امیر خسرو کی پیدائش ہند میں ہوئی، انہوں نے دلّی میں تغلق، غلاماں اور خلجی خاندان کے آٹھ بادشاہوں کا عروج و زوال دیکھا۔امیر خسرو نے شاعری کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی،وہ شاعری کے علاوہ صوفیانہ موسیقی(قوالی) میں بھی یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ چھاپ تلک سب چھین لی رے مو سے نینا ملائے کے۔ کاہے کو بیاہی بدیس ۔ گوری سوئے سیج پر، مکھ پر ڈارے۔اماں میرے بھیا کو بھیجو ری کہ ساون آیا۔ سکل بن پھول رہی سرسوںاور ایسے کتنے ہی گیت اور قوالیاں اور کہہ مکرنیاں اس طوطئی شکر مقال سے منسوب ہیں۔ شام کے وقت گائی جانے والی ” ایمن کلیان“ نامی راگنی انہی کی ایجاد ہے۔ کہا جاتاہے کہ ستار جیسا ساز بھی ان کی ایجاد ہے بلکہ دوتارے پر تیسرا تاراُنہی نے چڑھایا تھا۔اس وقت کی دلّی کے بارے میں امیر خسرو نے کیا خوب کہا تھا ۔اگر فردوس بر روئے زمین است۔ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است۔وہ ہندی، فارسی ، اردوکو ملا کر ہندوی زبان کے پہلے صوفی شاعر تھے اور اُنہوںنے حضرت نظام الدین اولیاءکو اپنا مرشد مان رکھا تھا ،جن سے وہ بے پناہ محبت کرتے تھے۔ جس وقت حضرت کا انتقال ہوا، امیر خسرو دلی سے باہر تھے جونہی مرشد کی وفات کی خبر سنی ننگے پا ںروتے بلکتے دلی آئے ، دھاڑیں مار کر مرشد کی قبر پر گرے اور وہیں راہِ عدم کو سدھار گئے۔جب میں نے مزار کے اندر کھڑے گائیڈ سے ہندی میں پوچھا کہ اردگرد ہر طرف لگے زعفرانی رنگت کے دھاگوں کی کیا حقیقت ہے؟گائیڈ نے میرے سوال کو غور سے سنا اور پھر انگریزی میں گورے سیاحوں کو بتایا کہ درگاہوں پر پیلے دھاگے کیوں باندھے جاتے ہیں؟۔ایک روز امیر خسرو کے سامنے کچھ ہندوعورتیں پیلا لباس پہنے، زرد پھولوں کی چنگیریں اٹھائے ، بھجن گاتی خواجہ صاحب کی چلہ گاہ کے سامنے سے گزریں ۔ امیرخسرو نے اُنہیں روک کر پوچھا کہ وہ پیلا لباس پہنے کہاں جا رہی ہیں؟ عورتیں بولیں کہ وہ مندر میں اپنے بھگوان کو پھولوں کا نذرانہ پیش کرنے جا رہی ہیں کیونکہ آج بسنت کا تہوار ہے اور یہ ہمارے لئے عید کے تہوار کی مانند ہے ۔امیر خسرو نے عورتوں کو بتایا کہ سمجھو ہماری بھی آج عید ہے کیونکہ ہمارا مذہب اسلام ہمیشہ اتحاد و اتفاق ، بھائی چارے اور مل جل کر رہنے کا درس دیتا ہے۔ یہ کہتے ہی انہوں نے پیلی چادر اوڑھی اورپھولوں سمیت ”سکل بن پھول رہی سرسوں” گاتے ہوئے اپنے مرشد حضرت نظام الدین کے پاس جا پہنچے اور سب کچھ ان کے گوش گزار کیا۔محبوب ِالٰہی کو اپنے مرید ِخاص کی انوکھی ادا پسند آئی ، وہ مسکرا دئیے اورکہا جاتا ہے کہ اسی روز سے بسنتی رنگ ہندو مسلم اتحاد کی علامت بنا چلا آرہا ہے،شاید اسی لئے یہاں پر زیادہ دھاگے اور کپڑے زعفرانی نظر آئیں گے۔ واقعی اس میں کوئی شک نہیں کہ ہند کے اولیاءنے اسلام کے آفاقی پیغام کو کسی قسم کی تبلیغ ،تقریر، وعظ ونصیحت کی شکل میں پہنچانے کی بجائے ہندوستانی سماج میں رہتے ہوئے وہاں مندروں میں گائے جانے والے بھجنوں کوحمد و نعت میں بدل کر، بسنتی چولے پہن کر، دیوالی کے دیپ جلا کر اور ہولی کے موقع پر پھینکے گئے رنگوں میں اسلامی رنگ ملا کر یہاں کے غیر مسلموں کو اپنی جانب راغب کیا تھا ۔انہوں نے نہ کسی غیر مسلم پر قتل کا کوئی فتویٰ لگایا۔نہ کسی پر جبر و تشدد کیا،نہ کسی سے نفرت کی ،نہ کسی کی عبادت گاہ کو نقصان پہنچایا اور نہ ہی کسی کی گردن پر تلوار رکھ کر اُسے جبراً دھرم بدلنے پر مجبور کیا بلکہ اسلام کو لبرل اور پروگریسو شکل میں پیش کرکے اس خطے کے کروڑہا دلوں کو جیتا اور دنیا بھر کے انسانوں تک امن و آشتی ،صلہ رحمی اوربرداشت کا پیغام پہنچایا ۔
امیر خسرو کی درگاہ سے نکل کر ہم محبوب الہٰی کے دربار کی طرف چل پڑے۔ہری قمیص پہنے ایک باریش بزرگ کے سامنے پیتل کا بڑا سا چراغ روشن تھا، جس کے لو سے ہر کوئی اپنے اپنے حصے کی اگربتیاں سلگا رہا تھا ۔کچھ ذائرین ہاتھوں میں ریشمی چادریں اورسروں پر پھولوں کی پتیوں سے بھری چنگیریںاٹھائے محبوب کے در پر حاضری دینے جا رہے تھے۔ایک شاندار سنگ مرمر سے بنی گنبد نما عمارت کے اندر حضرت نظام الدین اولیا کا مزار واقع ہے جہاں پر عورتوں کا داخلہ ممنوع ہے شاید اسی لئے وہ مزار کے باہر کھڑی ہو کر جالیوں سے اندر دیکھ رہی ہوتی ہیں ۔ کچھ جالی پر منتوں بھرے دھاگے باندھ رہی ہوتی ہیں اور کچھ چپ چاپ مراقبے کی حالت میں فرش پر بیٹھی رہتی ہیں۔ درگاہ کے احاطے میںکئی مجاورگھوم پھر رہے تھے جو نذر نیاز، منتوں اور فریادوں کو معقول معاوضے پر لکھ کر محبوب ا لٰہی کے حضور پیش کرنے کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے ۔عین داخلی دروازے پر ایک ہٹا کٹا شخص صندوقچی سامنے رکھے بیٹھا تھا، میں اُسے نظر انداز کرکے آگے نکل گیا مگر وِجے کمار نے بیس روپے صندوقچی کے اندر ڈالے اور یوں ہم درگاہ میں داخل ہوگئے۔ اندر عقیدت و معرفت عروج پر تھی ۔کئی لوگ مزار کی مخملی چادر کے اندر سر ڈالے سجدہ ریز مصروفِ تعظیم و طلبِ حاجات۔ کچھ پھول پتیوں کی پلیٹیں تھامے، کچھ فاتحہ خوانی میں اور کچھ آنکھیں بند کئے ایک کونے میںخاموش کھڑے مراقبے میں گم تھے ۔نوجوانوں کی ایک ٹولی نے درگاہ پر سبز چادر چڑھائی، اوپرگلابوں کی پتیاںنچھاور کیں ایک طرف پڑی چندے کی سبز پیٹی کے اندر کچھ نذرانے ڈالے اور آگے کو نکل گئے ۔ اِسے ہماری بدقسمتی کہیے کہ اللہ کی اِن برگزیدہ ہستیوں کے ٹھکانوں کو مجاوروں نے تجارتی منڈی بنادیا ہے، جہاں وہ پھول ، چادریں بیچتے ہیں اور لنگر کیلئے رقم کا تقاضا کرتے ہیں۔ جہاںصوفی سنت بزرگان دین کی عبادات و کرامات کا کھلے عام سودا کیا جا رہا ہے اور کوئی ان لوگوں سے پوچھتا تک نہیں ۔کاش ایسا ہو سکتا کہ پاک و ہند کی دونوں حکومتیں اولیاءاللہ کے مزاروں پر قابض مافیا کو ہٹا کر سارے روحانی مراکز کو سرکاری تحویل میں لے کرمسلم سماج کو مذہب اور عقیدے کے نام پر تجارت پیشہ مجاوروں سے خلاصی دلواتیں ۔دونوں مزاروں کے درمیان سیدھی جانب حجرہ ¿ فِردوسِ بریں ہے جو کسی سجادہ نشین کی خلوت گاہ معلوم ہوتی ہے۔ حجرہ ¿ فِردوسِ بریں کی تختی کے نیچے کُل عملیات ِ سحر جادو ٹونے وغیرہ کے علاج کی تختی نظر آتی ہے، جبکہ قریب ہی شاہجہان کی بیٹی شہزادی جہاں آراءکا مقبرہ واقع ہے جوحضرت نظام الدین کی عقیدت مند تھیں اورزندگی میں وصیت لکھ چھوڑی تھی کہ اُس کا سارا ترکہ محبوبِ ا لٰہی کی درگاہ کی نذر کر دیا جائے اور اُسے دربار کے احاطے کے اندر ہی دفن کیا جائے۔حضرت امیر خسرو اور محبوب الٰہی کی درگاہ پر فاتحہ پڑھنے کے بعدہم باﺅلی( سیڑھیوں والا کنواں ) دیکھنے کیلئے چل پڑے۔
ہندوستان میں با لی کی تاریخ کافی دلچسپ ہے ، اس قسم کے کنوﺅں کو مسلمان کاریگروں نے سب سے پہلے برصغیرمیں متعارف کروایا تھا،یعنی ایک ایسا کنواں جس کے ساتھ پختہ اینٹوں کا ایک چوڑا زینہ بنا ہوتا ہے جو عمارت کی پوری چوڑائی میں سطح زمین سے پانی کی نچلی سطح تک چلا جاتا ہے اور ایسے کنوئیں میں ڈول ڈالنے کی بجائے زینے کے ذریعے نیچے اُتر کر وضو، غسل اور پینے کیلئے میٹھا پانی حاصل کیا جاتا ہے۔حضرت نظام الدین نے عوام الناس کو پانی کی فراہمی کیلئے دِلی میں اپنی چلہ گاہ کے قریب ایک باﺅ لی تعمیر کروانے کا حکم دیا تھا آپ کے حکم پر ایک کنواں کھودا گیا اور سطح زمین سے پانی نکلتے ہی کنوئیں کی دیواروں کو پختہ کرنے اور زینے کی تعمیر کا کام ہزاروں مزدوروں اور کاریگروں کی نگرانی میں دن رات جاری رہتا ۔ رات کے وقت بڑے بڑے چراغوں کی روشنی میں کام چلتا رہتا ۔ ایک دن بادشاہ غیاث الدین تغلق نے شہر میں تیل کے تاجروں کو حکم دیاکہ خانقاہ میں تیل کی فراہمی فی الفور بند کر دی جائے۔بازار سے تیل ملنا بند ہوا تو رات کو روشنی کا انتظام نہ ہونے کے سبب کام روکنا پڑا۔ آپ کے علم میں یہ بات لائی گئی تو آپ نے اپنے مرید نصیر الدین محمود کو باﺅلی کا پانی کونڈوں میں بھر کر ان میں بتیاں ڈال کر جلانے کا حکم دیا، جو اللہ کے حکم سے روشن ہو گئیں اور تعمیراتی کام دوبارہ سے چل پڑا ۔ اسی کرامت کے سبب نصیر الدین بعد میں ”چراغِ دہلوی“ کے لقب سے مشہور ہوگئے ۔ حضرت نظام الدین اولیاءکے دور کی تعمیر کردہ باﺅلی کے کائی آلودہ ، کیچڑ نما پانی کی سطح پر خشک پتے اور کوڑا کرکٹ تیرتا دکھائی دیتا ہے، جس کے گرد لوہے کی گرل لگائی گئی ہے اور اس پرمحکمہ آثار قدیمہ وزارتِ ہند کی طرف سے ایک اطلاعی بورڈ آویزاں ہے، جس پر لکھا ہے کہ کوئی اس یادگار میں اپنائی جا رہی روایتوں، رسموں اور رواجوں کی خلاف ورزی نہ کرے۔باﺅلی کے اندر نہانا، کودنا ،کپڑے دھونا اوراِس کے کسی حصے کو نقصان پہنچانا سخت منع ہے۔خلاف ورزی کی صورت میں تین ماہ قید اور پانچ ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا۔باﺅلی کو دیکھنے کے بعدہماری اگلی منزل غالب اکیڈمی تھی ۔
یہ بھی پڑھیے:دلی دل والوں کی (قسط 13) ۔۔۔عباس سیال
جاری ہے
مصنف کا تعارف
نام: غلام عباس سیال
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر