میں لاہور لٹریری فورم میں شرکت کے لیے گیا تو اس دوران کئی کتابیں خرید کیں اور کچھ کتابیں ناشرین نے تحفے میں بھی دیں- میں نے جو کتابیں پڑھ ڈالی ہیں ان کے بارے میں ایک کالم میں تفصیلی بات ہو نہیں سکے گی- لیکن سردست چار کتابوں پر مختصر اپنی رائے لکھوں گا-
ایک کتاب تو ہندوستان کے سیاسی اسلام کے سب سے بڑے حامی راشد شاذ کی ہے- راشد شاذ یوں سمجھ لیں کہ پان اسلام ازم کی اس تحریک کے ہی ایک منفرد اور رائے ساز مبلغ ہیں جس کے روح رواں اخوان المسلمین کے سید حسن البنا، عراق کے دعوہ پارٹی کے بانی آیت اللہ باقر الصدر، ایران کے آیت اللہ روح اللہ خمینی موسوی، جماعت اسلامی ہند و پاک کے بانی سید ابوالاعلی مودودی تھے- یہ ان صاحبان کے اندھے مقلد نہیں ہیں- ان کی اپنی رائے بھی ہے- صاحب علم آدمی ہیں- ان کی کتاب عنوان ہے ‘لستم پوخ’ ہے- عنوان کی اجنبیت اور اس کی پراسراریت آپ کو یا تو کتاب خریدنے پر مجبور کردے گی یا اس سے آپ کو دور کردے گی-
‘لستم پوخ’ اصل میں ترکی کے اہم ترین شہر’استنبول’ میں گزارے گیارہ دنوں میں گزرے حالات و واقعات کو لیکر لکھی گئی کتاب ہے- اس کتاب کے بارے میں راشد شاذ کے عقیدت مندوں کا یہ کہنا ہے کہ اس کتاب میں ایک طرف تو مسلمانوں میں فرقہ بندی اور صوفی اسلام اور غیرصوفی اسلام کی اقسام کے ماننے والوں کے درمیان جو اختلافات ہیں ان کو ختم کرنے یا کم سے کم کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے اور ایک قابل عمل حل نکال لیا گیا ہے- یہ کتاب جب سے پاکستان میں چھپ کر آئی ہے تب سے اس کی خریداروں کی ایک بڑی تعداد سامنے آئی ہے- بلکہ کئی ایک صاحبان استعداد جو راشد شاذ کے عقیدت مند ہیں وہ اس کتاب کے نسخے خرید کر پوٹنشل ریڈرز میں بانٹ بھی رہے ہیں-
میں نے جب اس کتاب کا مطالعہ شروع کیا تو راشد شاذ مجھے کردار نگاری اور اردگرد کے ماحول کو بیان کرنے والے ایک فنکار، ایک آرٹسٹ، ایک مصور اور ایک فکشن لکھنے کی صلاحیت سے مالا مالا لکھاری لگے- ان کی اردو نہایت سہل،شستہ اور دل لبھانے والی ہے۔ اور ان کی نثر کو پڑھتے ہوئے ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی بہترین خاکہ نگار، افسانہ نگار اور کہانی کار کی تحریر کو پڑھ رہے ہیں- بلکہ کئی جگہوں پر تو ایسا لگتا ہے جیسے راشد شاذ نثر میں ڈرامے اور سینمیائی تکنیک کا استعمال کررہے ہوں- وہ اپنے اور اپنے جیسے کئی لوگوں کی دردمندی کا پراثر اظہار کرنے پر قادر ہیں- مجھےخوشی ہے کہ انہوں نے اسلام، مسلم تاریخ اور مسلم فرقوں کے بارے میں اپنے خیالات کو بیان کرنے میں غیرجانبداری کا ڈھونگ نہیں رچایا اور اپنی رائے پورے زور قلم سے بیان کردی-
انھوں نے سابق یوگوسلاویہ کے ٹوٹ جانے اور بوسنیا ہرزگونیا بارے اپنے اور اپنے جیسے خواتین و مرد نظریہ سازوں کی رائے کو بے لاگ بیان کردیا اور اپنے آخری تجزیے میں انھوں نے پولیٹکل اسلام کے ٹرانس نیشنل حسن البنائی، مودودی اسلام پسندی کو ہی درست ٹھہرایا- ہاں مسلم تاریخ کی پہلی صدی ہجری کی پراشوب تاریخ اور اس دور کے بارے میں مجموعہ احادیث میں موجود چیزوں کو وہ بھی مطابقت پذیر اور ہم آہنگ کرنے سے ناکام ہوئے تو انھوں نے وہی ‘لا تاریخی’ یعنی اے ہسٹاریکل راستہ اپنانے کی کوشش کی جس کے ابتدائی جرثومے ہمیں ابن حزم، ابن تیمیہ وغیرہ کے ہاں نظر آتے ہیں اور پھر یہ بڑی شدت کے ساتھ پہلے سرسید،پھرغلام احمد پرویز کے ہاں نظر آئے- اور یہ رویے ہمیں علامہ تمناعمادی، مولانا طاسین کے ہاں نظر آئے-
وہ مسلم تاریخ اور احادیث کے لٹریچر کو اساطیری ادب قرار دیتے ہیں- اور اس سے کسی بھی مسئلے پر رائے بنانے والے طرز فکر کو اساطیری طرز فکر کہتے ہیں- ان کا خیال ہے کہ مسلم تاریخ اور احادیث کا مجموعہ مختلف خلافتوں کی باہمی رقابتوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے اس کتاب کے آغاز میں اور اندر اور کئی مقامات پر یہ دعوا کیا کہ وہ شیعہ –سنّی اور صوفی و غیر صوفی اسلام کے ماننے والوں کے درمیان پیدا فاصلوں کو ختم کرنے اور اس کا قابل عمل حل پیش کرنے والے ہیں- لیکن انہوں نے حل کیا پیش کیا ہے- زرا اس عبارت کو دیکھ لیں:
"حضرت علی کی جلالت شخصی اپنی جگہ اور فاطمہ رض کے سعادت مند بیٹوں حسن و حسین کے مراتب و مناقب سے انکار نہیں لیکن ان دونوں کو رسول اللہ کی اولاد قرار دینا عقل و وحی دونوں کا انکار ہے- سید بمعنی آل محمد جب اس دنیا میں موجود ہی نہیں تو پھر ان کے خانوادے سے مہدی کا ظہور یا سادات کی قیادت میں اہل ایمان کی آخری معرکہ آرائی کی باتیں محض ایک بے بنیاد افسانہ ہے۔ مہدی کا اسطورہ ہو یا آل محمد کی تفضیل کا قصء،جس نے امت کو صدیوں سے ایک لایعنی انتظار میں مبتلا کر رکھا ہے،دراصل تیسری چوتھی صدی ھجری کے سیاسی بحران کا پیدا کردہ ہے۔”(ص58)
"حضرت معاویہ کے عہد تک بلکہ اموی سلطنت کے کسی دور میں بھی چار خلفاء کا تذکرہ خطبوں میں نہیں ہوتا تھا- مورخین نے لکھا ہے عہد معاویہ میں ابوبکر،عمر اور عثمان کے تذکرے پر بات ختم ہوجاتی تھی- لوگ یہ سمجھتے تھے کہ حضرت علی کی خلافت چونکہ پوری طرح قائم نہیں ہوپائی تھی سو ان کا نام متفقہ خلفاء کی فہرست میں شامل نہیں کیا جاسکتا- متوکل عباسی کے عہد میں امام احمد بن حنبل کے ایما پر پہلی بار حضرت علی کو چوتھے خلیفہ راشد کی حثیت سے خطبہ کا حصّہ بنایا گیا”(ص58)
راشد شاذ کے ہاں ایک ہی سانس میں متضاد باتوں کو کہے جانے اور حوالہ جات نہ ذکر کرنے کے نشان ان کی تحریروں میں جگہ جگہ ملیں گے- پہلے انہوں نے مسلم تاریخ اور صحاح ستّہ اور شیعہ مسلمانوں کی اصول کافی وغیرہ پر مبنی مسلم ادب کو اساطیری ادب اور ملوکانہ خلافتوں کی باہمی رقابتوں کا نتیجہ قرار دیا اور پھر ‘مورخین کہتے ہیں’ سے آغاز کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مسلمانوں کی اکثریت کے ہاں خلافت علی متفقہ نہیں ہے اور خطبوں میں حضرت علی کا نام دور معاویہ تک نہ لیے جانے کا دعوا کر ڈالا- جبکہ طبری سمیت ہمیں اولین کتب تاریخ یہ بتاتی ہیں کہ ایک تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا بطور خلیفہ نام سوائے شام کے باقی سب بلاد اسلامیہ میں لیا جاتا تھا- اور خود اموی دور میں یہ حضرت عمر بن عبدالعزیز تھے جنھوں نے ایک طرف تو خطبوں میں حضرت علی و آل محمد پر سب وشتم کی بری روایت کو بند کرایا اور حضرت علی کا نام نامی خطبہ میں شامل کیا- اور حضرت علی نام مہاجر و انصار صحابہ کی اکثریت خلفائے راشدین میں ہی شمار کرتی رہی اور یہی طرز تابعین و تبع تابعین کا تھا- ایک طرف تو راشد شاذ صاحب صحاح سۃ اور شیعہ ماخذ احادیث کو بھی مسلم تاریخ ادب کے ساتھ شامل کرکے اسے اساطیری/ افسانوی /من گھڑت ادب قرار دے دیتے ہیں لیکن دوسری جانب انھیں ایسے مورخ مل جاتے ہیں جو ان کو پہلی اور دوسری صدی ھجری کا احوال بھی سنادیتے ہیں- اس پوری کتاب میں وہ بنو امیہ کے دور کے ادب پر کوئی ناقدانہ نظریہ پیش نہیں کرتے- اور پھر ان کی کتاب کا آخری باب ‘آخری اعلان’ میں وہ یہ فیصلہ صادر کرتے ہیں:
جب تک عام مسلمانوں پریہ حقیقت منکشف نہیں ہوتی کہ دینی زندگی کے مروجہ مظاہر، روحانیوں کی بعیت وکرامت کے سلسلے،دراصل اسلام نہیں بلکہ اسلام کی نفی کے پختہ انتظامات ہیں۔۔۔۔۔۔ایک نئی ابتدا کا سامان کیسے ہوسکتا ہے؟
اس کتاب میں تقریب بین المذاہب کا کوئی سامان نہیں ہے- یہ کتاب صوفی سنّی اسلام( بریلوی صوفی اسلام ہو/ دیوبندی صوفی اسلام/مڈل ایسٹ میں پھیلے مختلف طرق اور سلسلوں پر مشتمل صوفی سنّی اسلام ہو یا کلامی اعتبار سے تقسیم سنّی اسلام ہو)، شیعہ اسلام (اثناءعشری یا فاطمی اسماعیلی/بوھرہ اسماعیلی اسلام)سب کو اساطیری اسلام قرار دیتی ہے- ان پر نسل پرستی کا الزام دھرتی ہے۔ باقاعدہ عنوان کے ساتھ جمہور مسلمان شیعہ اور سنّی اسلام کو ابواب در ابواب رد کرتی ہے لیکن یہ نہ تو ریڈیکل دیوبندی اسلام ہو یا ریڈیکل سلفی اسلام ہو یا اخوان و جماعت اسلامی کا سیاسی اسلام ہو اسے کسی ایک جگہ بھی ‘اسلام کی نفی کے پختہ انتظام’ جیسے فتوے سے نوازتی نظر نہیں آتی- اور یہ کتاب بجائے تقریب کے تفریق کا سامان کرتی ہے- شاید یہی وجہ ہے کہ صوفی سنّی اسلام اور شیعہ اسلام کے ماننے والوں میں اس کی پذیرائی نہ ہونے کے مترادف ہے۔
یہ کتاب عکس پبلیکشنز لاہور نے شایع کی ہے-
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ