سب کچھ ہی تو بدل گیا ہے۔
سونے کی تاروں سے تجارت کرنے والے، تیل کی دھاروں سے عالمی منڈیوں کا رخ طے کرنے والے، دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹ کو بے بھاؤ خریدنے والے، وقت کی رفتار کو قابو کرنے والے۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب بدل گئے۔
عالمی وبا سے پہلے کی دنیا دیکھیے۔۔۔ اقوام عالم پر راج کے سپنے، بین الاقوامی منڈیوں پر کنٹرول کے خواب اور اعداد کے بےشمار کھیل میں مشغول دنیا نے کہاں سوچا ہو گا کہ ایک وائرس۔۔۔ محض ایک وائرس، تعبیر کو خواب میں بدل دے گا۔
عالمی معیشت کو کھربوں ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے۔ زمانہ قسمیں کھا رہا ہے کہ انسان خسارے میں ہے۔ اونچے کلیساؤں، مندروں، گرودواروں، بلند میناروں، درباروں، خانقاہوں، مزاروں، مسجدوں، امام بارگاہوں پر سوگ طاری ہے۔
عقیدہ یقین ڈھونڈ رہا ہے اور ایمان اپنے ہی اندر بھٹک رہا ہے۔
دنیا بھر سے موصول ہونے والی تصویروں نے جہاں غم میں مبتلا کیا ہے وہیں اعتقاد اور یقین میں جنگ بھی چھیڑ دی ہے۔ ایک تصویر میں پوپ ویٹیکن سٹی کے گرجا گھر میں دبیز تہہ والے شیشے کے پیچھے دعا گو ہیں تو دوسری تصویر میں خالی خانہ خدا کا اداس کر دینے والا منظر۔
کسی کو اندازہ ہی کہاں تھا کہ 157 ملک اس وبا کا شکار ہو جائیں گے۔ سائنسی ترقی کے اس دور میں یوں بے بسی ہو گی کہ دعا سے اٹھے ہاتھ دوا مانگیں گے۔ مراد سے طلب کا سامان کیا جائے گا اور بے یقینی سے یقین کا سوال ہو گا۔
پل ہی پل میں لاکھوں افراد اس انہونی کا شکار ہیں۔ ہزاروں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پزیر اس وباء سے کوئی محفوظ نہیں۔ کہیں گناہوں کی مغفرت کی دعائیں ہیں تو کہیں پیدا کرنے والے کی ناراضگی کا غم۔ قیامت نہیں ہے مگر قیامت سے کم بھی نہیں۔
اکیسویں صدی کے ان لمحوں میں فقط ایک لمحے کا انتظار ہے کہ کب کوئی دوا ایجاد ہو گی اور کیونکر تجربہ ہو گا۔ جو بھی صورت ہے دنیا حقیقت ڈھونڈ رہی ہے۔
جدید ترین نظام مواصلات بند پڑا ہے، تعلیمی ادارے خالی، دفتروں میں تعداد نہ ہونے کے برابر، بغل گیر ہونے والے ہاتھ ملانے سے بھی قاصر۔۔۔ کاروباری مراکز بند اور اسپتال آباد ہو رہے ہیں۔
ایک لاک ڈاؤن ہے جو جاری ہے۔ کسی نے کیا خوب لکھا کشمیری پوچھ رہے ہیں کہ ہیلو دنیا، کیسا لگا لاک ڈاؤن۔۔۔؟
وائرس چین سے شروع ہوا اور جس طرح چین اس بحران سے نکل رہا ہے وہ دنیا کے لیے مثال بن چکا ہے۔ جنوری کے آغاز پر شروع ہونے والی اُفتاد نے چین کو ہلا کر رکھ دیا تاہم کم سے کم عرصے میں چین نے یقین کی وہ منزلیں طے کیں جو پیغام دیتی ہیں کہ آفتوں، بحرانوں سے قومیں نکل سکتی ہیں ہجوم نہیں۔
چین کے شہر ووہان میں کرونا وائرس جنوری میں انتہائی تیزی سے پھیلنا شروع ہوا تو چین نے ایمرجنسی اقدامات کیے۔ پورے کے پورے شہروں میں قرنطینہ ڈکلیئر کر کے وائرس کو مزید پھیلنے سے روک دیا گیا، چند دنوں میں چودہ خصوصی اسپتال کھڑے کر دیے گئے جن میں سے اب گیارہ اسپتال ختم بھی کر دیے گئے ہیں۔
عوام اور ریاست ایک ساتھ نظر آئے۔ 80 ہزار متاثرہ لوگوں میں سے 67 ہزار تندرست ہو چکے جبکہ نئے کیسز کی تعداد اب کم ہو چکی ہے۔
اب جب یہ وبا پاکستان پہنچ چکی ہے، کیا ہم اس سے نمٹنے کو تیار ہیں؟ معاشی اعتبار سے نہ سہی مگر کیا ہم ایک قوم بن کر اس افتاد سے نمٹ سکتے ہیں؟
خلیل جبران نے اپنی نظم میں لکھا جس کا ترجمہ فیض احمد فیض نے یوں کیا:
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے پاس عقیدے تو بہت ہیں
مگر دل یقیں سے خالی ہیں
اور قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو ٹکڑوں میں بٹ چکی ہو اور جس کا ہر طبقہ
اپنے آپ کو پوری قوم سمجھتا ہو
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ