یہ
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ جمعہ کے دن اعلان کیا کہ کرونا کے خطرے کے پیش نظر اتوار 15 مارچ کو امریکی عوام دعا کا قومی دن منائیں گے ۔ان کا کہنا تھا امریکہ کی یہ تاریخ رہی ہے کہ اس طرح کے مشکل وقت میں امریکہ کے لوگ تحفظ اور مضبوطی کے لیے خدا سے رجوع کرتے ہیں۔
انہوں نے امریکیوں سے کہا وہ جہاں بھی ہیں میں آپ کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں کہ آپ ایمان کے ساتھ اپنا رخ دعاوں کی طرف موڑ دیں۔ ہم سب ملکر اس مشکل پر قابو پا لیں گے۔ اب ثابت یہ ہوا کہ امریکہ کے لوگ بھی دعاوں پر اتنا یقین رکھتے ہیں جتنا باقی سب لوگ رکھتے ہیں حالانکہ ہم میں سے اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ آزاد اور لادین ہیں وغیرہ ۔ کرونا وائیرس کے پھیلنے کے پیش نظر جو مختلف مسلمان ملکوں میں احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں ان پر ہمارے بعض سیکولر دوستوں نے خوب لے دے کی ۔
یہ حضرات خود تو دین کا علم نہیں رکھتے مگر کچھ ان پڑھ مسلمانوں کے اقوال و عمل کو دین اسلام سمجھ کر خوب پھبتیاں اڑاتے ہیں حالانکہ جاہلانہ رسم ورواج کا دین سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا وہ تو مختلف کلچر اپنی طرف سے اسلام میں داخل کر کے انہیں اسلامی کہ دیتے ہیں۔ اصل دین تو قران اور سنت رسول صلی علیہ وسلم میں موجود ہے۔ لیکن مغربی اور یورپی ممالک اگر مشکل وقت میں اللہ کو پکاریں تو ہمارے ماڈرن حضرات خاموش ہو جاتے ہیں کیونکہ اب یہ ٹھیک ہے۔
ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎ حسن دیکھا جو بتوں کا تو خدا یاد آیا۔ راہ کعبہ کی ملی ہے مجھے بت خانے سے۔ ٹرمپ کے دعا مانگنے کے عمل پر اب کم ہی لوگ بولیں گے جبکہ اسلام نے تو دعا کے ساتھ تمام دستیاب وسائیل استعمال کرنے کا کہا ہے۔
آپ اونٹ کو پہلے باندھیں پھر اللہ پر توکل کریں اس طرح اونٹ گم نہیں ہوگا۔ انہی ملکوں میں سے کسی شھر کی ایک مسجد کے سامنے شراب خانہ کھلا ۔ مسجد کے نمازی ہر نماز کے بعد اس کاروبار کی ناکامی کی دعا مانگنے لگے۔
کچھ دن بعد شراب خانے میں شارٹ سرکٹ سے آگ بھڑک اٹھی جس کے نتیجے شراب خانے کا سب کچھ جل کر خاکستر ہو گیا۔ شراب خانے کے مالک کو پتہ تھا کہ مسجد کے نمازی ان کے لیے بد دعا کرتے ہیں چنانچہ اس نے امام مسجد اور نمازیوں کے خلاف کیس درج کروا دیا۔ اس نے موقف اختیار کیا کہ میرے شراب خانے کے جلنے کی وجہ وہ دعائیں ہیں جو نمازی ہر نماز کے بعد کرتے تھے۔
جب جج نے شراب خانے کے مالک سے پوچھا تمھیں دعاوں پر یقین ہے تو اس نے کہا جی ہاں کیونکہ شراب خانے کے مالک کو دعاوں کی طاقت پر پکا یقین تھا ۔ آج پاکستان کو بھی کرونا بیماری کے چیلنج کا سامنا ہے ۔
اس سے بچنے کے لیے تمام دستیاب وسائیل استعمال کرنا ہونگے ہر احتتیاطی تدبیر اختیار کریں گے مگر دعا تو مومن کا ہتھیار ہے دعا ہمارے ہر سانس کے ساتھ چلتی ہے اور اللہ پاک ان دعاوں کو قبول بھی کرتا ہے۔ یہ بات یاد رکھیں جب چیلنج کی صورت حال سامنے آتی ہے تو اچانک انسان کی سوئی ہوئی صلاحیتیں جاگ اٹھتی ہیں اس کا جسم مزید طاقتوں کے ساتھ متحرک ہو جاتا ۔
ابھی ایک ماہ پہلے ہمارے دامان کی زمینوں پر ٹڈی دل کا حملہ ہوا تو ایک ہفتہ کسان اپنے کھیتوں میں دوڑ دوڑ کر ٹڈی دل اڑاتے رہے اور اللہ سے امداد کی دعا بھی مانگتے رہے۔ ان کی دعا قبول ہوئی پھر سپرے ٹیمیں وہاں پہنچ گئیں اور اللہ کی نصرت سے ٹڈی دل کا خاتمہ ہوا۔ تو قوموں کے زندگی میں امتحان اور آزمائیش آتی رہتی ہے اس کا مقابلہ صبر ۔استقلال ۔ڈسپلن اور یکجہتی سے کرنا ہوتا ہے جب آپ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھتے ہیں تو ہر مشکل وقت گزر جاتا اور یہ وقت بھی گزر جائیگا۔ان شاء اللہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر