ضلع رحیم یار خان میں15مارچ کا دن ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان علی شہزاد کے نام ہو گیا ہے. سوشل میڈیا، میڈیا اور ہر بڑی چھوٹی بیٹھک میں ڈپٹی کمشنر ان کے میزبان معروف صنعت کار احمد شاہ ہمدانی اور روہی میں ہرن اور دوسرے نایاب پرندوں کا شکار موضوع بحث بنا ہوا ہے.
جہاں ڈپٹی کمشنر کے خلاف لکھا جا رہا ہے وہاں کافی لوگ ان کی صفائیاں بھی دیتے نظر آتے ہیں. بلاشبہ ڈپٹی کمشنر کی جو جو خوبیاں بتائی جا رہی ہیں ان کی طرح یہ شکار کہانی بھی سچ ہے. ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان یا بہاول پور، وائلڈ لائف اور رینجرز کے آفیسران کے لیے روہی میں شکار کرنا ایک معمول کی شوقیہ روٹین ہے. ایک دوسرے کی پردہ داری کے ساتھ سب کچھ ہوتا چلا آ رہا ہے.
مختلف ڈپٹی کمشنرز شکار کرتے چلے بھی آ رہے ہیں انہیں گھر بیٹھے بھی ضروریات اور خواہشات کے مطابق شکار شدہ چیزیں نہایت آسانی سے دستیاب ہو جاتی ہیں.اس کے علاوہ پیش کرنے والوں کی حقیقت اور کاروائیاں ایک علیحدہ موضوع ہے. یہ ایک جتھہ ہے.
مگر یہ جو رات گئے سے روہی میں شکار نامی ایک فلم چلی ہے. کامیابی کے باوجود بھی اس کے اصل رائیٹر اور ڈائریکٹر ابھی تک منظر عام پر نہیں آئے.ڈپٹی کمشنر اور ان کے قافلے کے ساتھ چھیڑ خانی صرف ڈی او وائلڈ لائف کا کام ہر گز نہیں ہے. پیچھا کرنے کے مناظر اور گاڑیوں کی ٹکریں کسی اور ٹکڑ کو ظاہر کر رہی ہیں. یقینا شکار کے پیچھے چھپی اصل گیم اور کہانی بھی آج نہیں تو کل ضرور سامنے آ جائے گی.
ڈپٹی کمشنر کے میزبان احمد شاہ ہمدانی کو تقریبا ہر نئے آنے والے ڈپٹی کمشنر کےمیزبان کا شرف حاصل ہے. میزبانی کے اس مقام و مرتبے کے پیچھے بھی بہت سارے معاملات اور باتیں ہیں.
شاید حکمران طبقے کے ایوانوں میں موجود لوگوں تک گہرے تعلقات اور کچھ خاص اپنے بندوں کو وائلڈ لائف میں کچھ لگوانے کے بعد میدان ہر طرف سے صاف اور شفاف دکھائی دیتا ہوگا.سیاست اور لالچ بڑی گندی چیز ہے .مختلف معاملات کو ڈیل کرنے والی یہاں لوکل نیشنل سے انٹر نیشنل لیول تک سرکاری، نیم سرکاری اور پرائیویٹ شخصیات اور سہولیات موجود ہیں. ان سب کے بارے میں لکھنا اپنے آپ کو کسی بڑی مصیبت بلکہ مصائب کے آلاؤ میں ڈالنے والی بات ہے. خیر یہ ایک پر خطر اور علیحدہ موضوع ہے.
سرائیکی میں کہتے ہیں کہ ہر پاسوں بلائیں وات پٹی کھڑین. مطلب یہ کہ ہر طرف سے بلاوں نے منہ کھولے ہوئے ہیں.
میرے خیال میں ڈپٹی کمشنر کا اپنے دوستوں کے ساتھ شکار کھیلنا کوئی بڑا ایشو نہیں ہے.یہاں روہی میں آئے دنوں بہت سارے لوگ شکار کھیلتے ہیں اور کھیلتے رہیں گے. دوبئی والوں کو چھوڑیں لاہور اسلام آباد سے بھی کئی لوگ آتے ہیں.ماضی بعید، ماضی اور حال میں روہی میں چاندنی راتیں گزارنے والوں کے بارے بھی انتظامیہ اور ہماری باخبر ایجنیسیاں پوری طرح ہر وزٹ کے سیاق و سباق سے واقف اور باخبر ہیں. وفاقی وزیر چودھری طارق بشیر چیمہ بھی شکار کرنے اور کروانے والوں میں نمایاں نام رکھتا ہے. یہاں میں کس کس کا نام لوں. نیشنل اور انٹرنیشنلز کو تو دنیا جاتی ہے. لوکل لیول والوں کے نام لکھنے کے لیے کالم میں اتنی جگہ نہیں ہے.فی زمانہ آپ اسے رعایت اور ریلیف کا نام بھی دے سکتے ہیں.
ڈپٹی کمشنر علی شہزاد یقینا ایک اچھا انسان، ملنسار آدمی، متحرک و فعال اور کام کرنے کا جذبہ رکھنے والا آفیسر ہے. وہ بھی انسان ہے دوست اور خواہشات رکھتا ہے.ہر شخص جانتا ہے کہ روہی میں شکار کرنے پر کئی پابندیاں ہیں. قانونا جرم قرار دیا گیا ہے مگر بعض صورتوں میں اجازت نامے سے شکار کرنے کی اجازت بھی ہے.
کون نہیں جانتا کہ وطن عزیز میں بیورو کریٹس اور حکمرانوں کے لیے اجازت اور اجازت کے بغیر سب کچھ چلتا ہے.روہی میں شکار کرکے ڈپٹی کمشنر نے کوئی انوکھا منفرداور بڑا جرم نہیں کر لیا. چند جانوروں اور پرندوں کا شکار کیا یہاں ہمارے معاشرے میں تو کئی لوگ روزانہ انسانوں کا سرے عام شکار کرتے ہیں اور کوئی انہیں پوچھنے والا بھی نہیں ہوتا. جو کوئی پوچھنے کی جسارت اور دلیری کرے، اپنے اختیارات کے ذریعے بڑا بننے کی کوشش کرے.سماجی و فلاحی بننے بے وقوفی کرے.سمجھانے کے باوجود معاملہ فہمی کی طرف نہ آئے تو پھر یقینا اس قسم کی آندھی اور جھکڑ جھولوں کا آنا کوئی بڑی بات نہیں ہے.
چولستان کے وزٹ کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر کے ترجمان کی جانب سے سامنے آنے والی وضاحت ناکافی اور ناکام اور نا اہل سوچ کی مظہر ہے. کسی نے کیا خوب کہا کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے سو جھوٹ بھی اسے چھپانے میں بالاخر ناکام ہو تے ہیں. کرونا وائرس کی عالمی دھاڑ پٹ کے بعد ٹڈی دل کی سر ویلینس کی چیکنگ کا کون پوچھتا ہے. ڈپٹی کمشنر نے مافیا قسم کے نام کے حامل شخص کے ساتھ جاکر شکار کرنے کی غلطی کی ہے.
جرائم کی دنیا کے بہت سارے وائٹ کالر مجرموں کو بھی ہمارے ہاں کاروباری اور شرفاء کا نام دیا جاتا ہے.جو یقینا ڈپٹی کمشنر علی شہزاد کی بدنامی اور دفاع کرنے والوں کے لیے سبکی کا باعث بنی ہے. ورنہ روہی میں شکار اتنا مشکل اور سنگین ہرگز ہرگز نہیں ہے.جتنا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے. وائلڈ لائف کے پیچھے کون متحرک رہا ہے. سیاست دان،مخالف بیورو کریسی لابی، یا وہ مافیاز جن کے خلاف کاروائیاں کی گئیں ہیں یا ہونے جا رہی ہیں. ریجنرز یا دیگر کوئی اہم قومی ایجنسی?.ڈپٹی کمشنر سے ضلع کی بادشاہی اور اختیارات کے زعم میں غلطی ہو گئی ہے یا کسی گہری پلاننگ کے ساتھ انہیں ٹریپ کیا گیا ہے.
اس کے بارے میں تو اب وہی بہتر بتا سکتے ہیں.سلطان العاشقین حضرت خواجہ فرید فرماتے ہیں کہ راتیں کرن شکار دلیں دے، ڈینھاں ولوڑن مٹھیاں. اے نازک نازو جٹیاں. یہ تو پرانے وقتوں کی اس دنوں کی بات ہے جب روہی میں انسانی درندے نہیں ہوا کرتے تھے. روہی کا قدرتی حسن اور انسانی حسن اپنی مثال آپ تھا.اس کا لحاظ قدر اور احترام و عزت کرنے والے یہاں بسیرا کرتے تھے یا پھیرا پاتے تھے. خیر اب تو لوگوں کے مزاج، سوچ اور قدریں بھی ماضی کی نسبت خاصی بدل چکی ہیں یا بدل کے رکھ دی گئی ہیں. ہر طرف کمرشل ازم کا غالبہ ہے.
محترم قارئین کرام،،ڈپٹی کمشنر اچھا تھا اور اچھا ہے. محض روہی میں ہرنوں اور پرندوں کے شکار کی وجہ سے وہ اتنا گندہ نہیں ہو گیا.جتنی اس کی خلاف باقاعدہ مہم چلی ہے یا چلائی جا رہی ہے یہ اس سارے معاملے کو مشکوک بنا رہی ہے. میں سمجھتا ہوں کہ ڈپٹی کمشنر کا اس طرح شکار کرنا غلطی ہے.انہیں اپنی غلطی کا احساس اور اسے تسلیم کرتے ہوئے گھبرانے کی بجائے سیٹنڈ لینا چاہئیے.
مافیاز اور اور شکار کہانی کے پیچھےچھپے چہروں کو بے نقاب کرنا چاہئیے. ہمارے ڈی پی او منتظر مہدی اور ڈی ایس پی جاوید اختر جتوئی جیسے آفیسر بھی کچھ لوگوں کو قطعا نہیں بھاتے.یہ خود ایک فورس کے آفیسر ہونے کی وجہ سے براہ راست شاید چکر میں نہیں آ رہے. یہ آجکل اچانک چوریوں اور ڈکیتیوں کی ہوشربا وارداتوں کے پیچھے کیا ہے کون ہیں. اندرونی اور بیرونی چکرز کیا ہیں.خیر چھوڑیں یہ صاحبان ہم سے کئی گنا زیادہ حالات و واقعات کو جانتے ہیں ہواوں کے رخ کا اندازہ لگانا اور آنے والی تبدیلیوں کا تعین کرنا ان کے لیے کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہے.
محترم قارئین کرام،، اگر ڈپٹی کشمنر کے ٹڈی دل کی سر ویلینس چیکنگ کے وزٹ کو غلط رنگ دیا گیا ہے تو انہیں ان کرداروں اور ان کے مقاصد کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنا چاہئیے. آخر اتنی بڑی پلاننگ جستجو، راکھی مزاحمت اور مقابلہ کسی نے کیوں اور کس لیے کیا ہے.علی شہزاد گھبرائیے نہیں بہت سارے لوگ تمھارے ساتھ ہیں.
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ