نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

امریکہ نے طالبان سے امن معاہدے کے تحت افغانستان سے فوج کا انخلا شروع کردیا

افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کی رہائی کے طریقہ کار پر بھی اتفاق ہوگیا ہے

امریکہ نے طالبان سے امن معاہدے کے تحت افغانستان سے فوج کا انخلا شروع کردیا۔ معاہدے کے تحت ایک سو پینتس دن کے اندر افغانستان میں اپنی فوج کو بارہ ہزار سے کم کرکے آٹھ ہزار چھ سو تک لانے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کی رہائی کے طریقہ کار پر بھی اتفاق ہوگیا ہے، افغان صدر اشرف غنی کے احکامات پر افغان جیلوں سے کم سے کم ایک ہزار طالبان قیدی رہا کیے جائیں گے،

امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے قیدیوں کے تبادلے کے اعلان کو خوش آئند قرار دیا ہے۔

امریکہ نے طالبان سے امن معاہدے کے تحت افغانستان سے فوج کا انخلا شروع کر دیا۔

امریکہ نے معاہدے کے تحت، 135 دن کے اندر افغانستان میں اپنی فوج کو 12 ہزار سے کم کرکے 8600 تک لانے پر اتفاق کیا تھا۔

امن معاہدے کے تحت افغان عسکریت پسندوں نے حملوں سے باز رہنے کے ساتھ ساتھ القاعدہ یا کسی اور شدت پسند گروہ

کو اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں آپریشن کرنے کی اجازت نہ دینے پر اتفاق کیا تھا

افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کی رہائی کے طریقہ کار پر بھی اتفاق ہوگیا، افغان صدر اشرف غنی نے تصدیق کر دی،

افغان صدر اشرف غنی کے احکامات کے بعد بعد افغان جیلوں سے کم سے کم ایک ہزار طالبان قیدی

رہا کیے جائیں گے،، قیدیوں کی رہائی کے بعد بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہوگا۔

امریکہ افغانستان میں انتخابات کے بعد اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ میں بھی صلح کے لیے پرامید ہے۔

امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان

زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن دونوں رہنماؤں کی ترجیح ہے۔ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سیاسی

استحکام کے لیے بات چیت پرتیار ہیں،زلمےخلیل زاد نے ٹویٹ میں کہا کہ امریکا افغانستان میں قابل قبول حکومت کے لیے

کوششیں کر رہا ہے ،افغان صدراشرف غنی کی جانب سے قیدیوں کے تبادلے کا اعلان خوش آئند ہے،

گزشتہ روز افغانستان میں اشروف غنی اور عبدللہ عبدللہ نے دو الگ الگ تقاریب میں افغان صدر کا حلف اٹھایا تھا

افغان الیکشن کمیشن نے افغانستان کے عام انتخابات میں اشرف غنی کو کامیاب قرار دیا تھا۔

عبداللہ عبداللہ نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

About The Author