نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بلاول بھٹو پاکستان کے مظلوم طبقات کی واحد آواز ہیں ۔۔۔شہزادعرفان

ہیں -آج تک لاہوریا پنجاب سے یا کسی مسلم لیگی پنجابی لیڈرشپ نے سرائیکی زبان قومی تحریک یا سرائیکی صوبہ کو تسلیم نہیں کیا ہے

پاکستان میں ہزارہ قوم پر ظلم ہو پشتونوں پر یا بلوچستان کے بلوچ بدحال ریاستی جبر کا شکار عوام یا پھر سرائیکی قوم کا خود کو پانچویں اکائی تسلیم کروانے اور سرائیکی صوبہ کا مطالبہ ہو یا پھر خواتین کے حقوق کی بحالی کی تحریک یہ نوجوان اپنی ماں کی طرح زخموں کا مداوا لئے سب سے پہلے مظلوم تک پہنچتا ہے ۔

جانتا ہے کہ سانپ کے بل میں ہاتھ ڈال رہا ہے بہادری سے کھل کر بات کرنے کی جرائت اپنی بہادر ماں سے ورثے میں لے آیا ہے دوسری طرف ن کی لیگ ہو یا ق کی ہم تو ہمیشہ سے ہی یہ کہتے آئے ہیں کہ ان تلوں سے تیل نہیں نکلتا یہ نون لیگی برانڈ کی فصل فوجی آمروں کے کھیت میں بوئی گئی جسکی آبیاری سندھیوں کے خلاف مذھبی جماعتوں کے دینی تالابوں سے کی گئی ہے یہ نظریاتی روشن خیال نہ کبھی تھے نہ کبھی ہوسکتے ہیں یہی وہ پنجابی اشرافیہ ہے جو فوجی آمریت کو پنجابی ہو نے کی بنیاد پر ہمیشہ خام مال اور ایندھن مہیا کرتی ہے یہ وہی مسلم لیگ ہے جو کبھی انتہا پسند ملاؤں اور دینی جماعتوں کے ایجنڈوں کو پرموٹ کرتے رہے ہیں ان کو ساتھ ملا کر جمہوریت پرستوں کو شکست دینے سازش کرنے فوجی آمروں کے جوتے  صاف کر تے آئے ہیں –

پاکستان کی دیگر اقوام کو اپنا محکوم اور تابع بنانے بلخصوص نام نہادینجاب میں سرائیکیوں پر شب خون مارنے والے یہی لیگی ہیں ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ بحثیت سیاسی جماعت خواتین کی آزادی یا ان کے حقوق کی حمایت کرے گی ایسا ممکن نہیں – خواتین کے حقوق کی بات کرنے والے اپنے اندر سائنسی طرز فکر اور جدید فلسفہ انسانیت کا ادراک اور تصور رکھتے ہیں جمہوری اقدار اور رویہ رکھتے ہیں نظریہ رکھتے ہیں مسلم لیگی جماعتیں اور دینی جماتیں فوجی آمریت کی کوکھ سے جنم شده ہیں ڈکٹیٹرز کے گماشتے ہیں آج انھوں نے عورت مارچ کے بنیادی انسانی حقوق کی تحریک کو رد کرکے خود کو پی ٹی آئی کے برابر لا کھڑا کیا ہے اور باوردی ملاؤں کو یہ پیغام بھجوایا ہے کہ ہمیں ایک موقع اور دیں ہم پرانی تخواه پر کام کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں –

حیرانگی ان پنجابی لبرلز پر ہوتی ہے جو مسلم لیگ کو ایک انقلابی جماعت سمجھ کر دن رات فلسفہ سناتے تھے سمجھتے تھے کہ مسلم لیگ نون چی گویرا کی جماعت ہے حقیقت یہ ہے کہ پنجابی لبرلزکے اندر بھی وہی پنجابی موجود ہے جو پنجابی قومیت کی بالادستی کا حامی ہے بالکل جیسے فوجی آمر یا پنجابی ا سٹیبلشمنٹ کے اندر ایک شاؤنسٹ پنجابی سوچ موجود ہے جو دوسری قوموں پر غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اگر یہ بات غلط ہوتی تو آج وہ پنجابی لبرلزسرائی کی قومی تحریک اور سیاسی مطالبہ یعنی سرائیکی صوبہ کی حمایت ضرور کرتے مگر دنیا بھر کا ترقی پسند ادب اور سیاسی تحریکیں پڑھنے جانتے کے باوجود بھی سوئی وہیں اڑی ہے کہ سرائیکی زبان پنجابی کا حصہ ہے پنجاب کی تقسیم سے پنجابی اور طاقتور پنجاب کمزور ہو جائے گا –

وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ثقافتی اور ریاستی شناخت کا حق بنیادی انسانی حقوق کا پہلاحق ہے اگر سرائیکی زبان اور ثقافت رکھنے والے خود کو پنجابی نہیں کہلواتے پنجابی زبان بھی نہیں بولتے پنجابی ثقافت بھی نہیں رکھتے تو آپ انہیں کیسے جبراً زبردستی پنجابی بنا سکتے ہیں اور انکے سیاسی اکثریتی مطالبہ احتجاج ریلیوں اعلانات کی نفی کرکے غیر جمہوری اور بنیاد پرستی کا ثبوت دیتے ہیں –

آج تک لاہوریا پنجاب سے یا کسی مسلم لیگی پنجابی لیڈرشپ نے سرائیکی زبان قومی تحریک یا سرائیکی صوبہ کو تسلیم نہیں کیا ہے کیوں کہ اندر پنجابی آمریت کا مزه اور مزاج موجود ہے جس پنجابی آمریت کو پہلے بنگالیوں نے موردالزام ٹہرایا اور اب سرائکی بلوچ سندھی اور پشتون پنجابیوں کو قومی مجرم قرار د سے رہے ہیں جنکی وجہ سے وفاق پاکستان غربت پیماندگی اور قومی وصوبائی عدم اتفاق بلکہ خانہ جنگی کے ماحول میں داخل ہوگیا ہے آدھا ملک پنجاب اور پنجابی کو قصوروار قرار دے کر ٹوٹ چکا ہے مگر پنجابی مائنڈسٹ خود کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ہے – 

About The Author