ڈیرہ اسماعیل خان میں جب کوئی تقریب منعقد ہوتی ھے تو سب سے مشکل کام فنکشن کی صدارت اور مہمان خصوصی تلاش کرنا ھوتا ھے۔پہلے تو یہ دیکھا جاتا ھے کہ کہ کوئی موٹی آسامی ہاتھ لگ جاۓ جس سے کچھ وصول بھی ہو سکے۔
دوسرے نمبر پر یہ دیکھا جاتا ھے کہ کوئی ایسا چیف گیسٹ ہو جس کی وجہ سے تقریب میں عوام زیادہ شرکت کریں۔ عوامی نمائندہ یا کوئی وزیر مل جاۓ تو کافی مسئلے حل ہو جاتے ہیں۔
اور اگر ہر طرف ہاتھ پیر مارنے کے بعد کوئی ہاتھ نہ لگے تو ہمارے جیسے مسکین بندے کو ڈھونڈ لیا جاتا ھے جو خود تو چیف گیسٹ بننے کی تمام خوبیوں سے خالی ہو مگر چیف گیسٹ بننا اس کے لئے خود ایک فخر اور اعزاز کی بات ہو۔
کیونکہ یہ اعزاز اس کی تمام خوبیوں سے بلند ھوتا ھے اس لئیے وہ فوراً اس پر راضی ہو جاتا ھے۔ میرے ساتھ بھی پچھلے کئی مہینوں سے یہ معاملہ ہو رہا ھے ۔ گزشتہ مہینے ایک کتاب کی رونمائی پر سید ارشاد حسین شاہ نے سازش کی اور مجھے مہمان خصوصی بنا دیا۔
سارا ہال مجھے سامنے کرسی پر بیٹھے دیکھر کا حیران تھا کہ یہ نئی چیز کہاں سے ایکسپورٹ ہو کر آئی ھے؟۔
کچھ کھسر پھسر کر کے غالب کا شعر پڑھ رھے تھے ؎
کبھی ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں۔۔۔
۔وہ تو اللہ بھلا کرے ڈاکٹر طارق ہاشمی کا انہوں نے مجھے اپنے ذھن پر زور دے کر پہچان لیا اور میرے متعلق کچھ دل کو بڑا کر کے یا دل پر پتھر رکھ کر اچھی باتیں کہ ڈالیں ۔۔
اس طرح حاضرین مطمئن ہو گئے اور میری عزت رہ گئی۔۔۔ چلو یہ چیف گیسٹ اس قابل نہ سہی اللہ کا بندہ تو ھے۔لوگ معاف کر کے چلے گئے کوئی دو فیصد لوگوں نے ہاتھ بھی ملایا۔۔۔
باقیوں نے دور سے گُھورتی آنکھوں سے احتجاج کیا اور چلے گئے۔ لیکن قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند۔۔گزشتہ روز ایک اور کتاب کی تقریب پزیرائی تھی ۔اس دفعہ تو جان بوجھ کر میرے خلاف سازش تیار کی گئی اور سازش بھی تیار کی میرے دوست خوشحال ناظر نے۔
مجھے یہ بھی شک ھے کہ ان کی اہلیہ نین سکھ میمن بھی اس سازش میں مکمل شریک تھیں اور لگتا ایسے ھے میرا نام کارڈ پر چیف گیسٹ لکھ کر بعد میں مجھے اجازت کے طور پر اطلاع دے دی گئی ۔ خیر میرے اندر بھی بکری والی۔۔میں میں۔۔۔ کافی توانا ہو چکی ھے اور پہلے تو اوپر اوپر سے نہ کی پھر چیف گیسٹی قبول کر لی آخر اہمیت بھی تو ذرہ جتلانا تھی۔
ورنہ میرے اندر کا بِھگاڑ تو خوب خوش ہوا۔ خوشحال ناظر کو ذرہ مزید اہمیت دلانے کے لئے تقریب میں لیٹ آنے کا بھی کہ دیا ۔تاکہ اس کو پتہ چلے شاید میں وزیراعظم عمران خان سے فون پر قومی امور پر تبادلہ خیال کرنے اور ضروری مشورے دینے پر مصروف ہونگا۔
حالانک میں تقریب شروع ہونے سے بھی ایک گھنٹہ پہلے جاۓ وقوعہ پر پہنچا اور اپنی کرسی کو دیکھ آیا تاکہ کوئی اور غنیم میری تاخیر کا فاعدہ اٹھا کر قبضہ نہ کر لے۔ منیر فردوس کی جس کتاب پر تبصرہ کرنا تھا وہ بھی ساری رات جاگ کر پوائنٹ لکھ لئیے۔خیر خدا خدا کر کے میرے چیف گیسٹ ہونے کا اعلان ہوا حالانکہ آخری وقت تک دھڑکہ لگا رہا کوئی اور نہ آسامی پر کر لے ۔
میں ثنا اللہ شمیم ایڈوکیٹ اور منیر فردوس کے درمیان ایک کرسی پر براجمان ہو گیا ۔اب چیف گیسٹ کی کرسی چھننے کا خطرہ مکمل ٹل چکا تھا۔
مگر مشکل یہ ہوتی ھے پورے دو گھنٹے آپ بڑے وقار سے خاموش بیٹھنا پڑتا ھے جس کی اپن کو عادت نہیں۔ چیف گیسٹی کی خاطر دل پر پتھر رکھ کر یہ بھی برداشت کر لیا۔ درمیان میں پیاس بڑی لگی مگر یہ سوچ کر کہ آداب محفل کے خلاف ہو پانی بھی نہیں مانگا۔ تقریب شروع ہوئی نین سکھ میمن۔روبینہ قمر۔حبیب موہانہ۔ رحمت اللہ عامر ۔ارشاد حسین شاہ ۔غلام فاطمہ۔ خوشحال ناظر تمام مقررین نے کتاب پر وہی باتیں کیں جو میں محنت شاقہ سے لکھ کر لایا تھا ۔اب ایک مشکل آن پڑی کہ بولونگا کیا؟
مجھے تو اور کچھ آتا بھی نہیں آخر قیامت کا وقت آ ہی گیا رفتہ رفتہ اور مجھے سٹیج پر بولنے کے لئے بلایا گیا۔پہلے ہاتھ کانپ رھے تھے پھر ٹانگیں کانپنے لگیں۔ مجھے غصہ بہت تھا میں نے سچ اگل دیا۔ انج سہی تاں پھر انج سہی۔۔۔
میں نے کہا میرے بھائیو میرے خلاف کئی ملکوں کی سازش ہوئی ھے جو تقریر میں لکھ لایا تھا اس کا پہلا پیرا نین سکھ میمن صاحبہ نے پڑھ دیا میں نے وہ ڈیلیٹ کر دیا۔اگلے دو پیرے روبینہ قمر نے اچک لئے وہ بھی مٹا دئے۔ دانش اور فلاسفی کی باتیں حبیب موہانہ نے کہ ڈا لیں وہ بھی غائیب کر دیں ۔کچھ لفظوں کی کتاب میں غلطی میں نے پکڑی تھی وہ ارشاد شاہ نے بیان کر دی۔ دو شعر لکھے تھے وہ رحمت اللہ عامر کہ گئے۔
رہی سہی کسر غلام فاطمہ نے اپنی تقریر پڑھ کر پوری کر دی۔ اب میرے پاس کہنے کے لئے ککھ بھی نہیں بچا۔۔ایک چیز رہ گئیی ھے۔ سامنے عنایت عادل اور احسان بلوچ بیٹھے ہیں وہ ۔احساس والنٹیرز کی ایمرجنسی میٹنگ بلائیں اور اس حساس مسئلے کا فیصلہ کریں۔ سازش تو خوشحال ناظر کی تھی مگر پھر بھی میں نے چیف گیسٹ بننا کیوں قبول کیا؟
قصور میرا بھی ھے۔… میری درخواست یہ ھے اس مقدمے کے جج ابوالمعظم ترابی اور زبیر بلوچ کو ہرگز نہ بنایا جاۓ۔ کیونکہ یہ میرے مخالف ہیں۔اگر یہ دونوں جج بنے تو یہ فیصلہ کرینگے کہ ابھی نندن تو عمران خان نے بھارت واپس کیا میں بھارت کا ایس یو تباہ شدہ جٹ مرمت کرا کر واپس کروں۔۔۔۔
میری درخواست ھے جج حفیظ گیلانی مقرر کیا جاۓ کیونکہ جب بھی میں کوئی جرم کرتا ھوں حفیظ گیلانی فیصلہ کرتا ھے۔۔۔ثوبت میری طرف سے ھو گی۔۔۔یعنی جج خود جرمانہ ادا کرتا ھے۔باقی خوشحال ناظر کو باعزت بری کر دیا جاۓ کیونکہ ان کی دعوت کو خلوص سمجھ لیا جاۓ۔ اللہ سب کا بھلا کرے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر