تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے ایک اہم انتخابی نعرے پر عملد رآمد کا آخرفیصلہ کر لیا ۔ عمران خان نے انتخابات سے قبل جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ پہلے نوے دنوں کے اندر جنوبی پنجاب صوبہ نہ بھی بن سکا تو کم از کم اس کا سیکریٹریٹ جنوبی پنجاب میں بنا دیا جائے گا۔
نوے دنوں کے حوالے سے تحریک انصاف کی رومانویت توابتدا ہی میںدم توڑ گئی ۔ انہیں اندازہ ہوگیا کہ بڑی تبدیلیاں یوں نہیں آ سکتیں۔ جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ بنانے کے حوالے سے بہرحال اب اچانک ہی بریک تھرو ہوا ہے، نہ صرف بنانے کا اعلان کر دیا گیا بلکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ یکم جولائی یعنی لگ بھگ سو دنوں کے بعد یہ سیکریٹریٹ فعال ہوجائے گا۔ حکومت کے اس اقدام کو دیر آئید درست آئیدکہا جا سکتا ہے۔ درست اور بڑا فیصلہ ۔
اس فیصلے کا موازنہ مسلم لیگ ن کی سابق حکومت سے کرنا نامناسب نہیں ہوگا۔ مئی 2013ءکے انتخابات میں مسلم لیگ ن نے پنجاب اور مرکز میں دو تہائی اکثریت سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔ جنوبی پنجاب میں بھی انہیں طویل عرصے بعد بڑی کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ ملتان شہر کی نشستوں کے سوا بیشتر اہم شہروں سے ن لیگ نے میدان مارا۔اس الیکشن سے پہلے مسلم لیگ ن نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ پنجاب کو تقسیم کر کے جنوبی پنجاب صوبہ اور بہاولپور صوبہ بنائیں گے۔ اس سے پہلے پیپلزپارٹی نے بہاولپور جنوبی پنجاب صوبہ کا اعلان کیا تھا یعنی ملتان، بہاولپور، ڈی جی خان ڈویژنز پر مشتمل جنوبی پنجاب صوبہ جس کا دارالحکومت بہاولپور ہو۔ ن لیگ نے پیپلزپارٹی کو کاﺅنٹر کرنے کے لئے دانستہ طور پر جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبے کی الگ الگ بات کی۔ مقصد یہی تھا کہ بہاولپور کے سیاسی رہنما اور ملتان، ڈی جی کے سیاستدان آپس میں الجھ جائیں اور یوں معاملہ ٹھپ ہوجائے۔
یہ صرف بدگمانی نہیں بلکہ اس مقصد کے لئے مسلم لیگی قیادت کے ایک اعلیٰ اجلاس میں بالکل اسی طرح کے الفاظ استعمال کئے گئے اور کہا گیا کہ پنجاب کی تقسیم کے مطالبے کو کمزور کرنے کے لئے الگ سے بہاولپور کے صوبہ کا شوشا چھوڑا جائے ۔ یہ بات منطقی طور پر غلط اور بچکانہ تھی۔ اگر بہاولپور ڈویژن کو الگ کر دیا جائے تو پھر جنوبی پنجاب کے نام پر ملتان اور ڈی جی خان ڈویژن یعنی کل سات اضلاع کو الگ صوبہ بنانے کے مطالبہ کا کیا جواز اور وزن رہ جاتا؟ خیر الیکشن میں کامیابی کے بعد مسلم لیگ ن نے اس جانب مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کی بات شروع میں کی گئی۔ ایک عدد کمیٹی بنائی گئی جس کے درجن بھر اراکین میں ہمارے دوست معروف کالم نگار خالد مسعود خان بھی شامل تھے۔
جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ بنانے کا چونکہ کوئی ارادہ ہی نہیں تھا ، اس لئے کمیٹی نے ایک آدھ اجلاس کے بعد کوئی کارروائی نہیں کی۔ خالد مسعود خان اس پر ان دنوں تفصیل سے کالم لکھ چکے ہیں۔اس کا ایک نتیجہ موجودہ الیکشن میں سامنے آیا اور مسلم لیگ ن کو جنوبی پنجاب سے بڑی شکست ہوئی ۔ وہ بہاولپور ، ڈی جی خان جیسے اہم شہروں سے نشستیں ہار گئے ، احمد پورشرقیہ اور بعض دوسرے علاقوں سے بھی انہیں خاصی ہزیمت اٹھانا پڑی جبکہ ملتان میں تو باقاعدہ صفایا ہوگیا۔
تحریک انصاف نے اس لحاظ سے اپنا انتخابی وعدہ پورا کیا ہے۔ اگر اگلے تین معنوں میں وہ جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کو عملی طور پر فعال بنا لیتے ہیں اور پنجابی محاورے کے مطابق گونگلوﺅں سے مٹی جھاڑنے کے بجائے حقیقی معنوں میں دفتری معاملات اور اختیارات جنوبی سیکریٹریٹ کو منتقل ہوجائیں تو یہ عمران خان کی سیاسی کامیابی ہوگی۔ اس حوالے سے دو تین اہم سوالات اہم ہیں ، ان کو دیکھتے ہیں۔
آخر پنجاب ہی کیوں تقسیم کیا جائے؟
اس لئے کہ پنجاب ہی اس ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے ، ستاون فیصد کے قریب آبادی یہاں رہتی ہے، اتنا بڑا صوبہ دنیا بھر میں کم ہی ملے گا، دنیا کے بیشتر ممالک کی آبادی اور رقبہ پنجاب سے کم ہے ۔ سب سے اہم کہ پنجاب کے اس غیر معمولی سائز کی وجہ سے باقی تینوں صوبے سندھ، خیبرپختون خوا اور بلوچستان کے سیاستدان اور عوام نالاں رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کا یہ ابنارمل انداز سے بڑا صوبہ ہونا پنجابیوں کے لئے نقصان دہ ہے۔ اپنے عمومی فراخ دلانہ رویے اور وسعت قلبی کے باوجود انہیں ہر بار چھوٹے صوبوں سے صلواتیں سننا پڑتی ہیں اور اپنے حصے سے کچھ کم شیئر لینا پڑتا ہے۔ پنجاب کی تقسیم کے بعدیہ شکوہ نہیں رہے گا۔ پنجاب تب بھی اہم صوبہ رہے گا، اس کے پاس قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں ہوں گی، مگر پھر اس پر الزام نہیں لگ سکتا۔
سرائیکی پنجابی کا لہجہ ہے، انہیں کیوں الگ کیا جائے وغیرہ وغیرہ
یہ استدلال اس لئے غیر موثر ہے کہ نیا صوبہ بنانے کا منصوبہ لسانی بنیاد پر ہے ہی نہیں، یہ صرف جغرافیائی بنیاد پر بنایا جا رہا ہے اور عملی طور پر اس میں سرائیکیوں کے علاوہ کم از کم تیس چالیس فیصد سے زیادہ پنجابی اور اردو سپیکنگ رہتے ہیں، بعض اضلاع میں توپنجابی بولنے والے یا آبادکار ہی غالب ہیں۔ ویسے سرائیکی کے الگ زبان ہونے کا معاملہ برسوں پہلے طے ہوچکا ہے، اس پر اب بحث وقت کا ضیاع ہے۔ آئین پاکستان کے تحت مردم شماری کے فارم میں سرائیکی زبان کاپنجابی سے الگ خانہ ہے اور اعداد وشمار بتادیتے ہیں کہ کتنے کروڑلوگوں نے خود کو پنجابی کے بجائے سرائیکی کہا۔ اکادمی ادبیات پاکستان ہر سال دوسری قومی زبانوں کی طرح سرائیکی زبان میں بھی شائع ہونے والی کتابوں پر انعام دیتی ہے جبکہ ریڈیو پاکستان سرائیکی بولنے والے ڈویژنز میں سرائیکی میں خبریں نشر کرتی ہے۔
دو اہم سرکاری یونیورسٹیوں میں ایم اے سرائیکی کی کلاسز ہوتی ہیں جبکہ سرائیکی زبان میں پی ایچ ڈی بھی ہو رہی ہے۔ اب بھی کوئی اس بحث کو پھر سے زندہ کرنا چاہیے تو اس کی دانش پر ماتم کرنا چاہیے۔ سرائیکی قوم پرست یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ سرائیکی بنیاد پر صوبہ بننا چاہیے۔ اگلے روزنائنٹی ٹو نیوز ہی میں معروف کالم نگار ظہور دھریجہ نے اسی موضوع پر کالم لکھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ مطالبہ بھی جائز اور وزنی ہے۔ جب پاکستان میں سندھی، بلوچ، پختون، پنجابی قومیتوں کی بنیاد پر صوبے بن سکتے ہیں اور اس سے ملکی وحدت کو نقصان نہیں پہنچا تو پھر کئی کروڑ سرائیکیوں نے کیا قصور کیا ہے؟سرائیکی وسیب (خطے)میں کبھی نسلی، لسانی بنیاد پر فسادات نہیں ہوئے، سرائیکی ملک کی پرامن ترین قومیتوں میں سے ایک ہیں،محرومی کی شکایات وہاں بے شک ہیں، مگر کبھی ریاست یا ریاستی اداروں کے خلاف نعرے نہیں لگے۔ اس لئے اگر سرائیکی بنیاد پر صوبہ بنے، تب بھی کوئی حرج نہیں۔اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ اگر ملک کی اہم بڑی جماعت تحریک انصاف جغرافیائی بنیاد پر جنوبی پنجاب صوبہ بنانا چاہ رہی ہے،پیپلزپارٹی اسکے لئے پہلے ہی قرارداد لا چکی ہے ، مسلم لیگ ن بھی اصولی طو رپر مخالف نہیں۔ ایسے میں جو کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے، وہ کر لینا چاہیے۔
جنوبی پنجاب صوبہ بنانے میں کوئی حرج نہیں ، مگر اس میں ملتان، بہاولپور، ڈی جی خان ڈویژنز کے ساتھ میانوالی اور بھکر کے اضلاع ضرور شامل ہونے چاہئیں، اس لئے کہ یہ تھل کا علاقہ ہے اور تھل کا اہم ترین ضلع لیہ جنوبی پنجاب میں شامل ہو، جبکہ ساتھ جڑے ہوئے میانوالی، بھکر نہ ہوں تو اس کا مقامی آبادی کونقصان ہوگا۔خوشاب کی تحصیل نور پور تھل اور جھنگ کا کچھ علاقہ بھی (مقامی آبادی کی تائید کے بعد) جنوبی پنجاب صوبہ میں شامل کرنا چاہیے۔
اگر پنجاب تقسیم ہو تو پھر سندھ بھی ہونا چاہیے
یہ عجیب وغریب مطالبہ ہے۔ پنجاب اس لئے تقسیم ہو رہا ہے کہ اس کا سائز غیر معمولی بڑا ہے اور اتنے بڑے صوبے کی گورننس آسان نہیں ۔ دوسرا پنجاب کے دارالحکومت سے کئی سو کلومیٹر دور واقع علاقوں کا کلسٹر الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کر رہا ہے اور وہ پنجاب کے سب سے خوشحال اور ترقی یافتہ شہر لاہور سے دستبردار ہونے کو تیار ہے۔ سندھ میں ایسی صورتحال بالکل نہیں ہے۔ اگر سندھ میں کراچی سے دور واقع اندرون سندھ کے علاقوں کا کوئی کلسٹر الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کرے تو پھر ضرور غور کیا جانا چاہیے ، مگر سندھی تو الگ صوبہ کے نام پر جان دینے کو تیار ہیں۔ سندھ میں صرف ایم کیوایم ہی تقسیم کی بات کرتی ہے اور ان کا مطالبہ غیر منطقی اور غیر حقیقی ہے۔
سندھ کے سب سے خوشحال اور ترقی یافتہ شہر کراچی ، جس پر سندھ کے بجٹ کا بہت بڑا حصہ پچاس سال سے لگتا رہا ہے۔ اگر کراچی کو سندھ سے الگ کر دیا جائے تو اہل کراچی کو تو یقینا فائدہ پہنچے گا، مگر سندھی برباد ہوجائیں گے۔ اس ناانصافی کی قیمت پر کیسے الگ صوبہ بنایا جا سکتا ہے؟اس کے برعکس جنوبی پنجاب صوبے میں لاہور یا سنٹرل پنجاب کا کوئی سٹیک موجود نہیں۔ صوبے کے پسماندہ ترین اضلاع جنوبی پنجاب میں آتے ہیں، بے شمار مسائل بھی موجود ہیں۔ اگر وہاں کے لوگ اپنی غربت، مسائل اور پسماندگی کے باوجود صوبے کے خوشحال حصوں (لاہور، پنڈی، فیصل آباد، سیالکوٹ وغیرہ)سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں تو کسی دوسرے کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟
یہ بحث جب شروع ہو توکوشش کے باوجود ایک کالم میں سمیٹی نہیں جا سکتی۔ ان شااللہ اس کے بعض دیگر پہلوﺅں پر بات جاری رہے گی۔
اے وی پڑھو
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ
فیمینسٹ!!!۔۔۔۔۔|| ذلفی