمیر گیا تھا جہاں ہندوستان نے سات ماہ سے لاک ڈاون کر رکھا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی ایک لڑکی نفیسہ عمر نے اروند مشرا کو بتایا کہ”کسی جگہ پر سات مہینے سے کرفیو ہو، گھر سے نکلنا تو دور، جھانکنا بھی مشکل ہو، چپے چپے پر آٹھ نو لاکھ آرمی تعینات ہو، انٹرنیٹ بند، موبائل بند ہوں، لینڈ لائن فون بند ہو، گھروں سے ہزاروں بے قصوروں کی گرفتاریاں ہوئی ہوں، ساری لیڈر شپ جیل میں ہو، اسکول، کالج، دفتر سب بند ہوں!
کیسے زندہ رہیں گے لوگ؟ ان کے کھانے پینے کا کیا ہو گا؟ بیماروں کا کیا ہو گا؟ کوئی ہمارے لیے سوچنے والا بھی نہ ہو، آدھی سے زیادہ آبادی ڈپریشن اور ذہنی بیماریوں کی شکار ہوچکی ہو، بچے خوفزدہ ہوں، مستقبل اندھیرے میں ہو، ظلم و ستم کی انتہا ہو، اور روشنی کی کوئی کرن بھی نہ دکھائی دیتی ہو،کوئی سدھ لینے والا نہ ہو اور ساری دنیا خاموش تماشا دیکھ رہی ہو” نفیسہ روتے ہوئے بولتی رہی”ہم نے سب سہہ لیا، اور سہہ بھی رہے ہیں، لیکن اُس وقت دل روتا ہے، تڑپتا ہے جب یہ سنائی پڑتا ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ اچھا ہوا، یہی ہونا چاہیے تھا!”
"میں نے ان لوگوں کے لیے یا کسی کے لیے بھی کبھی بدعا نہیں کی، کسی کا برا نہیں چاہا بس ایک "دعا” کی ہے تاکہ سبھی لوگوں کو اور ساری دنیا کو ہمارا کچھ تو احساس ہو جائے!”اوروند بھائی آپ دیکھنا میری دعا بہت جلد قبول ہو گی!”جب اروند نے پوچھا "کیا دعا کی بہن آپ نے؟”
تو نفیسہ نے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے جو کہا تھا وہ ہر وقت میرے کانوں میں گونجتا رہتا تھا۔ آج آنکھوں سے دِکھ بھی رہا ہے، لفظ لفظ وہی لکھ رہا ہوں، اُس کا درد محسوس کرنے کی کوشش کیجئے گا!نفیسہ نے کہا تھا "اے اللہ جو ہم پر گزر رہی ہے کسی پر نہ گزرے بس مولا تو کچھ ایسا کردینا، اتنا کردینا کہ پوری دنیا کچھ دنوں کے لیے اپنے گھروں میں قید ہونے پر مجبور ہوجائے، سب کچھ بند ہوجائے، رک جائے!
شاید دنیا کو یہ احساس ہو سکے کہ ہم کیسے جی رہے ہیں! "اروند بھائی آپ دیکھنا میری دعا بہت جلد قبول ہو گی۔میرے کانوں میں نفیسہ کے وہ الفاظ آج بھی گونج رہے ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ