ایسی خبریں آرہی ہیں کہ حکومت اور جنگ- جیو میڈیا گروپ کے سیٹھ شکیل الرحمان کے صاحبزادے میر ابراہیم کے درمیان پس پردہ مذاکرات کے بعد نیب اسی مہینے مارچ کے آخری ہفتے میں میر شکیل الرحمان کی ضمانت بعد از گرفتاری میں کوئی روکاوٹ نہیں ڈالے گا-
دوسری طرف میر شکیل الرحمان کی مبینہ طور پر 1984ء میں روزنامہ جنگ کے صحافیوں کی کالونی بنانے کے لیے جوہر ٹاؤن میں لی گئی زمین کو کمرشل بنیادوں پر فروخت کرنے کے الزام میں میر شکیل الرحمان کی گرفتاری کو لیکر پورے ملک میں آزادی صحافت کے نام پر تحریک چلانے کی جو کوشش ٹوئٹر اور فیس بک کے زریعے کی جارہی تھی وہ بھی ناکامی سے دوچار ہوئی ہے-
پنجاب یونین آف جرنلسٹس کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس زیر صدارت قمر زمان بھٹی نے بھی میر شکیل الرحمان کی گرفتاری کے خلاف کوئی تحریک چلانے سے انکار پر اتفاق کرتے ہوئے جنگ-جیو گروپ سے مطالبہ کیا کہ وہ چار ماہ سے بند کارکنوں کی تنخواہیں جاری کرے، برطرف ملازمین کو بحال کرے-
خود جنگ گروپ کی ورکرز یونین بھی میر شکیل الرحمان کی گرفتاری پر احتجاج کرنے نہ کونے پر اختلاف کا شکار ہے- جنگ ورکرز یونین کے مرکزی رہنما جمیل چشتی اور دیگر کئی رہنماؤں اور اراکین نے میر شکیل الرحمان کی رہائی کی تحریک کا حصّہ بننے سے انکار کیا ہے- جبکہ جنگ-جیو میڈیا گروپ سے تعلق رکھنے والے کئی ایک بڑے نامور صحافی-اینکر ٹوئٹر و کالم احتجاج میں آگے آگے ہیں- ان میں حامد میر نے گرفتاری دینے کا اعلان تو کیا لیکن تاحال گرفتاری دی نہیں ہے-
میر شکیل الرحمان کی گرفتاری پر خود میڈیا گروپ مالکان میں واضح تقسیم نظر آرہی ہے- بول نیوز ٹی وی نیٹ ورک، اے آر وائی نیوز نیٹ ورک اور 92 نیوز نیٹ ورک کے مالکان سلمان اقبال، شیعب شیخ اور میاں رشید نیب کی طرف سے گرفتاری کا مکمل دفاع کررہے ہیں اور وہ ہر اس شخص کو اپنے چینل اور اخبارات میں پوری کوریج دے رہے ہیں جو میر شکیل الرحمان کے خلاف کچھ کہہ سکے اور اس گرفتاری کا جواز دے سکے۔ اور یہ پاکستان تحریک انصاف کا بھی کھل کر ساتھ دے رہے ہیں-
میڈیا گروپوں میں دنیا نیوز نیٹ ورک، ہم نیوز ٹی وی نیٹ ورک، پبلک نیوز نیٹ ورک اور 24 نیوز وسٹی نیوز نیٹ ورک کے مالکان اگرچہ میر شکیل الرحمان کی گرفتاری کو آزادی صحافت پر حملہ بھی قرار نہیں دیتے لیکن وہ میر شکیل الرحمان کے خلاف مہم بھی نہیں چلارہے-
ایسی اطلاعات سامنے ہیں کہ بعض اہم حکومتی شخصیات نے دنیا نیوز نیٹ ورک کے مالک میاں عامر سے رابطہ کرکے جنگ-جیو گروپ کے خلاف ان کے ٹی وی چینل اور اخبار کو استعمال کرنے کی درخواست کی ہے لیکن میاں عامر جیو-جنگ میڈیا گروپ کے خلاف کھلی جنگ لڑنے کو تیار نہیں ہوئے ہیں حالانکہ ان کے اور شکیل الرحمان کے درمیان بہت پہلے سے اندرون کھاتہ سرد جنگ جاری ہے-
کرونا وائرس کی آفت اس وقت پاکستانی ریاست کے لیے سب سے بڑا چیلنچ بن چکا ہے اور اس سے پیدا ہونے والے حالات نے بھی میر شکیل کی گرفتاری کا ایشو بھی پیچھے دھکیل دیا ہے-
میر ابراہیم جو میر شکیل کے صاحبزادے ہیں، کے بارے میں یہ اطلاعات ہیں کہ وہ جنگ- جیو گروپ کو حکومت سے محاذ آرائی سے واپس ہونے کے حامی ہیں اور اپنے باپ کو بھی حکومت سے ڈیل کرنے پر راضی ہونے کو کہا ہے-
کیا میر شکیل الرحمان جنگ-جیو میڈیا گروپ میں اپنے فعال اور مرکزی کردار سے دست بردار ہوکر سارے اختیارات اپنے بیٹے میر ابراہیم کو سونپنے جارہے ہیں؟ اس حوالے سے جنگ-جیو گروپ میں کئی حلقے گرین سگنل ملنے کی خبر دے رہے ہیں-
ایک باخبر،مصدق زریعے سے ملنے والی خبر کے مطابق حکومت میڈیا گروپوں کے واجبات کی ادائیگی پر غور کررہی ہے- سردست فیصلہ یہ کیا جارہا ہے کہ حکومت کے حامی میڈیا گروپوں اولیت دیتے ہوئے کل واجبات کا 40 فیصد ادا کردیا جائے-
ایسا لگتا ہے کہ جیو- جنگ میڈیا گروپ ہو یا ڈان میڈیا گروپ مسلم ليگ نواز کی پروجیکشن کے بوجھ سے جلد از جلد نجاب حاصل کرنے کی فکر ميں ہیں اور عمران خان حکومت سے اپنی لڑائی کو دوستی میں بدلنے کا خیال رکھتے ہیں- اس کے لیے چودھری شجاعت اور پرویز اللہی چینل بھی استعمال کیا جارہا ہے-
حکومت سے میڈیا مالکان کے سیٹھوں کی دوستی اور لڑائی کے اس سارے کھیل میں برطرف ہونے والے ملازمین کے واجبات،ان کی بحالی اور بند تنخواہوں کے اجرا جیسے مطالبات کی منظوری اور ویج بورڈ ایوارڈ کے یکساں اور برابری پر نفاذ جیسے ایشو کا حل نہ تو میڈیا مالکان کی ترجیح نظر آتا ہے اور نہ ہی حکومت کو نظرآتا ہے
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور