دنیا بھر میں کہیں بھی جب بحران پیدا ہوتا ہے اور حکومتیں بحران کا جواب دینے میں کامیاب نہ ہوں تو اس کا نزلہ سب سے پہلے میڈیا پر گرتا ہے۔ میڈیا عوامی اور حکومتی دبائو میں سینڈوچ بن جاتا ہے۔ ایک طرف عوام کا حکومتوں کی نالائقی پر بڑھتا ہوا غصہ اور دوسری طرف حکومتوں کا میڈیا پر دبائو کہ وہ سب اچھا کرکے پیش کرے۔
اس وقت تین ممالک ایسے ہیں جہاں صحافیوں کو حکومتوں کے ردعمل کا سامنا ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ اور پاکستان ایسے ممالک ہیں جہاں کی حکومتیں خوش نہیں۔ آپ نے صدر ٹرمپ کو سنا ہو گا کہ وہ میڈیا پر برس رہے تھے جب انہوں نے وائرس کو چینی وائرس قرار دیا یا بعد میں ایک اور صحافی کے سوال پر بھڑک اٹھے تھے کہ اس سے زیادہ بیوقوف کوئی نہیں ہے۔ پاکستان میں بھی عمران خان صاحب میڈیا کے سوالات سے ناخوش ہیں اور اب کی دفعہ جو پریس بریفنگ رکھی تھی اس میں صرف چار صحافی بلائے گئے تھے‘ جس پر نسیم زہرا نے سوال بھی اٹھایا کہ باقی صحافی کہاں ہیں۔ اس پر کہا گیا کہ بیٹھنے کی جگہ کم تھی۔ حالانکہ اسی جگہ وہ دو دفعہ دس دس پندرہ پندرہ صحافیوں کے ساتھ بریفنگ کر چکے تھے۔
ذرائع کہتے ہیں کہ دراصل اب کی دفعہ جب صحافیوں کو فون کیے گئے تھے کہ وہ تشریف لائیں تو زیادہ تر نے یا تو وزیر اعظم آفس کے فون اٹھانے سے انکار کر دیا یا وقت کی کمی کا بہانہ بنا کر معذرت کر لی۔ اب یہ نیا ٹرینڈ ابھر رہا ہے کہ صحافی وزیر اعظم صاحب کی پریس بریفنگ میں جانے کو تیار نہیں ہیں۔ جس طرح پریس بریفنگ کے بعد سوشل میڈیا ٹیم نے گندے گندے ٹرینڈ ٹویٹر پر چلائے‘ صحافیوں کو گالیاں دی گئیں اور محمد مالک کی گھریلو تصویریں سوشل میڈیا پر چلائی گئیں تو لوگوں کو وہ دور یاد آ گیا جب بینظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی تصویریں جہازوں کے ذریعے شہروں میں گرائی جاتی تھیں۔ اس وقت سوشل میڈیا نہیں تھا‘ لہٰذا اخراجات زیادہ کرنے پڑتے تھے۔ اب آپ کو زیادہ خرچ کی ضرورت نہیں رہی۔
خزانے سے تین چار کروڑ روپے نکال کر ایک ٹیم بنا لیں‘ وہ آپ کے اشارے پر چوبیس گھنٹے مصروف رہے گی۔
یہی وجہ تھی کہ کابینہ کے پچھلے اجلاس میں جب اس پریس بریفنگ کا ذکر ہوا تو وزیر اعظم ناخوش تھے کہ ایسے صحافیوں کو کس نے بلایا جنہوں نے ان سے ”غلط‘‘ سوالات کیے۔ ذرائع کہتے ہیں‘ یہ بھی کہا گیا کہ اس طرح کے سوالات سے حکومت کا معاشی پیکیج پیچھے چلا گیا۔ اس پر ایک اہم وزیر‘ جنہیں ابھی بڑی مشکل سے دوبارہ وزارت ملی ہے‘ نے خوشی سے سب کو کابینہ میں بتایا کہ فکر نہ کریں‘ ان تمام صحافیوں‘ جنہوں نے وزیر اعظم سے غلط سوالات کیے تھے‘ کی سوشل میڈیا پر دھنائی کی جاری ہے۔ وزیر موصوف خوشی سے سب کو تسلی دے رہے تھے کہ وہ صحافی اب چھپتے پھر رہے ہیں کہ سوشل میڈیا ان کے پیچھے ہے۔
اب بندہ کیا کرے‘ جب پریس کانفرنس ختم ہو اور اس کے بعد یہ پلان بنایا جائے کہ اب صحافیوں کے خلاف کیا ٹرینڈ چلانے ہیں۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کیا ترجیحات ہیں اور میڈیا کو کیسے ٹھیک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب صحافی پریس بریفنگ میں جانے سے کترا رہے ہیں اور جمعہ کے روز دی گئی بریفنگ میں صرف چار صحافی موجود تھے ‘جن میں ایک سرکاری ٹی وی سے تھا۔ تو کیا حکومت کو اس سے خوش ہونا چاہیے کہ اب صحافی وزیر اعظم کی بریفنگ میں جانے سے کترا رہے ہیں اور کیا یہ حکومت کی کامیابی سمجھی جانی چاہیے؟ کیا اسے حکومت کی سوشل میڈیا ٹیم‘ جو حال ہی میں تشکیل دی گئی ہے‘ کی پہلی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے کہ صحافی پریس بریفنگ میں جانے سے کترا رہے ہیں کہ اس کے بعد کون اگلے دو تین دن تک گالیاں کھائے اور آپ کے گھر والوں کی تصویریں بھی شیئر کی جائیں۔
جب میں وزیر اعظم ہاؤس بریفنگ کے لیے گیا تھا اور ایک حکومتی عہدے دار سے بات ہو رہی تھی تو میں نے پوچھ لیا: کیا یہ طے کر لیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے دوبارہ سیاست نہیں کرنی‘ نہ ہی انہوں نے الیکشن لڑنے ہیں اور نہ ہی انہیں میڈیا کی گڈ وِل چاہیے یا ان کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا انہیں جتوا دے گا؟ اس لیے یہ وقت وہ سوشل میڈیا پر گزارنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ اس پالیسی سے جو نقصان ہوا ہے اس کا آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی پارٹی‘ دونوں اٹھارہ ماہ میں دوبارہ کھڑی ہو گئی ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں نے جس انداز میں حکومتیں کی تھیں اس کے بعد تو انہیں اٹھارہ برس تک اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہونا چاہیے تھا‘ لیکن آپ لوگوں نے اس انداز میں حکومت چلائی اور میڈیا کو مس ہینڈل کیا ہے کہ وہ دوبارہ قومی سین پر نہ صرف اُبھری ہیں بلکہ سندھ کی حد تک معاملات پنجاب سے بہتر نظر آ رہے ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ میڈیا جان بوجھ کر مراد علی شاہ کو بڑھا چڑھا کر دکھا رہا ہے کیونکہ میڈیا ہم سے خوش نہیں ہے۔
میں نے کہا: آپ سب ملبہ میڈیا پر ڈالتے جائیں گے تو اس کا کوئی نقصان نہیں ہو گا بلکہ آپ خود ہی کوئی بہتر حکمت عملی نہیں بنا سکیں گے اور خود اپنا نقصان کرتے جائیں گے۔ وہ کہنے لگے کہ میڈیا بڑھا چڑھا کر ایشوز بیان کرتا ہے۔ میں نے کہا: میڈیا کیا کرے عوام جب مشکلات بتائیں تو میڈیا ان کے ساتھ کھڑا ہو گا یا حکومت کا بیانیہ بیچے گا؟ اب جب ایران کے بارڈر پر حکومت انتظامات نہیں کرے گی تو اس پر بحران تو پیدا ہو گا۔ میڈیا کیسے اس کو اچھا بنا کر پیش کرے؟ اسی طرح جو کورنٹین کیمپس بنائے گئے ان کی جو حالتِ زار سامنے آئی اس کے بعد بھی میڈیا کیسے عوام کی بات نہیں کرے گا؟ ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کے لیے کوئی حفاظتی ڈریس نہیں ہیں اور وہ بے چارے ڈرے بیٹھے ہیں‘ سب نرسیں‘ ڈاکٹرز اور دیگر عملہ کیسے مریض کے قریب جائے جب ان کے پاس مناسب انتظامات نہیں ہیں؟ جب میڈیا یہ سب کچھ دکھائے تو حکومت ناراض ہو جاتی ہے۔ میڈیا تو دراصل حکومتوں کی مدد کر رہا ہوتا ہے کہ جن ایریاز پر اس کی نظر نہیں‘ وہاں اس کی توجہ کی ضرورت ہے۔ اب اس وقت جب بحران ہے‘ اس وقت ہی یہ نئی تھیوری مارکیٹ میں پیش کی گئی ہے کہ جو وزیر اعظم یا حکومت کو مشکل سوالات کر رہے ہیں اور چیلنج کر رہے ہیں وہ غلط کر رہے ہیں‘ وہ معاشرے کے لیے خطرہ ہیں‘ وہ سب غلط ہیں۔
ایسا صرف پاکستان میں نہیں بلکہ برطانیہ میں بھی آج کل ایک بحث چل پڑی ہے۔ برطانیہ میں بھی وزیر اعظم بورس جانسن جو اس وقت خود کورونا وائرس کا شکار ہیں پر شدید تنقید شروع ہوگئی ہے۔ انہوں نے مارچ کے پہلے اور دوسرے ہفتے ایک ٹی وی مارننگ شو میں یہ فلاسفی پیش کی تھی کہ ہمیں اس کورونا بحران کو زیادہ سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں ہے‘ ہمیں شکایتیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہنسی خوشی اس مشکل کا سامنا کریں۔ اس پر اس شو کے میزبان نے وزیر اعظم کو آگے سے مزید سوالات نہیں کیے کہ اس Herd Immunity کے کیا کیا نقصانات بھی ہو سکتے ہیں‘ اس بارے میں کچھ سوچا ہے؟ اس پر ڈیلی ٹیلی گراف نے سرخی جمائی کہ جو وزیر اعظم بورس جانسن حکومت کی حکمت عملی پر سوالات اٹھا رہے ہیں وہ نہ صرف غلط ہیں بلکہ وہ ہم سب کے لیے خطرہ ہیں۔ جو بورس جانسن کی اس تھیوری اور حکمت عملی کا ساتھ دے رہے ہیں وہ بالکل درست کر رہے ہیں۔
اب جب پورے برطانیہ میں بیماری پھیلنا شروع ہو گئی ہے اور حالات بگڑنا شروع ہو گئے ہیں تو ایسی آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں کہ پچھلے پندرہ دنوں میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ برطانوی عوام کے لیے خطرہ وہ لوگ یا صحافی نہیں جنہوں نے حکومت کی کورنا حکمت عملی پر سوالات اٹھائے بلکہ برطانیہ کے لیے اصل خطرہ وہ ہیں جنہوں نے بورس جانسن کی کورونا وائرس سے نمٹنے کی حکمت عملی کو چیلنج نہیں کیا اور آنکھیں بند کرکے یقین کر لیا تھا۔
اب کہا جانے لگا ہے کہ نہیں برطانیہ کے لیے اصل خطرہ وہ ہیں جنہوں نے وزیراعظم کی باتوں پر مارننگ شو میں پکا یقین کرلیا اور آگے سے چپ رہے۔ وہ لوگ خطرہ ہیں جنہوں نے بورس جانسن کو اس کی تھیوری پر چیلنج نہیں کیا جس نے اب سب برطانوی شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور