اسلام آباد کے سرد موسم میں تھوڑی بہت گرمی عورت مارچ پر نظر آئی۔ چند مذہبی گروہوں نے پتھر وغیرہ مار کر ماحول کو ’متنازع‘ بنانے کی کوشش کی لیکن کوئی زیادہ رونق نہ لگی۔
ماحول کی گرماہٹ کے لیے اصل ضرورت جس شدت کی تھی وہ بہر حال دستیاب نہ تھی یا اُسے حد سے آگے لے جانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ لہو گرم رکھنے کو جتنا اہتمام چاہیے تھا وہ مذہبی گروہوں نے کر لیا۔
ہم اسے ’وارم آپ سیشن‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہی وہ بہترین راستہ ہو جس کے ذریعے آئندہ بازو آزمائے جائیں۔
یہ سب تو چلتا رہے گا۔۔۔ آخر ایک طاقت کو دوسری اور دوسری کو پہلی سے قابو میں لانے کا کھیل تو جاری ہے، توازن جہاں بگڑا وہیں دوسری طرف کا پلڑا اُٹھ جائے گا۔ ہم تم ہوں گے بادل ہو گا۔۔۔اور پھر رقص میں سارا جنگل ہو گا۔
پہلی بار تمام ادارے ایک ہی صفحے پر ہیں۔
کبھی اداروں کا الگ صفحہ پریشانی کا باعث تھا مگر اب اداروں کا ایک صفحے پر یکجا ہونا الجھنیں کیوں بڑھا رہا ہے؟ طرز حکمرانی پر اٹھتے سوالات اور اہلیت پر ہونے والی بحثیں ایک طرف،، نظام اپنی بساط کی آخری سانسوں پر کھڑا کیوں دکھائی دے رہا ہے؟
سول بالادستی کے حق میں اٹھنے والی آوازیں جمہوریت کی بقا کے لئے متفکر تو سیاسی آزادی کے لیے بلند لہجے ’شخصی آزادیوں‘ کے لیے پریشان ہیں۔
انتظامیہ، مقننہ، عدلیہ اور میڈیا۔۔۔ چاروں ستون کسی اور سہارے کھڑے ہیں۔
ادارہ جاتی کشمکش نظام کی مضبوطی کی علامت ہے مگر یہاں تو کشمکش وجود ہی نہیں رکھتی۔ میڈیا اپنی بقا کی ادھوری جنگ میں ادھورا اورعدلیہ اپنی ساکھ کے تحفظ میں سرگرداں۔۔۔ مقننہ خاموش اور انتظامیہ بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا۔!!!
ادارہ جاتی مکالمے اور بحث کا خیال اچھا ہے مگر یہ مکالمہ اُن سب کے درمیان کیسے ہو جن کے درمیان اختلاف کی گنجائش ہی موجود نہیں۔ ایک دوسرے پر نگران مقرر کیے گئے ادارے کس کی حدود کیسے طے کریں گے؟
اور کیا ادارہ جاتی مثلث کے آئین کے تحت واضح اختیارات مداخلت روک پائیں گے؟ سب سے اہم کہ یہ مکالمہ کون اور کہاں کرائے گا؟
موجودہ حالات میں سکڑتے نظام کا ذمہ دار کوئی بھی ہو اب اس کاحل تو نکالنا ہی ہوگا۔
آئین کی دستاویز ایک مکمل مکالمہ پیش کرتی ہے تاہم ریاست کی مثلث کے باہر اختیار کا ارتکاز اور اصل مقتدر کو جمہوریت کی حدود میں لانا ہی اصل مرحلہ ہے۔ کیا سیاسی نظام اس قدر اہلیت رکھتا ہے کہ آئین سے باہر لگی لکیروں کو دوبارہ کھینچ کر اندر لا سکے؟
سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیراعظم نواز شریف سچائی کمیشن کی بات کرتے رہے ہیں لیکن سچائی کمیشن کی تشکیل کم از کم مستقبل قریب میں ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔
خراب معیشت اور ادارہ جاتی بحران، غیر فعال جمہوریت اور ناکامی کی طرف بڑھتے سیاسی ادارے ایک ہی صورت نظام کو کامیاب کر سکتے ہیں اور وہ ہے تہتر کا آئین۔ سیاسی جماعتوں کو آئین پاکستان کے تحت ہی رولز آف بزنس طے کرنا ہوں گے۔ آزادی رائے اور شخصی آزادیوں کی ضمانت آئین میں موجود ہے۔
یہ پہلی بار ہے کہ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے میڈیا اور بار کونسلوں پر تکیہ کیے بیٹھی ہیں۔ کیا حزب اختلاف کی جماعتیں ساحل پر کھڑے ہو کر محض بچاؤ بچاؤ کا نعرہ بلند کرنے سے جمہوریت بچا سکتی ہیں؟
منقسم معاشرہ اور منقسم نظریات صرف بے ہنگم شور پیدا کرتے ہیں آواز نہیں۔
اگر نظام کو ناکامی سے بچانا ہے تو اسی آئین کے تحت راہ نکالنا ہو گی۔ ایسے میں مکالمے کا نعرہ لگانے والی حزب اختلاف کی جماعتیں خود مکالمے کا آغاز کیوں نہیں کر رہیں؟
اپوزیشن کب تک ’سانوں کی‘ کی پالیسی پر عمل درآمد کرتی رہے گی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر