ملاؤں کے اس مذہبی تبلیغی اجتماع کے بعد یہ طے ہے کہ پاکستان کے غریب پسماندہ طبقے کو کرونا وائرس سے کوئی نہیں بچا سکتا یہ ہر ایک جنتی طوطا کس طرح کرونا وائرس پھیلا کر لاکھوں کی موت کا باعث بن سکتا ہے اس کا کسی کو بھی چنداں اندازہ نہیں بلخصوص خصی ریاست کی بانجھ حکومت کو تو انداہ ہی نہیں ہے ۔
۔۔۔جب میڈیا بریفنگ میں ملک کا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جو خود بھی ایک گدی نشیں خاندانی مجاور ہے یہ کہے کہ ہمارے دینی طبقات اور علمائے کرام نے کرونا وائرس کے حوالے سے بہت ذمہ دارانہ رول ادا کیا ہے جیسے ملاؤں نے کرونا وائرس کا علاج یا ویکسین دریافت کرلی ہو تو ایسے میں ملک کا اللہ حافظ ہے اور ویسے بھی پاکستان کا اللہ ہی تو حافظ ہے بندوں کی مجال نہیں کہ اوپر والے کے فیصلوں میں مداخلت کریں۔
دوسری طرف کٹر انتہاپسند ملکوں میں کویت کی حکومت نے ملک کی مساجد کو عارضی طور پر بند کر دیا ہے اور اذان میں ترمیم کی ہے ، ہر آذان کے ساتھ ہی اپنے گھروں میں نماز پڑھیں” کے الفاظ شامل کئے ہیں ۔ کویت کی وزارت اوقاف نے جمعہ کے روز یہ اعلان کیا کہ مساجد میں روزانہ پانچ وقت کی نمازیں منسوخ ہیں اور ہر اذان میں اب نمازیوں کو مساجد میں نہ آنے کی ہدایت بھی کی جا رہی ہے۔
اگر سعودی وہابی انتہاپسند اسلامی نظریات رکھنے والے اگر اللہ کے گھر کعبہ کو انسانوں کی فلاح اور بھلائی کے لئے ہر قسم کی عبادت کے لئے بند کرسکتے ہیں اور کرونا وائرس سے اللہ کے گھر کو زم زم کے پاک پانی کی بجائے کلورو اور دیگر زہریلے کیمائی مادوں سے دھوسکتے ہیں اور اسکے باوجود بھی اللہ تعلی ان پر ابھی تک راضی ہے اور ابھی تک عذاب الہی بھی ان پر نازل نہیں ہوا تو پھر پاکستانی عوام کی زندگی اور صحت کے لئے خودساختہ مذہبی اجتماع کیوں نہیں روکا جاسکتا جبکہ عمرہ جیسے اہم دینی فریضے پر پابندی ہونے سے کچھ نہیں ہے اور کافی امکان یہ بھی ہے کہ شاید اس سال حج نہ کیا جاسکے پاکستانی دیسی برانڈ کے ملاؤں اور انکے مقامی اجتماعات کو قومی مفاد کے تحت کیوں نہیں روکا جا سکتا اس وقت جو حشر اس وقت ایران میں ملاؤں نے اپنی عوام کے ساتھ کیا ہے اور جس تکلیف دہ حالات سے ایران کی عوام گزر رہے ہیں اس کا حال نیچے درج مضمون میں پڑھ لیں ۔۔
اگر دم درود اور پھوکوں نمازوں دوعاؤں سے عبادتوں سے بیماریوں کا علاج ممکن ہوتا تو یقین جانیں آج دنیا میں ہرسال لاکھوں میں نوجوان اپنے اپنے مذاہب نہ چھوڑنے پر مجبور نہ ہوتے ۔
پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا کے خطرے کے باوجود لاہور کے نواحی علاقے رائیونڈ میں مذہبی تبلیغی اجتماع میں تقریباﹰ ڈھائی لاکھ افراد جمع ہو گئے ہیں اس نوعیت کے واقعات سے کورانا وائرس مزید پھیل سکتا ہے۔
پانچ روزہ اجتماع کے لیے بدھ کے روز سے ہی ملک بھر سے تقریباﹰ دو لاکھ پچاس ہزار افراد لاہور کے قریب کیمپوں میں جمع ہو چکے تھے بحر حال دیر آئے درست آئے مگر کرونا اپنا کام یقینا کرگیا ہوگا کیوں کہ اس سالانہ تبلیغی اجتماع کے منتظمین نے جمعرات کو کورونا وائرس کے خدشات کے بجائے شدید بارش کی وجہ سے منسوخ کرنے کا اعلان کیا شاید کرونا وائرس کو وہ عذاب الہہی تصور نہیں کرتے ۔
رائیونڈ کے اس اجتماع کے ایک منتظم نے بتایا، ’’زیادہ تر افراد اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں لیکن اب بھی ہزاروں افراد یہاں موجود ہیں۔ وہ آج واپس لوٹیں گے۔‘‘ ۔
راونڈ اور لاہور کے مقامی شہریوں کے لئے یہ خطرہ کس طرح بڑھ چکا ہے یہ شاید آنے والے چند دنوں میں معلوم ہوسکے گا۔۔۔۔کیوں کہ ایران کے شہر قم اور ساتھ کے ملحقہ شہروں میں وہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ ہوا ہے ۔ کرونا وائرس کی حالیہ وباء سے ایران خاص طور پر شدید متاثر ہوا ہے جس میں ریاستی سرکاری ملاؤں کی غلط بیانی اور امریکی پابندیوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ 9 مارچ پیر کے دن تک ایرانی حکومت کے مطابق کرونا وائرس کے مرض میں 7 ہزار 161 افراد مبتلا ہیں جبکہ 237 کی اموات ہو چکی ہیں۔ ہفتے کے دن تک 16 ہزار افراد مرض لاحق ہونے کے شک میں ہسپتالوں میں داخل ہو چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ”سرکاری“ اعداد و شمار حقیقی صورتحال کے عکاس نہیں ہیں کیونکہ ایک طرف حکومت غلط بیانی کر رہی ہے اور ایران میں مرض کی تشخیص کے لیے درکار کِٹس ہی موجود نہیں اور دوسری طرف مرض میں زیادہ تر مبتلا افراد ہسپتالوں کا رُخ ہی نہیں کر رہے۔
پچھلے تین ہفتوں میں یہ اعدادوشمار تیزی سے بڑھے ہیں اور فمستقبل میں ان میں مزید تیز ترین اضافہ متوقع ہے۔ بحران کی شدت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ محض پچھلے 24 گھنٹوں میں 43 اموات واقع ہو چکی ہیں۔ مرنے والے افراد میں اب تک فاطمہ رہبر اور محمد علی رمضانی دستک سمیت سات سیاست دان اور حکومتی عہدیداران شامل ہیں۔
موجودہ صورتحال دیکھ کر اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ محض تین ہفتے پہلے 17 فروری کے دن نائب وزیرِ صحت نے ٹی وی پر آ کر اعلان کیا تھا کہ ایران میں کرونا وائرس موجود ہی نہیں! چند دن بعد ایران سے کینیڈا اور لبنان جانے والے مسافروں میں کرونا وائرس کی تشخیص ہو گئی اور مقدس شہر قُم کے چار رہائشیوں کی موت کا ذمہ دار وائرس کو ٹھہرایا گیا۔
اپنے ابتدائی اعلان کے بعد کے عرصے میں ڈپٹی وزیرِ صحت بھی اس وائرس کا شکار ہو چکا ہے۔
وائرس کی سب سے پہلی تشخیص مقدس شہر قُم میں ہوئی جہاں فاطمہ بنت موسیٰ کا مزار واقع ہے۔ ملاؤں کا یہ ماننا ہے کہ بارگاہ بیماروں کو شفاء یاب کرتی ہے اور ا س لیے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں زائرین ملک کے طول و عرض سے یہاں مرادیں لیے پہنچتے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ ممکنہ طور پر شفایابی کی آس لیے آنے والے ہزاروں افراد کرونا وائرس کا شکار ہوئے اور اب وہ یہ بیماری لے کر واپس اپنے علاقوں اور بیرونِ ملک جا چکے ہیں۔ مقدس شہر سے شروع ہونے والا یہ وائرس اب ایران کے تمام 31 صوبوں میں پھیل چکا ہے۔ اور اب ایرانی مسافر اس وائرس کو بحرین، کینیڈا، لبنان، افغانستان، عمان، عراق، عرب امارات، پاکستان اور کویت تک پھیلا چکے ہیں۔
یہ کوئی حادثہ نہیں کہ دیگر ممالک کے مقابلے میں اس وائرس کا سب سے زیادہ پھیلاؤ ایران میں ہوا ہے۔
مزار کا ایک متولی علی اکبر حُسینی نژاد بھی مخالفین میں شامل تھا اور اس کا کہنا تھا کہ ”بارگاہ کو بند کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ عوام کو خود محتاط ہونا چاہیے۔۔۔“ بارگاہ کے نگران محمد سعیدی کا موقف تھا کہ بارگاہ کو کھلے رہنا چاہیے کیونکہ یہ ”شفاء کا گھر ہے“ اور ”عوام کے یہاں آنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے“۔ وزیرِ صحت نمکی نے سرکاری ٹی وی پر بیان دیا کہ زائرین کو ہاتھوں کی صفائی کے لئے جراثیم کش محلول، صحت سے متعلق آگاہی اور فیس ماسک فراہم کرنے کے بعد مزار آنے کی اجازت ہو گی۔۔
اس دوران مسجدوں کی بندش اور لوگوں کو گھروں میں عبادت کرنے کی تلقین سے دائیں بازو کے ملا شدید مشتعل ہو گئے۔ مشہد میں سپریم لیڈر کے خوفناک رجعتی نمائندے عالم الہدیٰ کا کہنا تھا کہ ”جمعے کی عبادت کسی صورت منسوخ نہیں کی جائے گی۔“ 28 فروری کو جمعے کے اجتماعات منسوخ کرنے کے اعلان پر حکومت کی مخالفت میں ان سخت گیر ملاؤں نے عوامی اکٹھ اور اجتماعات کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔
3 مارچ کو سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے بھی منظر عام پر آ کر کرونا وائرس بحران کے حوالے سے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ”یہ تباہی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے اور اس سے بڑی ہولناکیاں ماضی میں رونما ہوتی رہی ہیں“۔ اس نے خاص طور عوام کو ”عبادت“ کرنے کی تلقین کی تاکہ وہ وائرس کا مقابلہ کر سکیں۔
یعنی اگر امراء اور ارباب اقتدار میں وائرس کی موجودگی کا ذرا بھی شک ہو تو ان کے لیے صحت کی بہترین سہولیات موجود ہیں جبکہ محنت کش طبقہ صرف عبادت پر اکتفاء کرے۔ یہ واقعات ایرانی عوام کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کریں گے اور ریاست اور زیادہ کمزور ہو گی۔ اسی دوران، یہ اعتراف کہ مزار کی کوئی شفایاب برکات نہیں اور حقیقی حاجت کے وقت عبادات موثر نہیں، ملا ریاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچائے گا۔
نوٹ: (معلوماتی ماخذ کے طور پر میثم شریفی کی ایران پر تازہ رپورٹ سے کچھ مواد شامل کیا گیا ہے جو جریدہ “مارکسسٹ “ چھپا میں ہے )
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر