بہت دنوں کے بعد ٹیرس پر بیٹھ کر چڑیوں کی چہچہاہٹ سُننے کا موقع ملا، نئے موسم کی کھلتی نئی کلیاں اور نوجوان ہوتے پھول اپنے ہونے کا پتہ دے رہے ہیں۔ بہت دنوں کے بعد بہار دیکھی مرجھائی سی اور رنگ ہوتے ہوئے بھی بے رنگ سی۔
ذرا سی بارش کے بعد نکھری نکھری ہر چیز، تارکول کی سڑکیں دھلی ہوئی اور شفاف، ہجوم کے بغیر بازار۔۔ یہ سب بہت سارے دنوں کے بعد دیکھنے کو مل رہا تھا، اَسؔی کی دہائی کا اسلام آباد یاد آ گیا جب نہ زیادہ رش، نہ شور اور نہ ہی بے ہنگم آوازیں۔ تب خاموشی تھی مگر تنہائی نہ تھی۔ رنگ یوں بے رنگ نہ تھے، خوشبو تھی اور اُس کا احساس بھی۔
ابا کی انگلی پکڑے روز اینڈ جیسمین باغ کی رونقیں، باغ کے تقریباً سامنے درختوں کے جھنڈ کے درمیان سخی محمود بادشاہ کا دربار اور اُس پر لہراتا سیاہ علم بہت یاد آیا۔
سخی محمود بادشاہ کے دربار کے دروازے سے جُڑا چھوٹا دروازہ اور صحن میں موجود ملنگ اور ملنگوں کی یا حسین کی صدائیں سب کانوں میں گونج رہی ہیں، صحن میں نصب علم اور اُس کے نیچے جلنے والے چراغ، جلی موم بتیاں اور اگربتی کی خوشبو سب یاد آئے۔
بہت دنوں کے بعد پرانا اسلام آباد یادوں کی زنجیروں کو توڑ کر آزاد ہوا، شہر آزاد ہوا اور ہمیں ’تنہائی‘ میں جانے کا حکم۔۔۔ شہر خاموش ہوا تو خاموشی ہمیں کاٹنے کو دوڑ رہی ہے، اب کے بہار خوف کے موسم میں اور بے رنگ ہے۔
جہاں کرونا کی عالمی وبا نے دنیا کو حواس باختہ کر رکھا ہے وہاں ہمیں سوچ کی دعوت عام بھی ہے کہ ہم نے خود کے ساتھ کیا کیا ہے۔
قدرت ناراض اور رحمت روٹھ رہی ہے۔
بے برکتے دن اور رات، بے صبرے لمحے اور بے رنگ موسم ہمیں بے نصیب کیوں بنا رہے ہیں۔ ہاتھوں میں بریگیڈیئر طاہر محمود کی کتاب ’اے لون لانگ واک‘ پڑھتے ہوئے سوچوں کی یلغار تھی، خود سے سوال تھے اور خود سے بے حساب شکوے۔
کورونا کی عالمی وبا نے جہاں قدرت اور اپنے پیاروں سے قربت کا موقع دیا ہے، وہیں پاکستان کی سیاست کو بھی بہتری کا ایک موقع مہیا کیا ہے۔ وبا کے پاکستان پہنچنے کے بعد تفتان میں زائرین کی نامناسب دیکھ بھال کا معاملہ ہو یا تبلیغی اجتماع میں شامل لاکھوں شائقین اسلام کی مس ہینڈلنگ کا مسئلہ، پنجاب اور وفاق کے تاخیری اقدامات یا ڈی جی آئی ایس پی آر کی وزیراعظم کے قوم سے خطاب کے بعد لاک ڈاؤن کے اعلان جیسی اہم ڈویلمپنٹ۔۔۔
سب ایک طرف مگر مراد علی شاہ اور بلاول بھٹو کی قائدانہ صلاحیتوں نے عوام کے دل ضرور موہ لیے ہیں۔
پیپلز پارٹی بہت عرصے کے بعد عوام کے دلوں میں گھر کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ بلاول نے ایک قدم آگے بڑھ کر وزیراعظم کو ’اپنایا‘ کھلے دل کے ساتھ وزیراعظم کا ساتھ دینے کا اعلان کر کے ثابت کیا کہ ملک کا مستقبل عوام دوست رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے۔
سندھ مستقل آگے رہا ہے، سندھ کے عوام اپنے انتخاب پر نازاں ہیں اور پیپلز پارٹی سے روٹھے ووٹروں کے لیے ایک بار پھر ان کی قیادت باعث صد افتخار۔۔۔
شہباز شریف بھی پیچھے نہ رہے، شہباز نے بھری پرواز اور وزیراعظم کا ساتھ دینے کی دی آواز اور مفاہمت کا بڑھایا ہاتھ۔ اپوزیشن کا ذمہ دارانہ کردار اس بات کا ثبوت ہے کہ اپوزیشن اس سانحے کو قوم کے لیے موقعے میں بدلنے کے لیے سنجیدہ ہے۔
جناب وزیراعظم کرونا کے اس موسم میں عوام تنہائی میں جا رہے ہیں تو آپ سے درخواست ہے کہ آپ تنہائی سے نکلیں۔
انا کی جنگ میں بہت سے موسم بےثمر ہو جاتے ہیں، اپوزیشن کے بڑھے ہاتھوں کو تھام لیجیے اور قوم کی رہنمائی کیجیے۔ کسی دن بنی گالہ کے خوبصورت ٹیرس پر چڑیوں کی چہچہاہٹ اور پھولوں کے بیچ اس قوم کے مستقبل کو محفوظ بنانے کا اعلان کیجیے۔
بشکریہ بی بی سی اردو
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ