نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرائیکی صوبہ یا نئے ٹرک کی بتی؟ ۔۔۔حیدر جاوید سید

نون لیگ 2013ءمیں ختم ہونے والی پنجاب اسمبلی سے جنوبی پنجاب اور بہاولپور کےلئے الگ الگ صوبہ بنانے کی قرارداد منظور کروا چکی ہے۔

پنجاب کے سرائیکی بولنے والے اضلاع کےلئے الگ سے سیکرٹریٹ کے قیام کی نوید دیتے وقت چند دن قبل بتایا گیاتھا کہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری بہاولپور میں اور ایڈیشنل آئی جی ملتان میں بیٹھے گا، اسے ہم سادہ لفظوں میں ”نواں عجوبہ“ کہہ سکتے ہیں۔
ایک ایسا سیکرٹریٹ منظم ہونے جا رہا ہے جس کےلئے دو ابتدائی افسر 100کلو میٹر کے فاصلے پر بیٹھیں گے۔ کیا دفتری نظام خلا میں تعمیر کرنے کا کوئی جدید منصوبہ بنا لیا گیا ہے؟
سرائیکی قوم پرستوں کے بڑے طبقے کا موقف ہے کہ کچھ نہیں ہونے والا‘ لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے بھگائے رکھنے کا پروگرام ہے۔
تحریک انصاف جانتی ہے کہ اسے پنجاب اور قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں، پنجاب اسمبلی سے پنجاب کے اندر نیا صوبہ بنانے کا بل دو تہائی اکثریت کے بغیر منظور نہیں ہوگا۔
نون لیگ 2013ءمیں ختم ہونے والی پنجاب اسمبلی سے جنوبی پنجاب اور بہاولپور کےلئے الگ الگ صوبہ بنانے کی قرارداد منظور کروا چکی ہے۔
ان سطورکے لکھے جانے سے فقط 24 گھنٹے قبل نون لیگ کے سیکرٹری جنرل احسان اقبال نے ملتان میں دو ٹوک انداز میں کہا
” وفاقی حکومت دو صوبوں والی ہماری قرار داد کو قانونی شکل دینے پر آمادہ ہو تو ہم پنجاب اور قومی اسمبلی میں تعاون کریں گے‘ بصورت دیگر نہیں“
پیپلز پارٹی کے پاس پنجاب اسمبلی میں 8ووٹ ہیں ان کا ایک رکن حال ہی میں وزیراعلیٰ سے ملا اور اسے شوکاز نوٹس جاری ہو گیا۔ سات ارکان اس عددی طاقت کا حصہ بھی شمار ہوں تو بھی پنجاب اسمبلی میں دو تہائی اکثریت ملنا مشکل ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جنہوں نے چند دن قبل نئے صوبے کے قیام کےلئے ابتدائی انتظامات اور پھر یکم جولائی سے سیکرٹریٹ کے فعال ہونے کی خوشخبری سنائی تھی کل کہہ چکےہیں
”ہمارے پاس دو تہائی اکثریت نہیں“
سمجھنے والی بات جسے نظرانداز کیا جا رہا ہے کہ کیا تحریک انصاف اور اسے لانے والے نیا صوبہ بنا کر پنجاب کا اقتدار ہاتھ سے جانا برداشت کر لیں گے؟۔
آگے بڑھنے سے قبل بطور خاص یہ بات سمجھ لیجئے، اگر نیا صوبہ بنتا ہے تو اس کی صوبائی اسمبلی کے کل 95 ارکان میں سے 53 کا تعلق تحریک انصاف سے 5 کا پیپلز پارٹی سے 2 کا ق لیگ سے ہوگا اور ایک آزاد رکن جبکہ 29 ارکان کا تعلق نون لیگ سے ہوگا۔
مخصوص نشستوں کی ازسرنو تقسیم سے بھی تحریک انصاف کو فائدہ پہنچے گا سو نئے صوبے میں اس کی حکومت آسانی سے بن جائے گی
مگر پنجاب میں جہاں باقی ماندہ 202ارکان اسمبلی ہوں گے 97 کا تعلق نون لیگ سے 87 کا تحریک انصاف سے 6 کا ق لیگ سے پی پی پی کا ایک‘ کالعدم سپاہ صحابہ کا ایک اور دو آزاد ارکان ہوں گے۔
یہاں اگر پی پی پی اور دوسرے تین ارکان نون لیگ کےساتھ کھڑے ہوں، مخصوص نشستوں کی نئی تقسیم سے نون لیگ کاحصہ امکانی طور پر زیادہ ہوگا، اس صورت میں تحریک انصاف کےلئے ق لیگ کاساتھ ہونے کے باوجود حکومت بنانا بہت مشکل ہوگا۔
کہنے والے یہ کہہ رہے ہیں کہ حال ہی میں نون لیگ کے جن سات ارکان نے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کی ہے وہ اصل میں ان کوششوں کا حصہ ہے کہ کم وبیش 30 سے 35 ارکان کا فارورڈ بلاک بنوایا لیا جائے تاکہ نئے صوبے کےساتھ پنجاب میں بھی پی ٹی آئی اقتدار میں رہ سکے۔
سوال یہ ہے کہ اگر فارورڈ بلاک نہیں بنتا تو کیا تحریک انصاف اور اسٹبیلشمنٹ پنجاب میں نون لیگ کی حکومت برداشت کر لیں گے؟
موجودہ حالات میں میرا جواب نفی میں ہے، ہاں اگر نون لیگ یہ یقین دہانی حاصل کرلے کہ پنجاب اسے مل جائے گا تو ممکن ہے وہ آئینی ترمیم کے بل کو سپورٹ کرے
مگر اس صورت میں نون لیگ کو اپنی ہی دو صوبوں والی قرارداد سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔
دوسری طرف اگر بہاولپور میں آبادکاروں کے رہنما بن کر سامنے آنے والے طارق بشیر چیمہ نے یہ دیکھا کہ ایک صوبہ بننے جا رہا ہے تو ان کی جماعت ق لیگ 10ارکان مخالفت کریں گے۔
یہ مخالفت مرکز میں عدم استحکام پیدا کرسکتی ہے تو کیا مرکز میں عدم استحکام تحریک انصاف کو گوارہ ہوگا؟

جواب نفی میں ہے۔
یہی وہ سوال اور نکات ہیں جن کا پچھلے چند دنوں سے تحریک انصاف جواب نہیں دے رہی۔
اُڑتی اُڑتی خبر یہ ہے کہ نئے صوبے کے قیام کےلئے ابتدائی اعلانات انتخابی ہتھیار ہوسکتے ہیں مگر کیا تحریک انصاف درمیانی مدت کے انتخابی عمل کی طرف بڑھ پائے گی؟
سادہ سا جواب یہ ہے کہ یہ بھی اس کےلئے بہت مشکل ہوگا
زمینی حقائق کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ مہنگائی اور دوسرے مسائل انتخابی عمل پر اثرانداز ہوں گے۔
جن اہم باتوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ نئے صوبے کےلئے باﺅنڈری کمیشن کہاں ہے۔
کیا سرائیکی قوم پرست گویہ پارلیمانی سیاست کا حصہ نہیں ہیں پھر بھی وہ تین ڈویژنوں پر مشتمل صوبہ پر آمادہ ہوں گے؟
سوال کے دوسرے حصہ کا جواب نفی میں ہے۔
سرائیکی صوبہ کی تحریک کے آغاز کے وقت 1980ءکی دہائی سے ڈیرہ اسماعیل خان سے صادق آباد تک صوبہ کا مطالبہ ہو رہا ہے، تقسیم شدہ سرائیکی وسیب میں قوم پرستوں کی سیاست اسی نعرے پر ہے۔
اگر وہ تحریک انصاف کے منصوبے کی حمایت نہیں کرتے تو مسائل بہرطور پیدا ہوں گے۔
یہاں یہ عرض کردوں کہ نون لیگ نے اپنے ارکان کو نئے صوبے کے قیام کی مخالفت کرنے کےلئے کہہ دیا ہے
اطلاع یہ ہے کہ مریم نواز کا شاہد خاقان عباسی کے گھر جانا دراصل اس سلسلے کی کڑی تھی۔ اس ملاقات کے بعد ہی احسن اقبال نے ہفتہ کی دوپہر ملتان میں نئے صوبے کے حوالے سے ان خیالات کا اظہار کیا جن کا بالائی سطور میں تذکرہ کرچکا۔
اس طور یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اگر نون لیگ اگر پنجاب بچاﺅ کا نعرہ لے کر سیاسی منظرنامے میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتی ہے تو پھر کیا ہوگا؟
مکرر یہ عرض کرنا ازبس ضروری ہے کہ معاملات اتنے سادہ ہرگز نہیں جسے سمجھے یا پیش کئے جا رہے ہیں۔
دوسری طرف سرائیکی وسیب کی بد قسمتی ہے کہ پارلیمانی سیاست میں قوم پرستوں کا حصہ ہے ناکوئی کردار۔
یہاں ایک اور بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہفتہ کو سندھ کی تقسیم کے حوالے سے ایم کیو ایم کے عامر خان نے جو بات کہی وہ اسلام آباد کی رضامندی سے کی گئی ہے۔
اسی دوران بعض آوازیں مولانا ظفر انصاری والی رپورٹ کو لے کر اُٹھ رہی ہیں،
جنرل ضیاءکے دور میں اس انصاری کمیشن نے ڈویژنوں کو صوبوں کا درجہ دینے کی تجویز پیش کی تھی۔
اب اگر سادہ سادہ انداز میں یہ کہا جائے کہ جنوبی پنجاب صوبے کا میلہ لگوانے کا مقصد صوبہ بنانے سے زیادہ سرائیکی وسیب کا ”کمبل“ چوری کرنے کا منصوبہ ہے تو یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہوگا
لیکن اس سارے معاملے میں اصل ذمہ داری قوم پرستوں پرہے کہ وہ طا رق بشیر چیمہ اور دوسرے کچھ عناصر کی لسانی فسادات کروانے کی سازش کو کامیاب نہ ہونے دیں۔

About The Author