میں بھی دیگر پاکستانیوں کی طرح اس وقت کسی قسم کے panic کا شکار نہیں ہوں۔ آج خود سے پوچھا کیا وجہ ہے کہ جس وائرس کی وجہ سے دنیا کی معیشت تباہ ہورہی ہے‘ سرحدیں بند ہورہی ہیں ‘ لوگ گھروں میں بند ہورہے ہیں‘ مارکیٹوں میں لوگ اشیاکی خریداری پر لڑ رہے ہیں‘ امریکہ کے کچھ حصوں میں تو لوگ اسلحہ خرید رہے ہیں کہ کل کلاں اگر سپلائی ختم ہوتی ہے تو راشن نہ ملنے کی صورت میں لوٹ مار شروع نہ ہوجائے‘ لہٰذا گھروں پر حملوں کی شکل میں وہ دفاع کر سکیں۔ائیرلائنز دیوالیہ ہورہی ہیں۔
ائیرپورٹس خالی پڑے ہیں۔ دنیا میں ہر طرف خوف نظر آتا ہے۔ جرمن چانسلر اینجلا مرکل ‘ جنہیں اقتدار میں پندرہ برس ہوگئے ہیں‘ نے پہلی بار قوم سے ایک غیرمعمولی خطاب کیا ہے۔ اس سے پہلے ان پندرہ برسوں میں وہ کبھی اس طرح مخاطب نہیں ہوئی تھیں۔ صدر ٹرمپ بھی آخر کار گھبرا گئے ہیں اور پہلی دفعہ ان کی زبان سے نکلا ہے کہ وائرس ایک وبا ہے۔ اس سے پہلے مسلسل دو ماہ سے وہ بڑھکیں مار رہے تھے کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔دنیا بھر کے وہ شہر جہاں ہر وقت سیاحوں کا رش رہتا تھا وہ خالی پڑے ہیں۔ لگتا ہے دنیا کا پہیہ رک گیا ہے۔ سب راستے کٹ گئے ہیں۔ لگتا ہے Ice Age لوٹ آیا ہے‘ ہر کوئی اپنے اپنے غار کے اندر چھپ کر بیٹھا ہے‘لیکن ہم سکون میں ہیں۔ پاکستان میں تمام تر باتوں کے باوجود آپ کو کہیں وہ panic نظر نہیں آتا جو دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں نظر آرہا ہے۔ کیا وجہ ہے؟
شاید انسانی نفسیات کا اس سے گہرا تعلق ہے کہ مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں۔ ایک اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان میں ہر مصیبت کے وقت حکومتوں سے کم ہی توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ ہمیں بچائیں گی۔ لوگوں نے پہلے سے ہی طے کر رکھا ہوتا ہے کہ بیوروکریسی یا حکومت میں اتنی ہمت نہیں کہ یہ ان کے دکھوں کا مداوا کر سکیں۔ حکومتیں بھی اس نفسیات سے پورا فائدہ اٹھاتی ہیں۔آپ باقی چھوڑیں‘ جرمن چانسلر مرکل اور پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی تقریروں میں فرق دیکھ لیں۔ خان صاحب کو علم ہے کہ حکومت کتنی ہی نالائق کیوں نہ ہو‘ کتنا بڑا نقصان کیوں نہ ہو جائے ‘عوام سب کچھ تقدیر پر ڈال دیں گے‘ جبکہ جرمن چانسلر سب کچھ تقدیر پر نہیں ڈال سکتیں‘ لہٰذا نہیں علم ہے کہ انہوں نے جرمن لوگوں کو مطمئن کرنا ہے کہ ان کی حکومت تاریخ کے ایک بدترین بحران سے کیسے نمٹے گی۔ اسے اپنے لوگوں کو وہ جواز دینا پڑے ہیں جن پر وہ یقین بھی کریں‘ محض باتوں پر وہ راضی ہونے والے نہیں‘ جیسے ہمارے ہاں کام چلایا جارہا ہے۔
اس ملک میں ہم نے دیکھا سیلاب آتے ہیں‘ کوئی سسٹم نہیں ہوتا کہ لوگوں کو نکالا جائے۔ میں خود اپنے علاقوں میں سیلاب دیکھ چکا ہوں‘ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت گھروں سے نکلتے ہیں۔ جانور پانی میں بہہ جائیں گے‘ بچوں کو لے کر کھلے آسمان تلے بیٹھے ہوں گے‘ پوچھیں تو جواب دیں گے ”اللہ سائیں دی مرضی‘‘۔ میں نے اچھے اچھے زمینداروں کو رات بھر سڑکوں پر بیٹھے دیکھا ہے۔ مجھے ایک فقرہ نہیں بھولتا جو ایک سیلاب زدہ کسان نے مجھ سے کہا تھا کہ سائیں زمینیں چلی گئیں‘ جانور چلے گئے فقیر ہو کر یہاں آ بیٹھے ہیں‘ سب برداشت کر لیا‘ لیکن اپنی بچیوں کی کھلے آسمان تلے حفاظت کیسے کریں؟
ان لوگوں کا پیسہ ضلع کی انتظامیہ کھا جاتی ہے۔ برسوں وہ برباد رہتے ہیں‘ لیکن کوئی شکایت کوئی گلہ نہیں کرتے۔ لیہ کے سیلاب کا پیسہ ایک سابق ڈی سی کھا گیا تھا اور اسے شہباز شریف نے شکایت ہونے پر یہ سزا دی کہ اُٹھا کر سرگودھا اینٹی کرپشن کا ڈائریکٹر لگا دیا تھا۔اسی ملک میں ہم نے دیکھا ستر ہزار لوگ دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے گئے اور آدھی قوم انہی دہشت گردوں کے بیانیے کو درست مانتی اور اپنے قاتلوں کا دفاع کرتی رہی۔ اس ملک میں 2005 ء کے زلزلے میں ہزاروں لوگ مرے اور اس کے بعد اربوں ڈالرز کی امداد کہاں گئی‘ کسی کو علم نہیں۔ ایرا افسران کروڑ پتی بن گئے۔ اب کسی نے کہیں سنا کہ ایک سفید ہاتھی ہے جس کا نام NDMA ہے‘ جس کا کام ان خوفناک حالات میں عوام کی مدد کرنا ہے۔ کہیں یہ ادارہ یا اس کے افسران آپ کو نظر آتے ہیں؟ ان کا بجٹ‘ تنخواہیں‘ سہولتیں اور گاڑیاں دیکھ لیں‘ آپ کی آنکھیں چندھیا جائیں گی۔ وہ سب آرام سے اسلام آباد خوبصورت دفتروں میں مزے سے ہیں۔
چینی کہاوت ہے کہ اگر آپ نے اپنی بیوی کو تھپڑ مار دیا اور آپ کو احساس ہوا کہ اس بے چاری کی غلطی نہ تھی تو آپ شرمندہ مت ہوں‘ بیوی خود ہی کوئی نہ کوئی وجہ ڈھونڈ لے گی کہ اسے تھپڑ کیوں پڑا تھا۔یہی حال ہمارا ہوچکا ہے کہ ہم ہر مصیبت اور مشکل میں حکومت اور حکومتی اداروں سے کارکردگی کی توقع رکھنے کی بجائے خود کو ہی مجرم سمجھ لیتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے‘ دین سے دوری کا اثر ہے‘ گناہوں کی سزا ہے۔
جب حکومتی نالائقی سے پہلے ہی لوگ خود کو کوسنا شروع کر دیں تو پھر حکومتیں اور ادارے کیوں آپ کے لیے دن رات ایک کریں تاکہ عوام ان کی جواب دہی مت کریں؟ ابھی دیکھ لیں کہ پی ٹی آئی حکومت کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر ایک مہم شروع کر دی ہے جس میں وہ سارا ملبہ ٹی وی اینکرز پر ڈال رہے ہیں کہ یہ لوگ معاشرے میں ڈر اور خوف پھیلا رہے ہیں۔ ایک مہم چلائی جارہی ہے کہ ٹی وی چینلز ہی بند کر دیں‘ اور مزے کی بات ہے عوام میں یہ بیانیہ مقبول ہورہا ہے۔ عوام بھی چاہتے ہیں کہ کوئی انہیں مت بتائے کہ کیسے ایران سے آنے والے زائرین کو مناسب طریقے سے ہینڈل نہیں کیا گیا۔ ایران میں کئی ہفتوں سے وائرس کی تباہیاں جاری تھیں‘ سب کو پتہ تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں زائرین قم گئے ہوئے ہیں‘ جنہوں نے واپس لوٹنا ہے۔ مجال ہے کوئی ادارہ حرکت میں آیا ہو یا ایران بارڈر پربر وقت ایک بڑا کیمپ بنتا‘NDMA افسران دن رات وہاں انتظامات کرتے اور فوج کی مدد لی جاتی یا چین سے کہا جاتا کہ وہ مدد کریں یا گائیڈ کریں۔
خواجہ آصف کے بقول عمران خان کے قریبی دوست اور مشیر زلفی بخاری نے زائرین کو بغیر ٹیسٹ اور کلیئرنس گھر جانے کی اجازت دلوائی‘ جس سے یہ کورونا وائرس پورے ملک میں پھیل رہا ہے۔ ان زائرین کی اپنی زندگیاں تو خطرے میں ہیں ہی‘ لیکن ان کے قریبی رشتہ دار اور دوست زیادہ خطرے میں ہیں۔ اب تفتان سے ان زائرین کو ڈیرہ غازی خان‘ ملتان اور بہاولپور لایا گیا ہے جہاں panic کی سی صورتحال ہے۔ دوسری طرف جس طرح کے کیمپ تفتان اور ڈیرہ غازی خان میں بنائے گئے ہیں انہیں دیکھ کر آپ کانپ اٹھتے ہیں کہ کس طرح کی تیاریاں کی گئی تھیں اور کیسے ایک عظیم انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ لگتا ہے کوئی نازی کیمپ ہے جہاں لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح رکھا گیا ہے۔
حکومت پورا ایک ماہ بیٹھ کر تماشا دیکھتی رہی۔ اب جب میڈیا نے حکومتی نااہلی کو اجاگر کرنا شروع کیا ہے تو عوام ہی میڈیا سے ناراض ہورہے ہیں کہ کیوں دہشت پھیلا رہا ہے۔ اس سے بہتر عوام کہاں ملیں گے جن پر کسی کو حکمرانی مل جائے؟ ایسے عوام جنہیں اپنے قاتلوں سے پیار ہے‘ جو اپنے اوپر گزرنے والی ہر مصیبت کا جواز خود تلاش کر لیتے ہیں‘ جو مرنے کو تیار ہیں لیکن حکومتی نالائقی پر بولنے کو تیار نہیں بلکہ جو بولتے ہیں وہ ان کی آوازیں بند کرانے کیلئے مہم چلا رہے ہیں۔ ستر ہزار بندے دہشتگردی میں مروانے کے باوجود یہ معجزے کے انتظار میں رہے اور ایک دن ایک سو چالیس بچے بے رحمی سے قتل ہوئے تو کچھ جاگے لیکن پھر اسے اللہ کی مرضی قرار دے کر دوبارہ سو گئے۔ اب بھی تفتان بارڈر پر جو کچھ ہوا‘ جس کی قیمت پوری قوم ادا کرے گی‘ اس پر بھی کسی سے پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔
خوش قسمت حکمران ہیں جنہیں ایسی قوم ملی ہے جو چینی کہاوت کے مطابق خود کو پڑنے والے تھپڑ کی وجہ خود ہی ڈھونڈ کر نہ صرف مطمئن ہوجاتی ہے بلکہ حکمرانوں کو ایکسپوز کرنے والے صحافیوں کیخلاف کارروائی کے مطالبے میں بھی شریک ہوجاتی ہے۔
حکمرانوں کی قسمت پر رشک آ رہا ہے‘ اللہ قسمے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ