نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بھید والے صندوق کے تالے کی چابی ۔۔۔حیدر جاوید سید

" لوگو! دیکھو تو وہ کیسی بے پرواہی کرتا ہے ۔ اُس نے خود ہی کُن کہا اور پھر فیکون کہلوایا ۔ باطن ۔ ظہور کی طرف آیا ۔

بھگت کبیر کہتے ہیں ” تونے مجھے اپنی محبت میں گرفتار کیا ۔ تیرے آہنگِ سرمدی کی لطیف چوٹ نے خوابوں سے بیدار کیا ۔ خواہشوں کے سمندر میں ڈوبتے ہوئے فقیر کو تیرے سوا کس کی طلب ہوسکتی ہے اب ”
چند دن ہوتے ہیں برادرِ عزیز سید علی ضامن نقوی نے کہا
” شاہ جی ! صوفیا کے اقوال و اشعار سے ترتیب دیئے گیئے کالموں میں ایک الگ ہی دنیا بسی ہوئی دیکھائی دیتی ہے ”
برادر عزیز کی بات درست ہے ، سچ یہی ہے کہ جب غم دنیا کا بوجھ برداشت سے زیادہ ہوجائے تو یادوں اور مطالعہ میں پناہ لے لیتا ہوں
کچھ برس ہوتے ہیں شاہ حسین رح کے حضور عرض کیا تھا
حالات کے جلاپے کے مارے ہوؤں کی راہ میں نخلستان کیوں نہیں آتے ؟۔
خانقاہ کے اندر دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھے سوالی کو محسوس ہوا شاہ حسین رح کہہ رہے ہیں
” دنیا تو مانگتی ہی رہتی ہے ہردم مانگتی دنیا کے سامنے دستِ سوال کیا دراز کرنا ، خواہشوں کے پیچھے بھاگتی دنیا سے تنہائی اچھی کہ بندہ یار کو تو یاد کر لیتا ہے ”
تھوڑے سے وقفہ کے بعد پھر گویا ہوئے
” قبل اس کے کہ زندگی کا دن بھر جائے تم یہ سوچو کہ اگر یہاں دوبارہ آنا پڑے تو سوالی بن کر آو گے یا یار کا حق ادا کرنے ؟”
یہ شاہ حسین رح ہی تھے جنہوں نے کہا تھا
” ہمیشہ سرسوں کے پھول اُگتے ہیں نا ساون کے بادل برستے رہتے ہیں زندگی کا حق ادا نہ ہو پائے تو فخر بھی فریب ہے ، خودپسندی چھوڑ کر حلیمی کی راہ اپنانے والے ہی ” اُس ” تک پہنچ پاتے ہیں ” ” آدمی جو بوتا ہے وہی کاٹنا پڑتا ہے ”
مجھے حسین بن منصور حلاج رح یاد آئے ۔ حلاج کہتے ہیں
” خلق اندھے اندھیروں میں گم سرگرداں ۔ متلاشی ۔ صرف اشاروں سے آشنا ۔ اگر وہ جانتے کہ ” وہ ” انہیں کبھی نہیں چھوڑتا ۔ وہ اسے آنکھ جھپکنے کی مہلت کے برابر بھی نہ چھوڑتے ۔ سرِ نہاں ، جو اثبات میں پوشیدہ ہے ، افق کے کناروں پر ، نور کی لہروں میں ”
"میں گریہ کرتا ہوں ، تیری محبت اور مہربانی کے طریق کا ، ان کے ضبطِ نفس کے لیے کہ جن کی سواری کا جانور ان کا گُھٹنا ہے ”
مرشدی بلھے شاہ رح فرماتے ہیں
” لوگو! دیکھو تو وہ کیسی بے پرواہی کرتا ہے ۔ اُس نے خود ہی کُن کہا اور پھر فیکون کہلوایا ۔ باطن ۔ ظہور کی طرف آیا ۔ جب اُس نے ، مخفی راز عیاں کردیا اپنے رُخ سے پردہ ہٹا دیا ہے تو اب ہم سے پردہ کیوں کرتا ہے ۔
لوگو ! سچ یہ ہے کہ تم نے اُس سے پردہ کیا ۔ اُس کی تلاش میں مارے مارے پھرے وہ تو تمہارے اندر ہی موجود تھا ۔۔ بس تم ہی کُن کہہ پائے نا فیکون کا جواب کہلوا سکے ۔ آدمی اپنی بجائی ڈفلی سے رُسوا ہوتا ہے اور پھر شکوہ کرنے لگ جاتا ہے ، ہر ہر وجود میں سمایا ہوا بھی تو وہی ہے ، اب وجود خود میں سمائے ہوئے کو محسوس نا کر پائیں تو سارے شکوے بیکار ”
کبھی کبھی جب یادوں اور کتابوں میں پناہ لیتا ہوں تو مجھے یاد آتا کہ شاہ (بلھے شاہ رح ) نے کہا تھا
” یہ تم جس کو لامکانی بتاتے ہو وہ ہر رنگ میں بستا ہے ، بس دیکھنے والی آنکھ چاہیئے ”
اب کوئی مرشد سے یہ کیسے کیے کہ
حضور ! جس نے اُس کا بھید پایا وہی تو سزاوار ہوا ،
عین ان ساعتوں میں سچل سرمست رح یاد آئے _ فرماتے ہیں
” بھید سنبھالے نہ سنبھلے تو یاری کا دعویٰ راکھ ہے ، جو یار کے بھید کھولتا ہے وہی جاں سے جاتا ہے ”
شاید اسی لیے وارث شاہ رح نے کہا تھا
” میں نے بھید والے صندوق کو تالا لگا کر چابی زندگی کے سمندر میں پھینک دی ”
زندگی سمندر ہے کہ تپتا صحرا ؟ ۔۔۔ غور تو اس پہ واجب ہے ، زندگی کا اصل قصہ تو خواہشوں کے منہ زور گھوڑے پر سواری کرنے والوں کو سمجھ میں نہیں آسکتا ، خواہشیں تو پالنے والے کے لیے ہلاکت کا سامان کرتی ہیں ،
ہم بھی کیا لوگ ہیں
چار نوالوں کے لیے زندگی کا سفر طے کر جاتے ہیں ، بھلا زندگی کے اصل کو وہ کیسے سمجھ پائے جس کے آنگن میں بھوک رقص کرتی ہو ؟
فقیر راحموں بھی عجیب ہی ہے کہتا ہے
شاہ جی ! آدمی بھوک سے نہیں خواہشوں کے بوجھ سے ہلاک ہوتا ہے
خواجہ غلام فرید رح یاد آئے فرماتے ہیں
” تمہاری آنکھوں نے وہ تیر چلائے کہ جگر کے پار ہوئے ، شمس کی کھال اُتروائی گئی سرمد کی گردن ماری گئی ، منصور سولی پر چڑھا ، میرے ساجن مگر یہ تو سب تیرے دیدار کے طریقے تھے ”
ہائے مگراس کا کیا کریں کہ یہ جو درد کا بوجھ ہے ہر کس و ناکس نے اپنی خوشی سے اٹھایا اور اُف تک نا کی ،
عاشق ۔ سسکی نہیں بھرتے وہ تو ہر آن یار کے گلے لگ کر رخصت ہونے کو جیتے ہیں ، دل ہے کہ اب یار کے کوچہ میں جابیٹھنے کو مُصر ہے
اسے کہیں قرار نہیں ۔ کوچہء یار کا طواف ہی عاشق کی زندگی ہے ۔ طواف میں لگتے دھکے اسے غموں سے نجات دلواتے محسوس ہوتے ہیں ۔
غم ۔، اگر ان سے نجات مل جائے تو پُرانے زخم کبھی تازہ نا ہوں ۔
کوئی اُسے بتائے جاکر ۔ سواریوں کا رُخ ” وطن ” کی طرف ہے اور وقت مُٹھی سے پھسل رہا ہے
زندگی کی جیب خالی ہے کہ عمر کی نقدی تمام ہوئی

About The Author