پچھلے کئی دنوں سے عورتوں کے حقوق پر گرما گرم بحث جاری ہے۔ اس بحث میں عورتوں پر تشدد کے واقعات کو اجاگر کیا گیا اور ہم تو اس بات کے قائیل ہیں کہ خواتین تو کیا جانوروں اور معصوم پرندوں پر بھی تشدد ایک ظلم ہے ۔
اب نئی دہلی بھارت سے خبر ملی ہے کہ اس شھر میں خواتین کے تشدد کا شکار ہونے والے مردوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جو پولیس کو فون کر کے کہتے ہیں۔ جلد پہنچو اور مجھے میری بیوی سے بچاو ۔۔ ٹایمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق مردوں کو تشدد سے بچانے کے لیے پولیس نے ایمرجنسی فون نمبر 100 مقرر کر دیا ہے جس پر کال آتے ہی پولیس تیزی سے موقع واردات پر پہنچتی ہے اور مرد پر عورتوں کا تشدد دیکھ کر خود پولیس والے اور باقی تمام شوھر تھر تھر کانپنے لگتے ہیں۔
اور تو اور شوہر کو زدوکوب کرنے میں بیوی کے ساتھ اس کے بچے بھی شامل ہوتے ہیں جو مرد کو ادھ موا کر دیتے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے پہلے مردوں اور عورتوں پر تشدد کے واقعات سننے کے لیے ایک ہی ایمرجنسی فون نمبر تھا مگر مردوں پر تشدد کے واقعات میں اتنا زیادہ اضافہ ہوا کہ پولیس کو مردوں کے بچاو کے لیے علیحدہ فون نمبر متعارف کرانا پڑا۔
دہلی میں پٹائی کھانے والے مرد یا تو نکھٹو شدت پسند ہیں یا دیر سے گھر آتے ہیں یا شراب پیتے ہیں۔شراب پینے والے مردوں کی جب عورتیں دھنائی کرتی ہیں تو ان کو شروع میں اتنا پتہ نہیں چلتا اور جب ہوش آتا ہے تو درد سے وائی وائی کی آوازیں نکلتی ہیں اور بعض مرد تو روتے بھی ہیں۔
نئی دہلی میں پچھلے دنوں آر ایس ایس کے غنڈوں نے مسلمانوں پر تشدد اور خونریزی کا بازار گرم رکھا اور متعدد مسلمانوں کو شھید کرڈالا اور انکے گھر لوٹ لیے۔اب یہ ہندو اپنی بیویوں کے ہاتھوں مار کھا رہے ہیں۔ ادھر امریکہ کے شھر Detroit میں تو بیویوں کے ہاتھوں تشدد سے شکار ہونے والے مردوں نے جلوس تک نکالا اور بینرز پر لکھا تھا ۔۔مردوں پر تشدد بند کرو ۔۔ امریکہ میں عورتوں کے مردوں پر تشدد کے خلاف ایک شخص فارل Farrel نے 1993ء میں ایک کتاب بھی لکھی جس کا نام ہے
The myth of male power.
جس کا مطلب ہے مردوں کی طاقت محض ایک دھوکہ اور ڈھکوسلہ ہے۔ اصل طاقت تو عورت ہے۔
امریکہ کے مرد اکثر اپنے مطالبات میں مردوں کے حق میں قوانین اور فنڈز کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ یہ مرد اپنے جلوس کے آخر میں ایک سیشن تقاریر کا بھی رکھتے جس میں مظلوم مرد حضرات باری باری رو رو کر تقریر کرتا اور اپنے اوپر کیے گیے ظلم کی داستان سناتا جاتا ہے اور حاضرین اپنی اوپر تشدد کے واقعات یاد کر کر کے بُک بکُ ہنجو یا آنسو روتے ہیں۔ چلو ان مظلوم مردوں کا catharsis تو ہو ہی جاتا ہے جبکہ امریکی حکومت عام طور پر ان کے مطالبات پر کان نہیں دھرتی۔
اب یہ مرد اپنے مطالبات کو ہیومین رائیٹس تنظیموں کے ذریعے آگے بڑھا رہے ہیں۔ پچھلے دنوں شاید آسٹریلیا کے کسی مظلوم مرد کی کتاب نظر سے گزری جس کا نام تھا
Men under seige
یعنی (عورتوں) کے محاصرے میں گھرے ہوے مرد ۔۔ بریکٹ میں عورتوں کا لفظ اس لیے لکھا کہ کتاب میں کچھ ایسے ہی واقعات کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ اب اگر پاکستان کی حالت دیکھتے ہیں تو یہاں بھی۔۔ کچھ کچھ ہوتا ہے۔۔
فلم کی طرح معاملات سامنے آتے رہتے ہیں۔میں نے رن مریدوں پر سہمے سہمے ڈرے ڈرے الفاظ میں کالم لکھا تو بڑے نابغہ رن مرید یکدم میرے سامنے ایسے آے کہ میری ٹانگیں کانپنے لگیں۔ سڈنی آسٹریلیا سے ہمارے پیارے دوست اور کئی کتابوں کے مصنف غلام عباس سیال نے خود رن مریدی کا ایسے اعتراف کیا جیسے پولیس چوری کا اعتراف کراتی ہے۔ وجاہت علی عمرانی کے اعتراف نے تو ہمیں بھی لپیٹ میں لے لیا اور ہماری رعب داب والی شخصیت کو ایک لائین لکھ کر توڑ پھوڑ ڈالا ۔ان کا قول ہے۔
ہر شریف آدمی بیوی سے ڈرتا ہے۔ اس قول کی تردید کر کے بندہ بشر شریفوں کی صف سے ہی نکل جاتا ہے حالانکہ پاکستان پر 35 سال شریفوں کی حکومت رہی لیکن آجکل کی مہنگائی سے پتہ چلتا ہے کہ اب شریفوں کی حکومت نہیں رہی ۔ ارشاد حسین شاہ بخاری نے مرشد حفیظ گیلانی اور احسان بلوچ کے ساتھ ملکر رن مرید یونین بنا ڈالی اور خود چیرمین بن گیے اور مجھے صدارت کے لیے نامزد کر دیا۔ میں نے شاہ جی سے کہا کہ میں رن مرید تھوڑا ہوں کہ صدر بنوں ہاں البتہ اپنی بیوی سے اجازت لونگا اگر اجازت ملی تو رن مریدوں کا صدر بن جاونگا۔ ارشاد شاہ صاحب جب مجھے سپریم کورٹ کے اعلی پاے کے وکیل ثنا اللہ شمیم کے ساتھ دیکھتے ہیں جو مصنف ۔شاعر ۔ادیب اور کئی تنظیموں کے صوبائی صدر ہیں تو ان کو مجھ پر بہت ترس آتا ہے کہ اس اللہ راسی کے پاس بھی کوئی عھدہ ہونا چاھیے اس لیے رن مریدوں کے صدر کی آفر کر ڈالی۔
کبھی کبھی میں بھی استاد امام الدین کی طرح سوچتا ہوں جیسے ان کا شعر ہے؎ جنت کی ٹکٹیں تو بُک ہو چکی ہیں۔تو جلدی سے دوزخ میں وَڑ امام دینا ۔۔ ۔ اس کے علاوہ رن مریدوں کی ٹیم میں ابوالمعظم ترابی صاحب ۔خوشحال ناظر صاحب۔ یونائیٹڈ بک سنٹر کے لطیف صاحب۔ ممتاز شاعر رحمت اللہ عامر صاحب کا نام اس لیے نہیں لیتا کہ وہ شریف لوگ ہیں اگر اخبار میں نام آ گیا تو بہت بیستی خراب ہو گی۔
ایک دو اور دوستوں پر بھی شک ہے پک نہیں لیکن ایک نہ ایک دن کنفرم ہو ہی جاے گا آہستہ آہستہ۔ ڈیرہ میں مردوں پر عورتوں کی کُٹ کے واقعات تو بہت دیکھے مگر بیان نہیں کر سکتا۔ ایک بہت پرانا واقعہ یاد آ گیا۔ ڈیرہ میں دو گہرے دوست تھے۔ ایک دوست جب اچانک دوسرے کے گھر ملنے گیا تو کچھ چیخوں کی آواز آ رہی تھی۔ اس نے دروازے کے سوراخ سے دیکھا تو اس کے دوست کو اس کی بیوی پولیس کی وردی پہنے بید سے مار رہی ہے۔ اس شخص نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا اور دوست کا نام لیا تو فورا” دوست دروازے کی طرف دوڑا اور اس کی جان چھوٹی۔بعد میں اس مظلوم نے بتایا کہ ہر غلطی پر اس کی بیوی اسے کنوڑے پکڑوا کر اور وردی پہن کر مارتی ہے حالانکہ اس وقت پولیس میں عورتیں بھرتی نہیں ہوتی تھیں مگر وہ کہیں سے پولیس کی وردی لےکر شوھر پر تھانیداری کرتی تھی۔
رن مرید یونین کے تمام حضرات اہل قلم ہیں اور اپنے اوپر ظلم کے واقعات خود سپرد قلم کریں۔ رحمت اللہ عامر اپنی داستان شاعری میں لکھ کر بیان کریں۔ یہ سب لوگ اقوام متحدہ سے درخواست کر کے 9 مارچ کو مردوں کے حقوق کا دن مقرر کروائیں۔ میرا رن مرید یونین سے فی الحال کوئی تعلق نہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر