نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

انسانی غرور اور پیشگوئیاں۔۔۔ گلزار احمد

اس کا کہنا تھا کہ کامل غلبہ کے سوا میرا کوئی دوسرا انجام نہیں ہو سکتا۔ مگر اس کا جو انجام ہوا وہ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے
تاریخ میں ہمیں ہمیشہ ایسے ذھین ۔چالاک اور حوصلہ مند لوگ ملتے ہیں جنہوں نے اپنے یا دوسروں کے بارے میں بڑے یقین سے پیشگوئیاں کیں اور بہت سے سادہ لوگوں نے ان کی اس بات کو سچ مان لیا مگر زمانے نے کبھی ایسے لوگوں کی تصدیق نہیں کی۔
ایسی پیشگوئیوں کے پس پردہ ان کے مزموم مقاصد ہوتے ہیں اور بعض اوقات وہ لوگوں کو دھوکہ دینے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ان کے ہاتھ میں بے پناہ طاقت ۔موافق حالات ۔اور دولت کی کثرت ہوتی ہے۔
ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں نپولین بونا پارٹ اپنے وقت کا ایک عظیم جرنیل تھا۔اس نے شروع میں جو کامیابیاں حاصل کیں تو لوگ بہت مرعوب ہوے اور سمجھنے لگے کہ نپولین دنیا کے بڑے فاتحین سیزر اور اسکندر سے بھی بڑا فاتح ثابت ہو گا۔
اس طاقت اور گھمنڈ کے نتیجے میں نپولین کے ذھن میں یہ خیال پرورش پانے لگا کہ وہ تقدیر کا مالک ہے۔اس کا اعتماد اس قدر بلند ہوا کہ اس نے قریبی ساتھیوں اور مشیروں کے مشورے تک نظرانداز کرنا شروع کر دیے۔
اس کا کہنا تھا کہ کامل غلبہ کے سوا میرا کوئی دوسرا انجام نہیں ہو سکتا۔ مگر اس کا جو انجام ہوا وہ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے اور ہم سب کو معلوم ہے ۔
1815ء میں نپولین اپنے وقت کی سب سے بڑی فوج لے کر پیرس سے روانہ ہوا اس کا خیال تھا وہ دشمن کو راستے میں ہی تہس نہس کر دے گا۔اس کے چھ دن بعد واٹرلو کے مقام پر ڈیوک آف ولنگٹن نے اس کو شکست فاش دے دی ۔
ڈیوک اس وقت برطانیہ ۔ہالینڈ اور جرمنی کی مشترکہ فوج کی قیادت کر رہا تھا۔اب نپولین کے دماغ سے ساری ہوا نکل گئی اور امریکہ کی طرف فرار ہونے کے لیے بھاگ کھڑا ہوا ۔ابھی ساحل پر پہنچا ہی تھا کہ دشمن کے نگران دستوں نے اسے پکڑ لیا اور برطانوی جہاز پر قید کرلیا۔
اس کے بعد اسے جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے لیے جنوبی اٹلانٹک کے جزیرہ سینٹ ہیلینا پہنچا دیا گیا جہاں وہ تنہائی اور تلخ حالات میں پڑا 1821ء کو انتقال کر گیا۔جرمنی کے ہٹلر کا بھی یہی شوق اسے لے ڈوبا ۔ ہٹلر نے مارچ1936ء میں میونخ میں ایک مشھور تقریر کی اور کہا۔۔ میں اپنے راستے پر اعتماد کے ساتھ چل رہا ہوں کہ غلبہ میرے حق میں مقدر ہو چکا ہے۔
مگر ساری دنیا جانتی ہے کہ اس جرمن ڈکٹیٹر کے مقدر میں کیا لکھا تھا؟۔اس نے شکست کھائی اور خود کشی کر کے جان دے دی ۔ کیمونسٹوں نے1848ء میں جو اپنا منشور شائیع کیا تھا اس میں سب سے پہلے جس ملک میں اشتراکی انقلاب کی امید ظاہر کی گئی تھی وہ جرمنی تھا اور آپ دیکھیں 170 سال گزر گیے وہ بات پوری نہ ہو سکی ۔
1849ء میں کارل مارکس نے لکھا تھا سرخ جمھوریت پیرس کے اوپر سے جھانک رہی ہے مگر ڈیڑھ صدی سے زیادہ مدت گزرنے کے باوجود پیرس کے اوپر سرخ جمھوریت کا انقلاب طلوع نہیں ہو سکا۔ ہمارے زمانے میں بھی اپنے آپ کو سپر پاور سمجھنے والے ممالک میں غرور اس قدر بڑھا کہ وہ چھوٹے ممالک کے معصوم لوگوں کو گاجر مولی سمجھ کے کاٹنے لگے اور ان کی دولت اور عزت لوٹنے لگے۔ مقبوضہ کشمیر میں دنیا کا طویل ترین لاک ڈاون کر کے لوٹ مار شروع ہوئی۔
مودی سرکار نے انڈیا کے دانشور لوگوں کی عقل والی بات بھی نہیں سنی۔اور غرور بڑھتا گیا اب قسمت کی خوبی دیکھیے پورا انڈیا اللہ کے لشکر کے سامنے لاک ڈاون میں بیٹھا ہے ۔
افغانستان۔عراق۔لیبیا۔شام یمن ۔مشرق وسطی میں بار بار جنگیں مسلط کرنے والے طاقتور ممالک بھی نشے میں مست ہو گیے اور خیال کرنے لگے کہ ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ مگر اللہ تعالی کی ذات تو ہر چیز دیکھ رہی ہے۔
اللہ کی کتاب قران پاک کی پیشگوئیاں ابدی صداقت کا ثبوت پیش کر رہی ہیں۔ اللہ سبحانہ تعالی نے قران میں واضع فرما دیا تھا کہ۔۔ عنقریب ہم دکھائیں گے اپنی نشانیاں ان کو آفاق میں اور خود ان کے اندر یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جاۓ کہ وہ حق ہے ۔۔۔حم السجدہ 53 ..

اللہ تعالی کے لشکر تو نظر بھی نہیں آتے اور ہمارا یقین ہے کہ غرور کا سر نیچا کر دیتے ہیں۔ آج سے چند ماہ پہلے کوئی سوچ سکتا تھا کہ سات ارب انسانوں کی آبادی ایک نہ دکھائی دینے والے جرثومے کرونا کے آگے اس قدر بے بس ہو گی؟

مگر افسوس اس پر ہوتا ہے کہ اس کمزور ترین حالت میں بھی انسان نے کچھ نہیں سیکھا اور تکبر و غرور کی پیشگوئیوں سے باز نہیں آتا اور اللہ کی مخلوق کو غلام بنانے کا بھوت اس پر سوار ہے اور ان حالات میں بھی یہ شوق پورا نہیں ہوا۔

About The Author