ڈیرہ اسماعیل خان ہمارے گاٶں میں بھی پرائیویٹ سراغ رساں کتے مجرم پکڑنے کے لیے لاۓ گیے اور میں خود ان کے ساتھ گھوما بھی۔ان سے چور یا مجرم تو نہ پکڑا گیا البتہ کتے لانے والے غریب آدمی کو دس پندرہ ھزار کتوں کی فیس چٹی کی صورت ادا کرنی پڑی۔
دوسرے دن میرے کمرے سے میری نظر کی عینک نہیں مل رہی تھی میں نے کچن میں جا کر بیگم سے پوچھا تو اس نے کہا خود رکھ کے بھول جاتے ہو کہیں پڑی ہو گی ابھی دیکھتی ہوں۔
میں غصے میں تھا اور کہا کہیں سے بھی نہیں مل رہی کسی نے اٹھا لی ہے۔
اب بیوی کو بھی غصہ آ گیا کہنے لگی پھر کتے منگوا لو تاکہ چور کا پتہ چلے ۔میں نے کہا تین سو روپے کی عینک کے لیے پندرہ ہزار کے کتے کیوں منگواوں ؟
کہنے لگی کل گاوں میں سراغرساں کتوں کے ساتھ تو بڑے لہک لہک کے چل رہے تھے۔۔ ۔گاٶں والوں کا چور پکڑا ؟
میں نے بتایا نہیں پکڑا۔۔بیوی کہنے لگی پھر تم جیسے پڑھے لکھے لوگ کتوں کے ساتھ چلیں گے تو گاٶں کے غریب ان پڑھ لوگوں کا اعتبار کتوں پر بڑھ جاۓ گا اور وہ لٹتے رہینگے۔ اف میرے خدایا بات سچ تھی مگر بات تھی تو رسوائی کی۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر