تاخیر سے سہی لیکن فیصلہ وہی لاک ڈاﺅن والا ہی کرنا پڑا، یہ پہلے کرلیا جاتا (کم ازکم ایک ہفتہ قبل) تو زیادہ بہتر تھا۔
دُکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ موجودہ حکومت میں اہم عہدوں پر فائز کچھ سیاسی مسافر صرف نوکری پکی کرنے کےلئے صبح وشام ایسی باتیں کر رہے ہیں جن کی ضرورت نہیں ہے۔
پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت جو پچھلے بارہ برسوں سے پنجاب بیس میڈیا اور مخالفوں کے نشانے پر ہے کو داد دینا پڑے گی کہ اُس نے نازک صورتحال میں سیاست کرنے کی بجائے کام پر توجہ دی اور آج دنیا اس کی ستائش پر مجبور ہے
مگر ایک بڑی "سیاسی مسافرہ” کا توپ خانہ اس پر اب بھی گولہ باری کر رہا ہے۔
بہت اچھا ہوتا کہ وزیراعظم اس وقت اے پی سی بلالیتے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اور نون لیگ کےساتھ ان کا بیٹھنا ان اصولوں کی شکست ہے جن پر انہوں نے22سال عمومی اور پچھلے 8سال کے دوران خصوصی طور پر سیاست کی،
ایک ایسے وقت میں جب ہمیں ہر سطح پر اتحاد واتفاق کےساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت تھی ہم ایک نہیں ہوپائے،
گو قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے حزب اختلاف کے رہنماﺅں کو فون کر کے پارلیمانی کمیٹی بنانے کےلئے صلاح مشورہ کیا۔
اگلے ایک دو دن میں یہ کمیٹی بن بھی جائے گی مگر کڑواسچ یہ ہے کہ یہ پارلیمانی کمیٹی اس نقصان کا ازالہ نہیں کر سکتی جو ہو گیا۔
حکومت اور سیاسی قیادت ایک صف میں کھڑے ہوتے تو عوام کا حوصلہ بڑھتا۔
البتہ یہ حقیقت ہے کہ وبا کے اس موسم میں نون لیگ نے بھی کھل کر نفرتوں کی سیاست کی، اس کی دوسرے درجے کی قیادت نے کسی قسم کے اعداد وشمار خصوصاً پچھلے ڈیڑھ ماہ کے دوران بیرون ملک سے آنے والے پاکستانیوں کے حوالے سے جمع کئے بغیر ایسی باتیں کیں جو بدترین فرقہ پرستی کے زمرے میں آتی ہیں، کاش لیگی قیادت کم ازکم اس ایک میڈیا ہاﺅس جس پر وہ پچھلے دس سال مہربان رہی سے معلومات حاصل کرلیتی۔
لیکن افسوس کہ تیر کمان سے نکل چکے اور لیگی رہنماﺅں کی باتوں سے لوگوں کے کلیجے چھلنی ہوئے۔
مداوا کیسے ہوگا فی الوقت تو اس کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔
سندھ نے لاک ڈاﺅن کرنے میں پہل کی عین اُس دن جب سندھ لاک ڈاﺅن کرنے جارہا تھا وزیراعظم کی ریکارڈ شدہ تقریر نشر کر دی گئی۔ انہوں نے لاک ڈاﺅن کی مخالفت کی اور اپنا بیانیہ پیش کیا۔
یہ کہنا کہ وزیراعظم کو سندھ حکومت نے اعتماد میں نہیں لیا درست نہیں،
لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کرنے سے قبل سندھ کے وزیراعلیٰ نے دو تین اہم کام کئے، پہلے انہوں نے گورنر، آئی جی اور چیف سیکرٹری سے مشترکہ مشاورت کی، اس اجلاس میں صوبائی سیکرٹری داخلہ سمیت خزانہ کے سیکرٹریز بھی موجود تھے۔
اس اجلاس کے بعد انہوں نے چند بڑی مخیرشخصیات سے ملاقات کی اور آخر میں اس آل پارٹیز کانفرنس کی صدارت کی جس میں سندھ اسمبلی کے قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی سمیت تمام سیاسی جماعتیں شامل ہوئیں۔ اے پی سی نے وزیراعلیٰ کے پیش کردہ اعداد وشمار، کئے گئے اقدامات اور اُٹھائے جانے والے اقدامات سے اتفاق کیا۔
اس اتفاق رائے سے سندھ میں لاک ڈاﺅن کا اعلان ہوا، پنجاب نے ایک دن بعد اس کی پیروی کرتے ہوئے 14دن کے لاک ڈاون کا اعلان اتوار کی سپہر کیا۔
سندھ حکومت کے حتمی فیصلے سے گورنر عمران اسماعیل وزیراعظم کو براہ راست آگاہ کر چکے تھے۔
ذرائع اس امر کی تصدیق کررہے ہیں کہ وزیراعظم کو اپنی تقریر ریکارڈ کروانے سے قبل معلوم تھا کہ سندھ حکومت لاک ڈاﺅن کرنے جارہی ہے، انہیں تقریر ملتوی کر دینی چاہئے تھی یا پھر مشیروں سے مشاورت کر کے سندھ کے وزیراعلیٰ سے بات کر لیتے اور مراد علی شاہ کے صوبائی لاک ڈاﺅن کی بجائے وزیراعظم ملکی سطح پر لاک ڈاﺅن کا اعلان کرتے۔
ایسا ہو جاتا تو ملک کے اندر اور باہر اچھا تاثر جاتا۔ ستم بالائے ستم ان کے بعض مشیروں کے پچھلے تین دن کے بیانات ہیں جن سے سیاسی نفرت بڑھی اور عوام میں مایوسی بھی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعلیٰ پنجاب نے لاک ڈاﺅن کا فیصلہ اپنے قائد اور وزیراعظم سے مشورے کے بغیر کیا؟ بظاہر تو ایسا ہی لگ رہا ہے کیونکہ اس حوالے سے جو اطلاعات ہیں وہ کچھ اور سمجھاتی ہیں لیکن یہ وقت ان باتوں کا نہیں۔
حیرانی اس بات کی ہے کہ وزیراعظم کے وہ مشیر جو ان کی کچن کابینہ سمجھے جاتے ہیں، انہیں ملکی اور عالمی صورتحال سے درست طور پر آگاہ نہیں کرسکے۔
ان کا فرض تھا کہ وہ وزیراعظم کو بتاتے کہ ڈیڑھ ماہ کے دوران ایران کے راستے سات ہزار زائرین، سعودی عرب سے 5ہزار زائد عمرہ زائرین اور دیگر ممالک سے آنے والے ہزاروں پاکستانیوں کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا بھی شبہ ہے۔
اب دو صورتیں تھیں، ان سب کو قرنطینہ میں رکھا جاتا ( جیسےایران سے آئے زائرین کو جیسے رکھا گیا) ثانیاً یہ کہ رائے ونڈ اجتماع جس بارے میں ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ ہے کہ اس میں آٹھ لاکھ افراد شریک ہوئے ناہونے دیا جاتا،
ریاست اپنی اتھارٹی منواتی۔
ہمیں مان لینا چاہئے کہ قدم قدم پر غلطیاں ہوئیں، ان کی غلطیوں کے سنگین نتائج سامنے آرہے ہیں۔
پچھلے تین چار دنوں کے دوران کورونا وائرس کے جتنے متاثرین (تعداد کے حوالے سے) سامنے آئے وہ پریشانی پیدا کرتے ہیں۔ بہرطور دیر آید درست آید، لاک ڈاﺅن کا فیصلہ صوبوں نے کرہی لیا۔
آئین کے آرٹیکل245 کے تحت اسلام آباد اور آرٹیکل131Aکے تحت ملک بھر کےلئے فوج کی خدمات حاصل کرلی گئیں۔
آزاد کشمیر میں تین ہفتے لاک ڈاﺅن کا اعلان ہوا۔
وقت ہاتھ سے نکل نہیں گیا، وزیراعظم اب بھی چاہیں تو دو کام کر سکتے ہیں، چاروں صوبوں آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے آئینی سربراہوں کی ویڈیو لنک کانفرنس کے ذریعے لاک ڈاﺅن میں سفید پوش اور غریب طبقات کی مدد کےلئے مشترکہ فیصلہ کر کے اعلان کر سکتے ہیں وہ ملکی سیاسی جماعتوں کے قائدین کی اے پی سی بھی منعقد کر سکتے ہیں
گوکہ یہ دونوں کام ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے، وجہ عرض کرنے کی ضرورت نہیں۔
فرضی بیانیہ پر نفرت کی سیاست سے بنے ماحول میں ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا معجزہ ممکن نہیں۔
یہ عرض کرنا بہرطور ضروری ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ نفرتوں کو دفن کر کے اتحاد واتفاق کےساتھ مشکلات کا مقابلہ کیا جائے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر