دنیا اس وقت کرونا وائرس کا شکار ہے ، عمومی زندگی تعطل کا شکار ہے ۔ خوف کی فضا ہے ، معلومات محدود ہیں۔ ایسے میں افوہوں کا بازار گرم ہے۔ خوف اور معلومات کی عدم دستیابی ایک گہری کھائی کی صورت اختیار کر لیتی ہے جسے افوء بھرنے لگتی ہے۔
افواء ہر اس خبر کا نام ہے جس کا سیاق و سباق مشکوک ہو اور اس کا مقصد تعمیری نہیں تخریبی ہو۔ کبھی جان بوجھ کر جعلی خبریں پھیلائی جاتی ہیں اور کبھی کچھ یار دوست بس دل کے بہلانے کو کوئی شرانگیز خبر اڑا دیتے ہیں۔
جیسے گذشتہ دنوں اسلام آباد کے سیکٹر جی 13 سے ایک نوجوان کی لاش کی وڈیو پھیلائی گئی، اس کے ساتھ یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہ کرونا کا شکار ہوا ہے۔ وڈیو میں ایک فلاحی ادارے کا نمائندہ بھی بتا رہا ہے کہ موت کرونا کی وجہ سے "الگ تھلگ” رہتے ہوئے ہوئی ہے۔ وڈیو نے علاقہ مکینوں میں شدید خوف و ہراس پھیلا دیا۔ چند گھنٹوں کے اندر سینئر صحافی سید عاصم رضا نے صورت حال کو کھوج نکالا۔ نوجوان کا نشہ آور کمیکل پلا کر قتل کیا گیا تھا۔ بعد ازاں ڈپٹی کمشنر نے بھی واضع کیا اور پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی سامنے آ گئی۔ اس افواء کا مقصد قتل کو چھپانا تھا۔ لیکن اس سے فلاحی ادارے کا کردار بھی مشکوک ہو گیا، عوام میں خوف بڑھ گیا۔ اور پہلے سے دباؤ کا شکار سرکاری ادارے مزید الجھانے کی کوشش بھی کی گئی۔ نوجوان کے خاندان والوں کے دکھ میں کتنا اضافہ ہو، اور وہ کب تک لوگوں کے سامنے صورت حال کی وضاحت دیتے رہیں گے ؟
ایسی ہی ایک خبر ڈیرہ اسمعیل خان سے آئی، ایک بزرگ کی وفات کو کرونا سے جوڑا گیا۔ ٹیسٹ رپورٹ آنے سے قبل ہی افوء آڑا دی گئی۔ اس پر بھی سینیر صحافی فاروق محسود نے جعلی خبروں کی گوشمالی کی۔ اور صورت حال کو واضع کیا۔ یا درہے کرونا سے ہونے والی ہلاکت کی صورت میں تدفین کا طریقہ کار میڈیکل بنیادوں پر مختلف ہے۔ عزیز و اقارب میت کے قریب نہیں جا سکتے۔ میت کے غسل اور منتقلی کے علاوہ جنازے میں شرکت بھی محدود ہوگی۔
افواہوں کی گردش میں سوشل میڈیا نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ہر ایک کے پاس ایسے درجنوں پوسٹ پہنچیں جس میں کرونا کا شافی علاج بتایا گیا، یا اس وبائی مرض سے متعلق سازشی تھیوری پر بات کی گئی۔ کبھی حکومت کو لعن طعن تو کبھی چین اور امیکہ کو مورد الزام ۔
ان افواہوں سے لوگوں اور حکومتی اداروں کے بیچ اعتماد سازی کو نقصان ہوا۔ عوام میں ایک راشن جمع کرنے کی ایک دوڑ لگ گئی۔ عوام میں ہیجانی کیفیات نے کچھ علاقوں میں ریسکیو کے عمل کو بھی مشکل بنا دیا۔ یہاں تک کہ مذہبی اجتمعات سے متعلق لوگوں اور پولیس میں تصادم ہونے لگے۔
جعلی خبریں، افواہیں اڑانے والوں کو ہم نہیں روک سکتے، یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے۔ ہم یہ کر سکتے ہیں کہ صرف معتبر ذریعہ سے حاصل ہونے والی معلومات کو سنیں اور ان کی ہدایات پر عمل کریں۔ غیرمصدقہ اطلاعات کو پھیلانے سے گریز کریں۔ سوشل میڈیا پر تعمیری رجحان والے گروپس میں شامل ہوں، اور غیرضروری مواد کو پوسٹ کرنے سے بعض رہیں۔
وباء کا وقت مشکل ضرور ہے اسے مزید مشکل بنانے سے گریز کریں۔ مثبت سوچ کے ساتھ اس نفسیاتی دباو کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ