سیاست کا زوال ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر بالادست طبقے کی سیاست کا زوال ۔۔۔کہ محنت کشوں کی سیاست ہونا ابھی باقی ھے۔۔۔
پرانے زمانے ایک کہاوت تھی کہ اگر کلاسیکل موسیقار یہ کہیں کہ موسیقی میں سکون نہیں ھے تو سمجھ لیجیئے کہ موسیقی پر زوال آگیا ھے۔ آج کے دور میں بھی اگر پاکستان کا ہر سیاستدان ملک و عوام کو درپیش زلزلے، سیلاب، ٹڈی دل کی تباھی، فصلات کی بیماری، ملیریا، ٹی بی، ڈینگی، کرونا جیسی انسانی جان لیوا بیماریوں اور وباؤں وغیرہ جیسے ہر مسئلے کی بربادی پر یہ کہتا ھے کہ اس پر سیاست نہیں ہونی چاہئیے تو یہ سیاست کا زوال ھے۔ خالی سیاست کا زوال ہی نہیں بلکہ یہ بالادست طبقے کی ریا کاری، منافقت اور خباثت کی بھی انتہاء ھے۔ اور یہ اسی خباثت، ریا کاری و منافقت کا شاخسانہ ہی تو ھے کہ پیسے بنانے، لوٹ مار اور استحصال کرنے ، منافعوں، جائیدادوں اور وسائل میں اضافہ کرنے، وابستگیوں کی خرید و فروخت اور مفادات کے بدلے حمایت (ووٹ ) حاصل کرنے کو سیاست بنا دیا گیا ھے۔ اس طرح زوال کی اس سیاست کے بلبوتے پر کسی کے دکھ درد کو محسوس کرنے، کسی کمینگی پر شرم حیا کرنے، ضمیر کی خلش کی آواز سننے، عزتوں کی پامالی پر پانی پانی ہونے، عیاری و بدکاری سے گریز کرنے کی بجائے چوری اوپر سینہ زوری جیسی بداعمالیوں کو رہبر و رہنما بنا لیا گیا ھے ۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ سیاست بالادست طبقے کی سیاست ھے۔ محنت کش طبقے کا اس سیاست سے کوئی تعلق نہیں ۔ انسانی تاریخ گواہ ھے کہ جب سے انسانی سماج طبقات میں ڈھلا ھے تب سے طبقاتی سماج کا ہر رشتہ، ہر ناطہ، ہر جذبہ، ہر احساس اور ہر ادراک طبقاتی چلا آ رہا ھے۔ اور ان دو طبقات میں نا قابلِ مصالحت کشمکش جاری ھے۔ بظاہر بالادست طبقہ اپنی دانش اور وسائل سے محنت کش طبقے کی مجبوری و محرومی کیوجہ سے اس طبقے کو اپنا حامی و مطیع تو بنا لیتا ھے۔
لیکن بالادست طبقے کیلئے محنت کش طبقے کی حمایت اور اطاعت حتمی نہیں ہوتی۔ وقت اور احساس غریبوں، محروموں اور مظلوموں کے ادراک میں بدلاؤ لاتے رہتے ہیں۔ کشمکش جاری رہتی ھے۔ اس کشمکش میں محنت کش طبقے کی پہلی جیت بالادست طبقے سے نفرت اور اس نفرت کی بیناد پر ان سے اعلانِ لا تعلقی ہوتا ھے۔ آئیے ھم محنت کش ، بالادست منافق طبقے کی سیاست سے لا تعلقی کے عزم کا اظہار کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔
بس پہلا قدم اٹھانے کی دیر ھے پھر محنت کش طبقے کی بالادست حکمران طبقے اور حکمرانوں ہر فتح یقینی ھے۔ کوئی اعتبار کرے نہ کرے مگر غاروں سے نکل کر غلامی سے چھٹکارے، جاگیرداری کے متروک اور سرمایہ داری کے زوال پذیر ہو کر تعفن زدہ ہونے تک فتوحات کسی کا احسان نہیں بلکہ یہ سب محنت کش طبقے کے اپنے ہی بازوؤں کے زور کے سفر کی جیت کی دَین ھے۔۔۔۔۔۔۔
سچے جذبوں کی قسم ، جیت محنت کش طبقے کا مقدر ھے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر