نئے صوبے بنانے کی جب بھی بات کی جاتی ہے، تین چار قسم کے ردعمل سامنے آتے ہیں۔ بعض لوگ تو نیا صوبہ بنانے کے سوال پریوں مضطرب، پریشان اوراَن ایزی ہوجاتے ہیں کہ صوبہ بنانے کے بجائے ان کے رہائشی پلاٹ یا زرعی زمین پر قبضے کی پلاننگ ہو رہی ہے۔
بھائی لوگو! دنیا بھر میں نئے صوبے بنتے رہتے ہیں۔، یہ ایک فطری عمل ہے،جسے کوئی نہیں روکتا۔ روک بھی نہیں سکتا۔ نئی تحصیلیں، نئے ضلعے، نئے ڈویژن بنتے رہتے ہیں، حتیٰ کہ ان میں سے بعض ڈویژنز کو اکٹھا کر کے الگ صوبہ بنا دیا جاتا ہے۔ ساہی وال ایک زمانے میں ملتان ڈویژن کا حصہ تھا، آج ساہی وال الگ ڈویژن ہے، جس میں اوکاڑہ، ساہیوال اور پاکپتن جیسے اضلاع موجود ہیں۔
ایسی کئی مثالیں پنجاب اور دوسرے صوبوں میں موجود ہیں۔ پاکستان میں ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد سے یعنی پچھلے پچاس برسوں سے چار صوبے ہی چلے آ رہے ہیں، اب ان میں اضافے کا وقت آ گیا ہے۔ بہتر یہی ہوتا ہے کہ مقامی آبادیوں میں تلخی یا کشیدگی پیدا ہونے سے پہلے اچھے طریقے، قرینے سے یہ کام کر لیا جائے۔
بھارت میں نئے صوبوں کے لئے الگ سے کمیشن بنایا گیا ہے جو مستقل طور پر کام کرتا رہتا ہے۔ پچھلے پچاس برسوں کے دوران بھارت میں کئی نئے صوبے بنائے گئے ہیں۔ لسانی بنیاد پر کئی صوبے بنے ہیں اور انتظامی بنیاد پر بھی یہ کام ہوتا رہا۔
بھارتی پنجاب کے تین حصے ہوچکے ہیں، پنجاب، ہریانہ اور ہماچل پردیش۔اس لئے پاکستان میں نیا صوبہ بنانے کی بات پر گھبرانے، پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کس طرح ہم اس ایشو کو عمدگی سے نمٹا سکتے ہیں کہ مقامی آبادیوں میں مسائل بھی پیدا نہ ہوں اور نئے صوبے وفاق پر بوجھ بھی نہ بنیں۔ یہ معاشی طور پر قابل عمل(Viable)ہوں۔
ایک ردعمل یہ آتا ہے کہ فوری طور پر کچھ لوگ کھڑے ہو کر صوبوں کی تقسیم کا عجیب وغریب فارمولہ پیش کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی کہے گا کہ ہر ڈویژن کو صوبہ بنا دینا چاہیے۔ اس ”شاندار“تجویز پر سر دھننے سے پہلے میرے جیسے لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ٹھیک ہے جناب اگر اتنی انقلابی تجویز دینی ہے تو پہلے کچھ عرصہ ٹھیر جائیں، سرائیکیوں کے لئے صوبہ بننے دیں، پھر جہاں ملک بھر میں ہر ڈویژن کو صوبہ بنائیں گے ، سرائیکی خطے میں بھی بنا لیجئے گا۔سادگی کی حد ہوتی ہے۔
یارو ایک نیا صوبہ بن نہیں پا رہا اور آپ لوگ چلے ہیں درجن بھر صوبے بنانے کا آئیڈیا فلوٹ کرنے۔ کون اسے عملی جامہ پہنائے گا؟ اسی طرح ایک حلقہ ایسا ہے کہ اچانک ان پر بلدیاتی اداروں کی اہمیت منکشف ہوجاتی ہے۔ وہ کھڑے ہو کر بلدیاتی اداروں کو مضبوط اور بااختیار بنانے کی تجویزداغ دیتے ہیںکہ اختیارات اضلاع کی سطح پر منتقل کئے جائیں، اس سے صوبے غیر متعلق (Irrelevent)ہوجائیں گے۔ ان کے لئے بھی وہی جواب ہے کہ اگر ایسا ہی بلدیاتی اداروں نے جادو چلانا ہے تو پھر یہ چار صوبے بھی ختم کریں ۔
ملک بھر میں ہر ایک ضلع کو بااختیار بنائیں، صوبائی اسمبلیوں کے ٹنٹے ہی ختم ہوجائیں۔ اگر ایسا نہیں تو پھرپہلے جنوبی پنجاب صوبہ بن جانے دیں، اس کے بعد جہاں باقی صوبوں کے بلدیاتی اداروں میں انقلاب لے آئیں گے، وہاںنئے صوبے میں بھی ایسا کر گزرئیے گا۔ ایک اور گروہ کو یہ فکر ستاتی ہے کہ نیا صوبہ بنانا کہیں سرائیکیوں کے استحصال کی کوئی سازش تو نہیں ہے۔ ان کانکتہ یہ ہے کہ سرائیکی علاقے کے بڑے بڑے جاگیردار، سردار اکٹھے ہو کر نیا صوبہ اس لئے بنانا چاہ رہے ہیں کہ پھر وہ سب جی بھر کر سرائیکیوں کو لوٹ سکیں ۔ ایسے احباب کی دردمندی ، خلوص اور جذبہ ہمدردی کو سراہنا چاہیے۔ البتہ میرے جیسے ناشکرگزار موجود ہیں، جو ایسے مخلص احباب کی خدمت میں یہ کہنے سے باز نہیں آتے کہ حضور والا پچھلے پچاس برس سے تو سرائیکی نیا صوبہ نہیں بنا سکے تو ان کے استحصال میں کوئی کمی کیوں نہیں آئی؟
آخر وہ اس قدر پیچھے اور پسماندہ کیوں رہ گئے ؟ پنجاب کے پسماندہ ترین پندرہ اضلاع میں سے نوے فیصد سرائیکی خطے میں واقع ہیں، آخر کیوں؟دوسرا یہ کہ سنٹرل پنجاب کے دانشوروں کے پاس سرائیکی خطے میں جاگیرداروں، سرداروں کی طاقت توڑنے کا کوئی انقلابی فارمولا ہے تو اسے بیان کریں۔ سرائیکی جہاں اتنا عرصہ اپنے صوبے کے بغیروقت گزار چکے، تین چار سال مزید انتظار کر لیں گے ۔ اگر ایسا کچھ نہیں تو پھر پلیز خاموش رہیں اور سرائیکی خطے کے ساتھ غیر ضروری ہمدردی نہ جتائیں۔ انہیں اپنے مسائل خود نمٹانے دیں۔
ایک وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو انتظامی تقسیم کی افادیت کا علم نہیں۔ ایک نئی تحصیل یا ضلع بن جانے سے مقامی سطح پر کس قدر فائدہ پہنچتا ہے، نئی ملازمتیں نکلتی ہیں، دور دراز کے بڑے شہروں میں موجود سرکاری دفاتر اضلاع میں شفٹ ہوجاتے ہیں، لوگوں کی زندگیاں کس قدر آسان ہوتی ہیں، اس کا اندازہ لاہور، کراچی ، پنڈی جیسے شہروں والے نہیں کر سکتے۔
نیا صوبہ بنانے سے مقامی آبادی کوبے پناہ فائدہ پہنچتا ہے۔ چھوٹی سی مثال دیکھ لیجئے کہ اس وقت مجوزہ جنوبی پنجاب کے تین ڈویژن ملتان، بہاولپور، ڈی جی خان میں چار میڈیکل کالج موجود ہیں۔قائداعظم میڈیکل کالج بہاولپور، نشتر ملتان، شیخ زائد رحیم یارخان، غازی میڈیکل کالج ڈی جی خان۔ ان چاروں کی779نشستیں ہیں۔
اگر جنوبی پنجاب صوبہ بن گیا تو ان تمام سیٹوں پر صرف مقامی طالب علم ہی داخلہ لے سکیں گے، یعنی آٹھ سو کے قریب ڈاکٹر سالانہ۔ آج کل جنوبی پنجاب کے طلبہ اوپن میرٹ پر پنجاب بھر سے مقابلہ کر کے داخلہ لے پاتے ہیں۔ راجن پور، احمد پورشرقیہ، ہارون آباد، لیاقت پور وغیرہ کے لڑکوں کو لاہور ، فیصل آباد، پنڈی اور دیگر بڑے شہروں کے طلبہ سے مسابقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انٹری ٹیسٹ کی آزمائش الگ ہے ، یوں وہاں کے بمشکل سو ڈیڑھ سو طلبہ میڈیکل کالج جا پاتے ہیں۔ نیا صوبہ بننے کی صورت میں یہ تعداد چار گنا ہوجائے گی۔ یہی معاملہ انجینئرنگ ، کامرس، فائن آرٹس وغیرہ کے حوالے سے ہوگا۔
میرے گزشتہ کالم پرکراچی کے بعض قاری دوستوں کی جانب سے احتجاج سامنے آیا، ان کا کہنا ہے :” آپ نئے صوبہ بنانے کی بات کرتے ہیں، مگر سندھ کی تقسیم کی مخالفت ۔ یہ” کھلا تضاد“ کیوں؟کراچی کے لوگوں نے آخر کیا قصور کیا ہے؟“فیصل آباد کے ایک دوست نے ایک اور انداز سے دلچسپ سوال اٹھایا ”اگر سندھیوں کی مرضی کے بغیر کراچی الگ صوبہ نہیں بن سکتا تو پھر پنجابیوں کی مرضی کے بغیر سرائیکیوں کے لئے نیا صوبہ کیوں بنے ؟“
سوال دونوں اہم ہیں۔ جواب اس کا سادہ ہے کہ نئے صوبوں کے لئے قدیم وطن ہونا بہرحال ایک بنیادی ضرورت ہے۔ کسی کو اچھا لگے یا برا ، یہ حقیقت ہے کہ کراچی صدیوں سے سندھ ہی کا حصہ رہا ہے، سندھیوں کا اہم ترین شہر۔ تقسیم کے بعد مہاجرین کی بہت بڑی تعداد یہاں آباد ہوئی ، اب یہ مہاجروں کا بھی شہر ہے۔ کراچی کی شناخت مگر سندھ کے شہر کی ہے، اسے نہیں مٹایا جا سکتا۔سرائیکی یا جنوبی پنجاب صوبے کا معاملہ مختلف ہے۔
سرائیکی ہزاروں برسوں سے اپنے وطن میں رہتے آئے ہیں۔ سرائیکی اگر لاہور، گوجرانوالہ یا فیصل آباد جیسے شہروں کو سرائیکی صوبہ میں شامل کرنے کا مطالبہ کریں تو وہ غلط ہوگا۔ میرے خیال میں ساہیوال کو بھی سرائیکی یا جنوبی پنجاب صوبے میں شامل نہیں کرنا چاہیے۔ سرائیکی جن علاقوں میں رہ رہے ہیں، اس کے ایک کلسٹر ہی کو الگ صوبہ بنانے کی بات کر رہے ہیں، یہ جینوئن مطالبہ ہے، اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟
کراچی کو البتہ نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ سندھ پر پچھلے بارہ برسوں سے حکمران پیپلزپارٹی کی حکومت نے کراچی کا بیڑا غرق کیا ہے۔ انہوں نے ایسی تباہی مچائی ، جس پر کراچی کے رہائشیوں میں الگ سے صوبہ بننے کی خوا ہش پیدا ہونا فطری ہے۔
سندھ میں بدقسمتی سے یہ روایت بن چکی ہے کہ وزیراعلیٰ ہمیشہ سندھی بولنے والا یعنی عام اصطلاح کے مطابق اندرون سندھ سے ہوگا۔ سندھی اشرافیہ کو چاہیے تھا کہ وہ اس اعزاز کو درست انداز سے استعمال کرتے ہوئے کراچی کے لئے وہ کچھ کر گزرتے کہ وہاں کے لوگ نہال ہوجاتے۔ اربن سندھ یعنی مہاجروں کو کوٹہ سسٹم سے بہت نقصان پہنچا۔
مزید ظلم کراچی کے انفراسٹرکچر کو صوبائی حکومت کی جانب سے نظرانداز کرنے سے ہوا۔ اوپر سے سندھ کا بلدیاتی نظام ملک بھر میں سب سے کمزور ہے۔ مئیر کراچی کے پاس کچھ خاص اختیارات اور مالی وسائل نہیں۔ کراچی کے مسائل سنگین ہیں، وہ ہرصورت حل ہونے چاہئیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کراچی پاکستان کا معاشی ہب ہے، پورے ملک کو اس سے فائدہ پہنچتا ہے۔ اس لئے کراچی کا حق بنتا ہے کہ وفاق کی جانب سے اس کے لئے ہر سال خاص پیکیج دیا جائے ۔
سندھ حکومت کے ساتھ وفاق کے وسائل بھی کراچی شہر پر خرچ ہونے چاہئیں۔ صرف کراچی نہیں بلکہ حیدرآباد بھی نظرانداز ہوتا رہا۔ مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی کہ حیدرآباد جیسے اہم شہر میں ایک بھی یونیورسٹی آج تک نہیں بنائی گئی، آخر کیوں؟ یہ درست کہ جامشورہ میں یونیورسٹیاں موجود ہیں، لیکن اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ حیدرآباد شہر میں یونیورسٹی بنائی جائے تو اس جائز مطالبے کو کیسے رد کیا جا سکتا ہے؟
کراچی کو سندھ سے الگ کرنا ممکن نہیں، مگر اسے سندھ حکومت اور وفاق کا چہیتا شہر بنانا توعین ممکن ہے۔ ایسا ہونا چاہیے۔ نہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ