ہماری دنیا جسے ہم بہت طاقتور سمجھے تھے وہ تو ریت کی دیوار ثابت ہوئی کیونکہ اس میں ہم نے ایٹم بم بناے ۔ہوائی اور بحری جہاز بناے۔اونچی عمارتیں بنائیں اور فوج اور اسلحہ اکٹھا کیا مگر یہ ساری قوت اور شان و شوکت ایک ایسے جرثومے کے آگے بے بس ہے جو ہمیں نظر بھی نہیں آتا۔
کرونا وائیرس نے ہماری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ۔ انڈیا جہاں پر RSS کے غنڈے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے تھے اسے اپنی جان کی پڑ گئی اور اس کے کارکن قتل و غارت چھوڑ کر گاو ماتا کے پیشاب پی کر علاج ڈھونڈ رہے ہیں۔ شاید کچھ عرصے کے لیے ہی سہی کیمونل تشدد رک گیا ہے ۔امریکہ اور یورپ جس کی ترقی پر ہم رشک کرتے تھے وہاں بھی زندگی دربدر ہو گئی ۔دنیا کی سٹاک ایکسچیج ۔
ایر لائینز۔ہوٹلز اس وایرس نے ویران کر دیے۔ ایک بزرگ نے ایک حکایت لکھی ہے کہ وہ رات کو سو رہے تھے کہ اچانک ایک مچھر نمودار ہوا اور اسے تنگ کرنے لگا۔اس بزرگ نے مچھر سے کہا بھائی مجھے سونے کیوں نہیں دیتے ۔ مچھر نے بزرگ کو جواب دیا کہ جناب یہ زندگی جاگنے اور کام کرنے کے لیے ہے جب تمھارے سونے کا وقت ہو گا تو میں تجھے نہیں کاٹونگا۔ کرونا وائیرس بھی ویکنگ اپ سگنل ہے کہ زندگی جنگوں۔دھشت گردی۔خونریزی کے لیے نہیں بلکہ اللہ کے قانون کے مطابق امن و امان سے رہنے کا نام ہے۔
طاقتور ملکوں اور گروھوں نے معصوم لوگوں کو کچلنے کے لیے طرح طرح کے ہتھیار استعمال کیے لاکھوں بے گناہ انسان مار دیے ۔درجنوں ملکوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور اب بھی ظلم کے نیے نیے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ جب ایک معمولی سے وائرس نے رنگ دکھانا شروع کیا تو خدا بھی یاد آ گیا۔UNO بھی کروٹ لے کے اٹھ بیٹھی سارک کے ملک بھی جو ایک ساتھ بیٹھنے سے کنی کترا رہے تھے ایک دم متحد ہو کر میدان میں آ گیے۔
اللہ تعالی کی ذات بھی انسان کے غرور کو کیسے خاک میں ملاتی ہے کبھی ایک ننھا مچھر نمرود کو سبق سکھا نے بھیج دیتا ہے کبھی چھوٹے پرندوں کا جھنڈ ابرہا کے لشکر کو کھاے ہوے چارے کی طرح چھوڑ جاتا ہے کبھی سکندر اعظم ایک مادہ مچھر کا شکار بن جاتا ہے۔
دنیامیں ہم جن چیزوں کو حقیر سمجھتے ہیں وہ بالکل ایسی نہیں۔ آپکی مچھر دانی میں اگر ایک مچھر بھی گھس جاے تو سونا حرام کر دیتا ہے۔ ہمارے دوست پوچھتے ہیں بیماریاں تو اور بھی بہت ہیں لیکن ساری دنیا کا میڈیا ایک کرونا لے کے کیوں بیٹھ گیا۔ جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسری تمام بیماریاں عام طور پر غریب اور مڈل کلاس پر زیادہ اثر کرتی ہیں کرونا نے دنیا کے ایک فیصد امراء کی زندگی اجیرن کر دی ۔
غریب ملک اور لوگ تو پہلے سے ان امراء کے ظلم و جبر سے پس رہے تھے اور مر رہے تھے لیکن اب دنیا کے بڑے صنعتکار اور حکمران کرونا سے سب سے زیادہ متاثر ہوے ہیں ۔میڈیا بھی امراء کا غلام ہے اس لیے دھاڑ دھاڑ کر رہا ہے۔ ائیر لاینز ۔ہوٹلز۔ریسٹوریٹس۔سٹاک ایکسچینج۔ ڈانس کلبز۔ قہبہ خانے سب ویران ہو گیے یہ سب چیزیں غریب تو استعمال نہیں کر رہا تھا۔ ان ظالموں نے معصوم لوگوں کو ڈرون طیاروں۔ڈیزی کٹر بموں۔ دھشت گرد حملوں سے مارا اور خود تماشا دیکھتے رہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ یہ اوپر کا طبقہ ان غلاموں کی نوکری کے بغیر زندہ بھی نہیں رہ سکتا اور ان نوکروں کے ہاتھوں کی وجہ سے کرونا کا خطرہ سر پر ہر وقت منڈلاتا رہتا ہے۔ ان لوگوں نے سب سے زیادہ پیسہ لوگوں کو مارنے والے اسلحے سے بنایا ۔اسلحہ بیچنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی سے جنگیں کرائی گئیں اور انسان کی بھوک اور علاج پر توجہ نہیں دی حالانکہ یہ پیسہ بیماریوں کی ویکسین اور دوایاں تیار کرنے اور بھوک کم کرنے پر بھی لگایا جا سکتا تھا۔
ہمارے ملک کے حکمران جو ستر ستر سیکورٹی گاڑیوں کی فوج ظفر موج کے جلوس لے کر چلتے ہیں وہ بھی کانپ رہے ہیں اور غلاموں کو چھٹی دے رہے ہیں مبادا وہ خود نہ کرونا میں مبتلا ہوں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ویک اپ کال کا ہماری قوم کیا جواب دیتی ہے۔بیرونی امداد سے موج مستی کرنا اور عوام کو ایندھن کے طور پر استعمال کرنا ہے یا توبہ تایب ہونا ۔بلیک مارکیٹنگ ۔ ذخیرہ اندوزی کر کے عوام کا خون چوسنا یا خوف خدا کر کے لوگوں کی مدد کرنا۔کچھ اشیاء مہنگی کر کے تاجروں نے اپنا چہرہ تو دکھا ہی دیا ہےاللہ جانے آگے کیا ہوتا ہے ۔پاکستان میں کچھ نیم حکیم لوگوں نے کرونا کی دوا بنا کر بیچنا بھی شروع کردی ہے حالانکہ پوری دنیا دوا بنانے کہ سرتوڑ کوشش کر رہی ہے۔
ہمارے بنگالی بابے۔ عامل۔ سادھو ۔جوگی۔دم والے چند منٹوں میں پھوک مار کر بیماری ختم کرنے کا دعوی کر رہے ہیں ۔کیا ہم مردار خور چیلیں ہیں جو آفتوں سے پیسے کماتی ہیں؟چین کے وہان صوبے کی امداد کے لیے تین ھزار ہیلتھ ورکر دوسرے علاقوں سے خطرناک جگہ پہنچے۔ان کی جہاز کی واپسی ٹکٹوں پر واپسی کی تاریخ ۔۔day of victory لکھی تھی۔
مسلسل ماسک اوڑھنے کی وجہ سے ان کے منہ پر گڑھے پڑ گیے مگر انہوں نے ایک ہو کر اس مرض پر قابو پالیا اور قوم کے ہیرو بن گیے۔ جب وہ وہان سے واپس جا رہے تھے تو چینی قوم کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو بہنے لگے۔۔کاش پاکستان کے لوگ ۔حکمران اور سیاستدان بھی ایک ہو کر اس آفت کا مقابلہ کریں۔ آمین
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ