ڈیرہ اسماعیل خان میں یہ پرانا رواج ہے کہ نئیے یا اجنبی گھروں میں جب شادی کا پیغام دیا جاتا ہے تو اکثر لڑکا اپنے چند عزیزوں اور مخصوص دوستوں کے ساتھ بر دکھاوا کے نام سے دلھن والوں کے ہاں بلایا جاتا ہے اور ایسی جگہ بٹھایا جاتا ہے جہاں سے عورتیں بھی اسے تاک جھانک کے دیکھ سکیں شاید ہونے والی دلھن بھی ایک نظر دیکھ لیتی ہو گی مگر کنفرم نہیں ۔
گھر والے مرد جمع ہو کے اس سے ملتے اور خاطر مدارت کرتے ہیں۔ اسی طرح لڑکے کی ماں بہن ایک مقررہ تاریخ پر دلھن کے گھر جاتی ہیں اور مٹھائی کھلانے یا کسی اور بہانے سے دلھن کا چہرہ دیکھتی ہیں کیونکہ دلھن عام طور پر ان لوگوں سے چھپائی جاتی ہے۔ میرا موضوع اپنے متعلق کچھ بیان کرنا تو نہیں لیکن میرے قارئین کی ایسی عادتیں بن گئی ہیں کہ وہ فون یا کمنٹس کر کے میری نگر نگر گھومتی زندگی کی آوارگی کے قصے ضرور سنتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ قارئین غلام علی کی گائی ہوئی غزل کا یہ مصرا لکھ کر جواب مانگیں ؎
یہ درد کی تنہایاں یہ دشت کا ویراں سفر ۔۔
ہم لوگ تو اُکتا گیے اپنی سنا آوارگی ..
میں ڈیرہ کا شھری ہونے کے ناطے اپنا تجربہ بھی بتاتا چلوں کہ میری شادی بھی اسی طرح غیروں میں ہوئی تھی مگر اب تو وہ اپنوں سے بھی زیادہ اپنے ہیں۔ خیر بر دکھاوے کے لیے مجھے بلایا گیا اور ایک صحن کے درمیان صوفےا پر اپنی ہونے والی بیوی کی دادی اماں اور کچھ مرد عزیزوں کے سامنے بٹھا دیا گیا اور چاۓ پیش کی گئی۔ زندگی میں بڑے مشکل وقت دیکھے مگر یاد پڑتا ہے یہ بہت مشکل ترین وقت تھا جس میں میری آئندہ زندگی کا اگلے تیس منٹ میں فیصلہ ہونے والا تھا۔
میری عمر اس وقت 23 سال تھی اور تقدیر کی ڈوری دادی اماں کے ہاتھ میں تھی۔ مجھے دیکھنے کے لیے ارد گرد کے پردہ دار کواڑوں اور چھتوں سے جنجال پورہ کا سارا محلہ موجود تھا جس میں میرے مخالفین کی ٹیم بھی تھی۔ خیر میرے جانے کے بعد بحث مباحثہ ہوا جس کی رپورٹ لیبارٹری کی طرح مجھے بعد میں پتہ چلی۔
رشتہ دینے کے مخالفین نے کہا گلزار کے کان بڑے ہیں اس لیے رشتہ نہ منظور کیا جاے مگر فیصلہ تو دادی جان نے کرنا تھا۔ اس نے یہ الزام یہ کہ کر ریجیکٹ کر دیا کہ ہم نے لڑکی کا رشتہ لڑکے سے کرنا ہے اس کے کانوں سے تو نہیں کرنا ! چنانچہ سپریم کورٹ سے فیصلہ میرے حق میں کر دیا گیا۔ بہر حال میرے مخالفین کی ٹیم تھی بڑی سیانی اور چالاک۔ الزام بھی ظالموں نے ایسا لگایا کہ بندہ عش عش کر اٹھتا ہے۔دراز گوش اصل میں گدھے کو کہتے ہیں اور اس دن کے بعد میں کئی دفعہ اپنے کانوں کو ہاتھ لگا کر دیکھ چکا ہوں اور آئینہ دیکھتے وقت تو اب بھی میری نظر پہلے کانوں پر جاتی ہے۔
البتہ یہ پتہ نہیں لگ سکا کہ میرے گدھے والے صفات کے الزامات کے باوجود میری بیوی مجھ سے بہت خوش کیوں ہے؟ ویسے انسانوں میں جانوروں کی ایک آدھ صفات تو ہوتی ہی ہیں۔ خیر اس بات کو گولی مارو میں تو آج یہ بتانے چلا ہوں کہ آجکل جو میرج بیورو کھل گیے ہیں اور لڑکیوں کے گھر لڑکے والے جاتے ہیں یہ بہت ہی قبیح فعل بن گیا ہے۔
بعض لڑکے والے گھر گھر لڑکی والوں کی طرف سے انواع و اقسام کے کھانے چاے کیک وغیرہ انجاے کرنے جاتے ہیں اور ان کا مقصد ہرگز لڑکی کا رشتہ لینا نہیں ہوتا۔ یار چاے ۔بسکٹ۔اور کھانا ٹھونسنے سے پہلے ہی بھونک دیا کرو کہ۔۔ آپ کی بیٹی ہمیں پسند نہیں۔۔ تاکہ کم از کم غریب باپ کی دھاڑی تو بچ جاے۔ اس کام میں میرج بیورو والے یا والیاں بھی بڑا منفی کردار ادا کر رہی ہیں۔
ہمارے محلے والے رشتہ کرانے والی خاتون کو ماسی تقدیرن کہتے ہیں۔ ماسی تقدیرن بھی گھر گھر رشتہ دیکھنے والوں کے ساتھ جا کر سب سے زیادہ کھاتی ہے ۔ ہانپ ہانپ کے باتیں کرتی ہے۔ ہم لوگ ہر روز بڑے فخر سے اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن کام سارے جاہلوں والے کرتے ہیں۔
یار ہمارے سدھرنے کا وقت اور منزل ابھی دور ہے کیا؟ ڈیرہ ایک بے لوث محبت کرنے والوں کا شھر تھا یہاں بھی احساس مروت کو کچلنے والے آلات پہنچ گیے۔ اب دل کے ارمان آنسو بن کے بہتے ہیں ؎ یہ دل یہ پاگل دل میرا کیوں بجھ گیا آوارگی ۔۔اس دشت میں اک شھر تھا وہ کیا ہوا آوارگی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ