حکومت قومی احتساب بیورو کو ایک آزاد، غیر جانبدار اور خود مختار ادارہ قرار دیتے ہوئے اس کے کسی بھی اقدام سے خود کو بری الذمہ قرار دیتی ہے اور کہتی ہے کہ اس کا نیب کے ساتھ کوئی گٹھ جوڑ نہیں ہے لیکن دوسری طرف پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ جنگ اور جیو نیوز کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے اگلے ہی روز حکومتی ترجمان ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اسی میڈیا ادارے اور اس کے صحافیوں کے خلاف دھواں دار پریس کانفرنس کرتی ہیں۔ حکومتی ترجمان جنہیں بولتے ہوئے شاید خود بھی اپنی باتوں میں تضاد کا ادراک نہیں ہوتا، ایک سانس میں یہ کہہ کر نیب کے اقدام کا دفاع کرتی ہیں کہ کچھ عناصر نے قانون کو گھر کی لونڈی بنا رکھا تھا، کوئی مقدس گائے نہیں ہے، اگر میر شکیل نے پلاٹ لیے ہیں اور وزیراعلیٰ سے کوئی رعایت لی ہے تو وہ ان الزامات کا سامنا کریں، دوسری سانس میں وہی ڈاکٹر صاحبہ آزادیٔ اظہار پہ یقین رکھنے کا دعویٰ کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ حکومت میڈیا سے تصادم نہیں چاہتی اور نہ ہی میڈیا سے ٹکرائو کسی حکومت کے لیے موزوں ہوتا ہے۔ اسی پریس کانفرنس میں حکومتی ترجمان جنگ اور جیو نیوز کے صحافیوں کو دھمکی آمیز لہجے میں تنبیہ کرتی ہیں کہ وہ حکومت پہ تنقید کرتے ہیں تو حکومت کی ان پہ بہت گہری نظر ہے۔ میر شکیل کی گرفتاری کو وزیراعظم سے جوڑنا صحافتی اقدار کی نفی ہے اور جنگ گروپ سے وابستہ صحافی حکومت پہ تیر برسانے کے بجائے میر شکیل کے ساتھ مل کر تمام ثبوت عدالتوں میں جمع کرائیں۔ حکومتی ترجمان نیب کے اقدام سے لاتعلقی کا اظہار کرنے کے دوران ہی نیب کے اقدام کا دفاع یہ کہہ کر بھی کرتی ہیں کہ میر شکیل کی گرفتاری کا آزادیٔ اظہار سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ ایک کاروباری شخصیت ہیں اور ان کی گرفتاری بطور کاروباری شخص کے ہوئی ہے تاہم اگر ان کے اس جواز کو بھی درست مان لیا جائے تو وہ یہ جواب دینے سے قاصر ہیں کہ انہی کی حکومت نے کاروباری افراد کے خلاف کارروائی کے اختیارات کو محدود کرنے کے لیے جو ترمیمی آرڈیننس جاری کیا،
کیا نیب نے میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے لیے اس ترمیمی قانون کے مطابق کارروائی کی؟ اگر محض الزام کی بنیاد پہ کسی شخص کو گرفتار کرنے کا نیب کا اقدام درست ہے تو اسی نیب میں بارہ سرکاری بسوں کے نجی استعمال اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں غیر قانونی بھرتیوں کے الزامات تو ان پہ بھی عائد ہوئے تھے حتیٰ کہ ان کے خلاف شکایت کو انکوائری میں بھی تبدیل کر دیا گیا تھا اور تب تک یہ انکوائری چلتی رہی تھی تاآنکہ وہ تحریک انصاف میں شامل ہو کر اس کی لانڈری میں دھل نہیں گئی تھیں۔ نیب حکومتی گٹھ جوڑ کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ جیسے ہی معاونِ خصوصی اطلاعات کی جنگ جیو نیوز اور اس سے جڑے صحافیوں کو رگیدنے کی پریس کانفرنس ختم ہوئی اس کے فوری بعد ملک بھر میں کیبل آپریٹرز کو جیو نیوز بند کرنے یا آخری نمبروں میں ڈالنے کے غیرقانونی احکامات دیے جانے لگے۔ فردوس عاشق اعوان آج بھی دھڑلے سے سرکاری سچ بیان کر رہی ہیں کہ جیو نیوز کی نشریات میں کوئی خلل نہیں ڈالا گیا اور چینل معمول کے مطابق اپنی پوزیشن پہ دکھایا جا رہا ہے۔
ابھی حال ہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں توہین عدالت کا مقدمہ بھگتنے اور غیرمشروط معافی مانگنے والی حکومتی ترجمان کو شاید سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ بھی یاد نہیں رہا جس میں حکومت اور پیمرا کو واضح ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ کسی چینل کی پوزیشن تبدیل نہیں کریں گے اور ایسا کرنا غیرقانونی اقدام ہوگا۔ معاونِ خصوصی اطلاعات کی نظروں سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس اطہر من اللہ کا ایک مقدمے میں سینئر صحافی حامد میر کی توجہ دلانے پہ دیا گیا یہ واضح بیان تو ضرور گزرا ہوگا کہ آئینی عدالتیں اظہار ِرائے کی آزادی پہ قدغن نہیں آنے دیں گی، جو پڑوسی ملک میں ہو رہا ہے وہ یہاں نہیں ہونے دیں گے، جس معاشرے میں آزادیٔ اظہار نہ ہو وہ ترقی نہیں کر سکتا، معزز چیف جسٹس کی طرف سے بیان کیے گئے یہ اعداد و شمار بھی یقیناً حکومتی ترجمان کی رہنمائی میں مددگار ہوں گے کہ پاکستان آزادیٔ اظہار کے حوالے سے دنیا کی اقوام میں 143ویں نمبر پر ہے، معزز چیف جسٹس کے نزدیک اس صورتحال کا واضح مطلب کسی شک و شبہے کی گنجائش کے بغیر یہ ہے کہ ہم اپنے شہریوں کو اظہارِ رائے کی آزادی دینے میں دنیا کے تمام مہذب ملکوں سے پیچھے ہیں۔ ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کی جس غیر قانونی اور غیراخلاقی گرفتاری کی حکومت مذمت تک کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور وہ اسے آزادیٔ اظہار کے خلاف اقدام نہیں سمجھتی بلکہ وہ نیب کے اس اقدام کو آزادیٔ اظہار کے خلاف کارروائی سے تعبیر کرنا جنگ جیوز کا پروپیگنڈا قرار دیتی ہے تو کیا رپورٹرز وِدآئوٹ بارڈرز، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس، انسانی حقوق کمیشن جیسے عالمی اداروں اور امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک کی طرف سے میر شکیل کی گرفتاری کی سخت مذمت اور میڈیا کے خلاف کارروائی قرار دینا بھی پروپیگنڈا ہی ہے؟
شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا دم بھرنے والوں کو تاریخ کے اوراق پہ بھی ایک نظر ضرور ڈالنا چاہئے کہ ماضی میں پرویز مشرف کی آمریت ہو یا مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومتیں، جس نے بھی میڈیا کی آزادی پہ وار کیا اسے بعد میں سوائے پچھتاوے اور رسوائی کے کچھ نہیں ملا جبکہ ان ادوار میں کچھ لوگوں نے جو کردار ادا کیے وہ آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ حکومتی ترجمان اب فیصلہ خود کر لیں کہ کیا وہ پیپلز پارٹی کی وزیر اطلاعات شیری رحمٰن کے طور پہ تاریخ میں زندہ رہنا چاہتی ہیں جنہوں نے جنگ جیونیوز کی بندش کے اپنی ہی حکومت کے غیرقانونی اقدامات کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے ضمیر کی آواز پہ وزارت کی قربانی دے دی تھی یا وہ مسلم لیگ (ن) کے وزیر دفاع خواجہ آصف جیسے لوگوں کے ساتھ تاریخ میں اپنا نام درج کرانا چاہتی ہیں جو جنگ اورجیو نیوز کے خلاف غداری کے مقدمے کے مدعی بن گئے تھے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر