ہندوستانی سیکیورٹی فورسزکے ہاتھوں خواتین کی عصمت دری کے بڑے واقعات
سرینگر،
آٹھ مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خواتین کے ساتھ ہونے والے نارواسلوک کو ختم کرنا ہے۔
متنا زعہ علاقوں میں خواتین پر سب سے زیادہ بوجھ پڑتا ہے اور مقبوضہ علاقوں میں وہ مظالم کا شکار بنتی ہیں یہی صورتِ حال مقبوضہ کشمیر میں بھی ہے-
ذرائع کے مطابق کشمیر انسانی ظلم وجبر کی بدترین مثال ہے اوریہاں اب تک دس ہزار سے زیادہ خواتین جنسی جرائم کا شکار ہوئی ہیں۔
ذرائع نے وادی کشمیر میں ہندوستانی سیکیورٹی فورسزکے ہاتھوں خواتین کی عصمت دری کے چند اہم اور بڑے واقعات کا جائزہ لیا ہے۔
بارہ مولہ کے سوپور علاقے کے قصبے جمیر قدیم میں26 جون 1990 کو بی ایس ایف نے پڑوسی کی تلاشی کے دوران جمیر قدیم کی ایک چوبیس سالہ خاتون کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔ سوپور پولیس نے اسی سال جولائی میں بی ایس ایف کے خلاف مقدمہ درج کیا ۔
سرینگر
میں7مارچ 1990کو چھان پورہ میں ، سی آر پی ایف نے سری نگر کے چھن پورہ علاقے میں متعدد گھروں پر چھاپہ مارا۔ چھاپوں کے دوران متعدد خواتین کے ساتھ عصمت دری کی گئی ۔ زیادتی کا نشانہ بننے والی نورا (24) کو سی آر پی ایف کے 20 افراد نے زبردستی کچن سے باہر نکالا
اور اس کی بہن زونہ کے ساتھ زیادتی کی۔ زیادتی کا نشانہ بنانے والے افراد نے دو نابالغ لڑکیوں کے ساتھ بھی بدتمیزی کی ۔
1991میں سرینگر میں بربر شاہ کے علاقے میں سیکیورٹی فورسز نے ایک ذہنی مریض بوڑھی عورت کے ساتھ زیادتی کی۔
کنن پوش پورہ میں 23 فروری 1991 کو ، بھارتی فوج کے ایک یونٹ نے وادی کے ضلع کپواڑہ کے کنن پوش پورہ کے جڑواں گاوں میں تلاشی اور تفتیشی کارروائی شروع کی۔ فوجیوں نے خواتین کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی جن کی تعداد 23 سے 100 تک تھی ۔
پازی پورہ-بیلی پورہ ،جو کنن پوش پورہ سے صرف چند کلومیٹر دور ہے،میں 20 اگست 1991 کو ، فوجیوں نے بڑے پیمانے پر خواتین کی عصمت دری کی، اس معاملے میں عصمت دری کا نشانہ بننے والوں کی تعداد آٹھ سے پندرہ کے درمیان تھی۔
ضلع گاندر بل کے علاقے چک سید پورہ میں 10 اکتوبر 1992 کو ، 22 ویں گرینیڈیئرز کی ایک فوجی یونٹ چک سیدپورہ گاوں میں داخل ہوئی۔ فوج کے متعدد فوجیوں نے 9خواتین کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی جن میں ایک 11 سالہ بچی اور ایک 60 سالہ خاتون شامل ہیں۔
سوپورکے علاقے ہاران میں20 جولائی 1992 کو آرمی سرچ آپریشن کے دوران متعدد خواتین کی عصمت دری کی گئی۔
ضلع کپواڑہ کی تحصیل ہندواڑہ میں یکم اکتوبر 1992 کو ، گور ہکھر ، باکھیہرکے علاقے میں دس افراد کو ہلاک کرنے کے بعد ، بی ایس ایف فورسز نے گاوں میں گھس کر خواتین کی عصمت دری کی۔ ایک انٹرویو میں ایک خاتون نے عصمت دری کا شکار ہونے والی اپنی بیٹی کی شناخت چھپانے کی کوشش کی ۔
ضلع اننت ناگ کی تحصیل بیج بہاڑہ میں 1993کوبیج بہاڑہ کے قتل عام سے قبل اجتماعی عصمت دری کا ایک بہت بڑا واقعہ پیش آیا۔ بعدازاں ، اگست میں ، فوجیوں نے بیج بہاڑہ قصبے کے نواح ،گجنگی پورہ میں، ایک خاتون کے ساتھ زیادتی کی۔
کپواڑہ کے گاوں ہائی ہاما میں17 جون 1994 کو راشٹریہ رائفلز کے دستوں نے سات خواتین کے ساتھ عصمت دری کی ، جس میں دو افسران میجر رمیش اور راج کمار بھی شامل تھے۔
ضلع بڈگام کے شیخ پورہ علاقے میں (1994) ایک 60 سالہ خاتون کے کے اہل خانہ کو بند کرکے اس کے ساتھ زیادتی کی گئی۔
ضلع گاندر بل کے علاقے کنگن میں (1994) کوتھیانو بڈاپاتری میں بھارتی سیکیورٹی فورسز نے ایک خاتون اور اس کی 12 سالہ بیٹی کے ساتھ زیادتی کی۔
ضلع پلوامہ کے وڈون گاوں میں 30 دسمبر 1995 کو ، راشٹریہ رائفلز کے سپاہی ایک گھر میں داخل ہوئے اور تین خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی ۔
پلوامہ کے علاقے ناربل پانزلگام میں نومبر 1997 کوایک لڑکی کے ساتھ زیادتی کی گئی۔
سری نگر میں 13 اپریل 1997 کو بھارتی فوجیوں نے سرینگر کے قریب بارہ نوجوان کشمیری لڑکیوں کی اجتماعی عصمت دری کی۔
سرینگر کے علاقے واوسا میں 22 اپریل 1997 کو ، ہندوستانی مسلح افواج کے متعدد اہلکار گاوں میں ایک 32 سالہ خاتون کے گھر میں داخل ہوئے۔ انہوں نے اس کی 12 سالہ بیٹی اور14 ، 16 اور 18 سال کی تین دیگر بیٹیوں کے ساتھ زیادتی کی۔
ایک اور خاتون کو فوجیوں نے اپنی بیٹیوں کے ساتھ زیادتی روکنے پر پیٹا۔
ڈوڈہ میں (1998) میں گاوں لدنہ کی ایک پچاس سالہ رہائشی نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ 5 اکتوبر 1998 کو آٹھویں راشٹریہ رائفلز کے اہلکار اس کے گھر آئے۔
اس کے بعد اسے ایک ہندو کپتان نے زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس سے کہا: "تم مسلمان ہو ، اور تم سب کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے گا۔”
جموں کے ضلع ڈوڈہ کے بیہوٹا مرمت میں 29 اکتوبر 2000 کو ، 15 بہار رجمنٹ کے اہلکارایک کورڈن اور سرچ آپریشن کے دوران ایک عورت کو اٹھا کر ایک کیمپ میں لے گئے۔
اگلے دن بیس خواتین نے کچھ مردوں کے ساتھ اس عورت کی رہائی کے لئے ریلی نکالی ۔ ان خواتین کو چار سے پانچ گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا اور ان پر جنسی تشدد کیا گیا۔
سرینگر کے علاقے زیرو برج میں (2004) چار سکیورٹی اہلکاروں نے 28 اکتوبر کو ایک گیسٹ ہاس میں 21 سالہ خاتون سے زیادتی کی۔
ہندواڑہ میں6 نومبر (2004)کو شہر بیڈپائین میں ایک ماں اور اس کی بیٹی کے ساتھ ایک میجر نے زیادتی کی ۔
2009 میں مقبوضہ کشمیر کے ضلع شوپیاں کے علاقے بونگام میں 29 اور 30 مئی کی درمیانی رات ہندوستانی فوجیوں نے دو خواتین ، آسیہ اور نیلوفر جان کو مبینہ طور پر اغوا کیا ، زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کردیا۔
جموں کے علاقے کٹھوعہ میں جنوری ، 2018 میں ، کٹھوعہ کے قریب رسانہ گاوں میں ، 8 سالہ بچی ، آصفہ بانو کی اغوا کے بعد، عصمت دری کی گئی اور قتل کیا گیا۔
آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر جانے والی خواتین زندہ لاشیں بن گئیں
مقبوضہ کشمیر آئی ہوئی آزاد کشمیر کی خواتین کی فریاد
سرینگر،
پوری دنیا میں یوم خواتین منایا جا رہا ہے ۔ اس موقع پر آزاد کشمیر سے باز آبادکاری پالیسی کے تحت مقبوضہ کشمیر آئی ہوئی خواتین بھی حکومت سے فریاد کر رہی ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ان پر رحم کھا کر انسانی بنیادوں پر انہیں واپس آزاد کشمیر جانے کے لئے روٹ پرمٹ فراہم کیا جائے۔ 2010
میں حکومت نے 1990 کی دہائی یا پھر اس کے بعد عسکری صفوں میں شامل ہونے یا پھر عسکری تربیت لینے، آزاد کشمیر جانے والے افراد کی باز آبادکاری کے لئے ایک پالیسی کا اعلان کیا تھا اور اس دوران ان سے کہا گیا تھا کہ وہ گھروں کو واپس آئیں۔
اگرچہ اس دوران سرنڈر اور بازآبادکاری پالیسی کے تحت 2003 سے 22 مئی 2016 تک 489 نوجوان اپنی بیوی بچوں سمیت نیپال اور دیگر راستوں سے واپس مقبوضہ کشمیر لوٹ آئے تاہم باز آبادکاری کی پالیسی دھوکہ ثابت ہوئی اور یہاں آکر وہ دانے دانے کے محتاج ہوگئے۔
ذرائع کے مطابق آزاد کشمیر کی رہنے والی شرین بیگم جو اس وقت اپنے بچوں اور شوہر کے ساتھ سوپور میں رہتی ہے اور ان سینکڑوں خواتین کے لئے آواز بلند کر رہی ہیں جو 2010 میں باز آبادکاری پالیسی کے تحت پاکستان یا آزاد کشمیر سے یہاں لائی گئی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ آزاد کشمیر میں ان کے اپنے اس عرصے میں فوت ہوگئے لیکن ہم فریاد کریں تو کس سے کریں کہ ہمیں اپنے وطن جانے کی اجازت دی جائے۔
شرین بیگم کہتی ہے کہ مجھے ہر روز کسی نہ کسی علاقے سے ایسی بے سہارہ اور بے بس خاتون کی روداد سننی پڑتی ہے جو دونوں اطراف کی حکومتوں کی لاپرواہی کی بھینٹ چڑھ کر اپنے آپ کو کوس رہی ہے۔
القمرآن لائن کے مطابق شرین بیگم کی طرح ہی مقبوضہ کشمیر کے کرناہ علاقے میں بیاہ کر لائی گئی پوش مالی بیگم کے علاوہ گزریال کی فاطمہ بیگم، کپوارہ بیاہ کر لائی گئی
کوثر ابیگم، کے علاوہ رخسانہ بیگم یہ ایسی خواتین ہیں، جو اپنوں کی یاد میں دن رات آنسو بہاتی ہیں، ایسی خواتین کی یہی فریاد ہے کہ انہیں ویزا دیا جائے تاکہ وہ آزاد کشمیر میں اپنے ماں باپ اور دیگر رشتہ داروں کا ایک بار دیدار کرسکیں۔
بمنہ میں اپنے خاوند اور بیٹے کے ساتھ رہ رہی ایک پاکستانی خاتون بھی ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہے، وہ کہتی ہے کہ یہاں ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے، اپنے رشتہ داروں کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہے کہ جب گھر والوں کی یاد آتی ہے تو من کرتا ہے ان سے فون پر رابطہ کروں
لیکن یہاں سے وہاں فون رابطہ بھی نہیں ہوتا۔ جبکہ گھر والے مہینے میں کبھی کبھار ہی فون کر کے حال و احوال پوچھتے ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ ہم زندہ لاشیں بن گئی ہیں اور اس طرح پانچ سو سے زیادہ خواتین جو آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر آئی ہیں،
ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہو کر آزاد کشمیر میں اپنے ماں پاپ اور دیگر گھر والوں کے تصور میں کھوئی رہتی ہیں۔ ذرائع کے مطابق شاہدہ بانو نامی ایک خاتون نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیا کیونکہ یہاں اس کی نہ مالی حالت ٹھیک تھی اور نہ ہی کٹھ پتلی حکومت اسے آزاد کشمیر جانے کے لئے روٹ پرمٹ فراہم کر رہی تھی۔
کراچی کی نائدہ یوسف نامی خاتون نے بتایا کہ وہ 2014میں نیپال کے راستے اپنے چار بچوں اور خاوند کے ساتھ شالیمار سرینگر پہنچی لیکن اب ان کا سکون ہی ان سے چھن گیا ہے ۔اس کا کہنا تھا کہ سال2010میں جب یہاں کی حکومت نے باز آبادکاری پالیسی شروع کی
تو سینکڑوں کشمیری نوجوان پاکستان کے کونے کونے سے اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ نیپال اور دیگر راستوں سے وادی آئے اور ان افراد کے ساتھ 5سو خواتین بھی یہاں پہنچیںلیکن یہاں انہیں مصیبتوں اور پریشانوں کے سوا کچھ نہیں ملا اور نہ ہی 10برسوں میں ان کی باز آباد کاری ہو سکی۔
ذرائع کے مطابق نسرین ناصر نامی خاتون کے مطابق وہ 2012میں کراچی سے یہاں آئی اس نے آہ بھرتے ہوئے کہا کہ وہاں ہم بادشاہ تھے اور یہاں آکر مسافر ہو گئے کیونکہ ہمیں نہ ہی سفری دستاویزات فراہم کئے جارہے ہیں اورنہ ہی پاسپورٹ ،
جبکہ ہمارے لئے اس ملک میں کوئی شناختی کارڈ بھی نہیں ہے۔
گزشتہ برس مئی میں خواتین نے سرینگر کے پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس میں ہند وپاک حکومتوں اور انسانی حقوں کی عالمی تنظیموں سے مداخلت کی اپیل کرتے ہوئے انہیں سفری دستاویزات اور شہریت فراہم کرنے میں انہیں اپنا کرادار نبھانے میں اپیل کی ۔
اس پریس کانفرنس میں موجود ایک پاکستانی خاتون اس وقت رو پڑی جب انہوں نے بتایا کہ چند ماہ کے دوران ان کے گھر میں3قریبی رشتہ داروں کی موت واقعہ ہوئی لیکن وہ وہاں نہیں جا سکی ہے ۔
کشمیری خواتین کا جنسی استحصال، بھارتی حکومت کی ریاستی پالیسی
خواتین کے خلاف مظالم، کشمیریوں کو نفسیاتی شکست دینے کا حربہ
سرینگر،
کشمیر میں خواتین کے جنسی استحصال کو ریاستی پالیسی کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ ان واقعات کو فوجی مقاصد یعنی سیاسی دہشت گردی ، آزادی کی آواز دبانے اور سٹیٹس کو کے خلاف مزاحمت کچلنے کیلئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے- گزشتہ سات دہائیوں سے کشمیری خواتین اپنے وطن میں امن اور بنیادی حقوق کے حصول کیلئے قربانیاں دے رہی ہیں –
کشمیرکی مائیں اب بھی 1991 میں کشمیری خواتین سے ہونے والے اجتماعی زیادتی کے واقعات کا سوچتی ہیں تو خوف سے کانپ جاتی ہیں۔ کشمیر کی نوجوان لڑکیوں کو بھی ان دیکھی آفت کا سوچ کر ہول اٹھتے ہیں جو یہ سنتے سنتے بڑی ہوئی ہیں کہ آزادی کشمیر کی اگر جنگ ہوئی تو جانیں جائیں گی اور اموات کی گنتی ہو جائے گی مگر کتنی کشمیری عورتوں کی عزتیں پامال ہوں گی، قابض فوج کے ہاتھوں کتنوں کے جسم نوچے جائیں گے، ان دردوں کا شمار ممکن نہ ہوگا۔
5اگست 2019کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد یو پی سے بی جے پی کے رہنما وکرام سنگھ سائنی نے پارٹی کارکنوں کو خوشخبری سناتے ہوئے کہا کہ ان کے وزیراعظم مودی نے کشمیر کے راستے کھول دیے، بھارتی جنتا اور خاص طور پر مسلمان لڑکوں کو خوش ہونا چاہیے کہ اب وہ گورے رنگ کی کشمیری لڑکیوں سے شادی رچا سکیں گے۔
ذرائع کے مطابق ایسے ہی بھارتی ریاست ہریانہ کے وزیر اعلی منوہر لال کھتر نے ایک جلسے میں کہا کہ ہریانہ کی آبادی میں جنس کے تناسب کو برابر کرنے کے لیے کشمیر سے گوری لڑکیاں لے آئیں گے۔ ان کی اس بات پر جلسے کے شرکا نے ایک ٹھٹھا لگایا اور تالیاں بجائیں جیسے کشمیر کی لڑکیاں نہ ہوئیں ریوڑیاں ہیں جو جب میٹھا کھانے کا جی چاہا اٹھا لائیں گے۔
شاید کسی کو بھارتی حکمران جماعت سمیت مذہبی شدت پسندوں کی اس سوچ پر حیرت ہو رہی ہو، شاید کسی کو یہ گمان ہو کہ یہ محض سیاسی بیانات ہیں، مگر کشمیر کی 70 سالہ سیاسی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کشمیری خواتین کے ساتھ ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ کشمیری خواتین ہمیشہ سے نشانے پر رہی ہیں۔
القمرآن لائن کے مطابق نوے کی دہائی میں بین الاقوامی میڈیا میں ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے کہ پوری بارات کے سامنے نوبیاہتا دلہن کی عصمت دری کی گئی۔ یہ سب صدیوں پرانی تاریخ نہیں ابھی کوئی 30 سال پرانی باتیں ہیں جن کے متاثرہ خاندان اب بھی اس ناسور کو دل میں لیے بیٹھے ہیں۔
بھارتی فوج کی جانب یہ عذر پیش کیا جاتا رہا ہے کہ گھروں پر سرچ آپریشن اور گھریلو خواتین سے تفتیش اس لیے کی جاتی ہے کیونکہ وادی کے رہائشی کشمیری عسکریت پسندوں کو پناہ دیتے ہیں۔ تاہم گھروں پر ہونے والے یہ سرچ آپریشن صرف عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاون نہیں، کشمیریوں کو نفسیاتی شکست دینے کا ایک حربہ رہا ہے۔
متنازعہ علاقوں میں خواتین پر سب سے زیادہ بوجھ پڑتا ہے اور مقبوضہ علاقوں میں وہ مظالم کا شکار بنتی ہیں یہی صورتِ حال مقبوضہ کشمیر میں بھی ہے- ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق کشمیر انسانی ظلم وجبر کی بدترین مثال ہے اوربالخصوص وہاں عورتوں کے حقوق کی صورتِ حال انتہائی دگرگوں ہے-
کشمیر میںخواتین بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں جو یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس (UDHR) اور خواتین کے حقوق کے عالمی بل یعنی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاس کئے گئے Convention on the elimination of all form of discrimnation against women (CEDAW)کے تحت دیئے گئے ہیں
یہ بل عورتوں کو سیاسی ،معاشرتی ، ثقا فتی اور زندگی کے کسی بھی شعبہ میں بنیادی حقوق اور آزادی فراہم کرتا ہے- القمرآن لائن کے مطابق بد قسمتی سے عالمی قوانین کا کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال پر کوئی اثرنہیں ہے
اور بھارتی حکومت کشمیر میں عوام بالخصوص خواتین کو اِن کے بنیادی حقوق فراہم نہیں کر رہی- یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکومتیں عالمی مبصرین اور غیر ملکی صحافیوں کو جموں و کشمیر میں داخلہ کی اجازت نہیں دیتیں –
کشمیر میں عورتوں کی عصمت دری بنا خوف و خطر کی جاتی ہے- بھارتی حکومت کے جبر، انتقامی کاروائی اور معاشرے میں بدنامی کے خوف کی وجہ سے بہت سے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے-
مزید برآں بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں نافذ کردہ سیاہ قوانین قابض افواج کے جرائم کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور اس سے کشمیریوں کے دکھ درد میں مزید اضافہ ہوا ہے –
بیوہ خواتین اپنے مقتول شوہروں کا بوجھ بھی اٹھائے ہوئے ہیں کیونکہ آٹھ لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی میں ان کیلئے اپنے اور اپنے بچوں کیلئے روزگار کمانا ناممکن بن گیا ہے –
ذرائع کے مطابق یتیموں کو صحت اور تعلیم کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ کشمیر میں یہ حالات حادثاتی نہیں بلکہ انہیں فوجی مقاصد یعنی سیاسی دہشت گردی ، آزادی کی آواز دبانے اور سٹیٹس کو کے خلاف مزاحمت کچلنے کیلئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں1989ء سے اب تک دوہزارسے زائد خواتین شہید
9فیصد کشمیری خواتین جنسی استحصال کا شکار
سرینگر،
آٹھ مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خواتین کے ساتھ ہونے والے نارواسلوک کو ختم کرنا ہے۔
آٹھ مارچ 1907 میں نیو یارک میں لباس سازی کی فیکٹری میں کام کرنے والی سینکڑوں خواتین نے مردوں کے مساوی حقوق اور اپنے حالات بہتر کرنے کے لیے مظاہرہ کیاتھا۔
پولیس نے سینکڑوں خواتین کو نہ صرف لاٹھیاں مار کر لہو لہان کیا بلکہ بہت سی خواتین کو جیلوں میں بھی بند کر دیا گیا۔
1910 میں کوپن ہیگن میں خواتین کی پہلی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں 17 سے زائد ممالک کی تقریبا ایک سو خواتین نے شرکت کی۔
کانفرنس میں عورتوں پر ہونے والے ظلم واستحصال کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا گیا۔
سب سے پہلے 1909 میں سوشلسٹ پارٹی آف امریکا نے عورتوں کا دن منانے کی قرارداد منظورکی۔
1913 تک ہر سال فروری کے آخری اتوارکو عورتوں کا دن منایا جاتا تھا۔ پھر 1913 میں پہلی دفعہ روس میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔
اس دن کے موقع پر ذرائع نے اپنی جاری کردہ ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میںجنوری 1989ء سے اب تک بھارتی فوجیوں نے دوہزارسے زائد خواتین کو شہید کیا ۔
جنوری 2001سے اب تک کم سے کم670سے زائد خواتین شہید ہوئیں۔1989ء سے اب تک 20ہزار کے قریب خواتین بیوہ ہوئیں۔
1989 میں حریت پسندجدوجہد شروع ہونے کے بعد سے کشمیر میں خواتین کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی ، تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، معذور اور قتل کیا گیا۔ کشمیری خواتین دنیا میں بدترین جنسی تشدد کا شکار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 9فیصد کشمیری خواتین جنسی استحصال کا شکار ہوئی ہیں۔
کشمیری مزاحمتی رہنماوں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے ہمیشہ مقبوضہ کشمیر میں پیش آنے والے سانحہ کنن پوش پورہ، اجتماعی عصمت دری اور سانحہ شوپیاں سمیت خواتین کے خلاف عصمت دری ، قتل اور انسانی حقوق کی پامالی کے دیگر واقعات کی غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیاہے ۔
فروری 1991 میں کپواڑہ کے کنن پوش پورہ میں بھارتی فوجیوں نے 100 سے زائد خواتین کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی جبکہ دو خواتین آسیہ اور نیلوفر کو مئی 2009 میں شوپیاں میں وردی میں بھارتی اہلکاروں نے اغوا کیا ،
زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس کے بعد قتل کردیا جبکہ2018میں جموں کے علاقے کٹھوعہ میں 9 سالہ بچی آصفہ کی بھارتی پولیس اور ایک ہندو پجاری نے اجتماعی عصمت دری کی تھی۔
گھناونے فعل میں پاٹ پوجا کرنے والا بھی شامل تھا تو کم عمر لڑکے بھی۔
اس پر ہی بس نہیں ہوئی زیادتی کرنے والوں نے تو جو کیا سو کیا، بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماوں نے ملزمان کے حق میں جلسے بھی کئے۔
کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوج خواتین کی عصمت دری کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ پورٹ کے مطابق زیادتی کے بیشتر واقعات محاصرے اور تلاشی کے آپریشنز کے دوران پیش آئے ۔
ایچ آر ڈبلیو کی ایک اوررپورٹ کے مطابق ، کشمیر میں سکیورٹی اہلکاروں نے عصمت دری کو انسداد بغاوت کے حربے کے طور پر استعمال کیا ہے۔القمرآن لائن کی ایک رپورٹ میں ایک اسکالر انجر سکجلس بائیک کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ کشمیر میں عصمت دری کا انداز یہ ہے کہ
جب فوجی سویلین رہائش گاہوں میں داخل ہوتے ہیں تو وہ عورتوں سے زیادتی سے قبل مردوں کو مار ڈالتے ہیں یا بے دخل کردیتے ہیں۔
ایک اور اسکالر شبھ متھور نے عصمت دری کو "کشمیر میں بھارتی فوجی حکمت عملی کا ایک لازمی عنصر” قرار دیا ہے۔
فوجیوں کے کچھ انٹرویو زکے دوران اس سوال پرکہ انہوں نے مقامی کشمیری خواتین سے زیادتی کیوں کی ، کچھ نے جواب دیا کہ کشمیری خواتین خوبصورت ہیں۔ دوسروں نے کہا کہ
یہ غیر فیملی اسٹیشن ہے۔ ایک سپاہی نے جواب دیا کہ اس نے بدلے میںایک کشمیری خاتون کے ساتھ زیادتی کی ہے کیونکہ "ان کے مردوں نے اس کی برادری کی خواتین کے ساتھ بالکل ایسا ہی سلوک کیا۔
ذرائع کے مطابق رپورٹ میں بتایا گیا کہ 8جولائی 2016کو کشمیری نوجوان برہان وانی کے قتل کے بعد سے سینکڑوں کشمیری نوجوان اور طلبہ اور طالبات بھارتی فورسز کی طرف سے گولیوں اورپیلٹ گنزکے استعمال سے زخمی ہو چکے ہیں ۔
ان زخمیوں میں سے انشاء مشتاق اورافراء شکور سمیت کم سے کم 70بچے اور بچیاں بینائی کھو چکے ہیں جبکہ 18ماہ کی شیر خوار بچی حبہ نثار اور 32سالہ نصرت جان کی بینائی جزوی طورپر متاثر ہوئی ۔
آزادی پسند رہنمائوں آسیہ اندرابی ، فہمیدہ صوفی اور ناہیدہ نسرین سمیت متعدد خواتین پر نظربند ہیں۔ جبکہ 3مارچ کو بھارتی تفتیشی ایجنسی، این آئی اے نے ایک نوجوان خاتون انشا طارق (26) کو پلوامہ حملہ کیس میں گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا ۔
جس پر حریت تنظیموں اور رہنماوں نے شدید احتجاج کیا۔
ذرائع کے مطابق رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کشمیریوں میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ جن کے عزیز اور رشتہ دار لاپتہ ہیں۔
کورونا وائرس کے مثبت ٹیسٹ کے بعد سرینگر اور بڈگام کے تمام پرائمری اسکول بند
سرینگر،
مقبوضہ جموں وکشمیر سے ایک شخص کے کورونا وائرس کے مثبت ٹیسٹ کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر کے دارالحکومت سرینگر اور ضلع بڈگام میں بھی پرائمری سطح کے اسکولوں کو انتظامیہ نے بند رکھنے کی ہدایات دی ہے۔
جموں ضلع کے بعد سرینگر میں بھی پرائمری سطح کے اسکول نئے حکم نامے تک بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سرینگر کے ڈپٹی کمشنر شاہد اقبال چودھری نے ایک ٹویٹ میں اس بات کا علان کیا ہے کہ پیر سے سرینگر ضلع کے حدود میں آنے والے تمام پرائمری سطح کے اسکول بند رہیں گے۔
خیال رہے یہ قدم کورونا وائرس کے اضافے کے خدشات کے پیش نظر اٹھایا گیا ہے۔ شاہد اقبال چودھری نے ذرائع سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ پیر کے روز سے سرینگر کے تمام پرائمری اسکول بند رہیں گے۔
کشمیر میں ایک شخص کے کورونا وائرس کے مثبت ٹیسٹ کے بعد ، چار اضلاع کے پرائمری اسکول بند ہوگئے
سرینگر ، بانڈی پورہ ، بڈگام اور بارہمولہ اضلاع کے تمام سرکاری اور نجی پرائمری اسکولوں میں کلاس ورک اگلے احکامات تک 9 مارچ سے معطل رہے گا۔
کولگام میں سرچ آپریشن شروع
سرینگر،
مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع کولگام کے وانی موہلہ کھڈوانی میں بڑے پیمانے پر کورڈن اور سرچ آپریشن شروع کیا گیا۔
سیکیورٹی فورسز کی مشترکہ ٹیم نے ہندوستانی فوج کے 1 راشٹریہ رائفلز سمیت جنوبی کشمیر کے کولگام ضلع کے وانی موہلہ کھڈوانی میں بڑے پیمانے پر کورڈن اور سرچ آپریشن شروع کیا ۔
مدھیہ پردیش:
دسویں جماعت کے امتحانی پرچے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو آزاد کشمیر تسلیم کر لیاگیا
بھوپال،
بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں دسویں کلاس (سائنس )کے ایک امتحانی سوالنامے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو دو بار آزاد کشمیر لکھ دیاگیا۔
یہ اصطلاح مدھیہ پردیش بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (ایم پی بی ایس ای)کے کلاس 10 کے سوشل سائنس کے پرچے میں سامنے آئی۔
امتحانی پرچے میں ایک سوال میں طلبا سے ہندوستان کے نقشے پر آزاد کشمیر کی نشاندہی کرنے کو کہا گیا جبکہ ایک اور سوال میں طلبا کو دو کالم میں فہرستیں دی گئیں اور ان کے درست جواب سے میچ کرنے کو کہا گیا۔
ذرائع کے مطابق اس واقعے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعلی کمل ناتھ نے سخت کارروائی کا حکم دیا۔ان سوالات کو اب ختم کر دیا گیا ہے اور پرچے کے کل نمبر کم کرکے 90 کردیئے گئے ہیں۔
ایم پی بی ایس ای کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ پیپر سیٹر اور ناظم کو معطل کردیا گیا ہے اور ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔
ریاست میں حزب اختلاف کی جماعت نے اس واقعے پر حکمران جماعت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ القمرآن لائن کے مطابق بی جے پی کے ترجمان رجنیش اگروال ، نے ٹویٹر پرپرچے کی تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ ہے ، ہندوستانی حکومت نے اس سلسلے میں ایک قرارداد پاس کی ہے۔ کیا مدھیہ پردیش کی کانگریس حکومت ہے جس نے آزادکشمیر کو تسلیم کرلیا۔
انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ اس کے ذمہ دار شخص کے خلاف ملکی بغاوت کا مقدمہ درج کیا جائے۔
کانگریس کے ترجمان نریندر سلوجا نے کہا کہ وزیر اعلی ناتھ نے واقعے پر برہمی کا اظہار کیا۔
اے وی پڑھو
پاک بھارت آبی تنازعات پر بات چیت کے لیے پاکستانی وفد بھارت روانہ
لتا منگیشکر بلبل ہند
بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کا ایمرجنسی الرٹ جاری