ملک میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کو مدنظر رکھتے ہوئے میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ اردو کالم نگاری کیسے کی جاتی ہے۔
اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے آج میں آپ کو بتاوں گا کہ نیوز اینکری کیسے کی جاتی ہے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ یہ مشکل کام ہے تو آپ سراسر غلط ہیں۔ یہ اس قدر آسان کام ہے کہ کوئی بھی کر سکتا ہے اور پاکستان کے پچانوے فیصد اینکر اسی “کوئی بھی” کے زمرے میں آتے ہیں ۔
باقی پانچ فیصد ایسے ہیں جن کے پروگرام معلوماتی اور علمی ہوتے ہیں لیکن ایسا پروگرام کرنے کے لیے وسیع المطالعہ اور سیاسی تاریخ کا عالم ہونا ضروری ہے جس کے لیے برسوں کی ریاضت بھی درکار ہے اور ایسے پروگرام ریٹنگ کی دوڑ میں بھی بہت پیچھے ہیں سو اس کھونٹ جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
سب سے پہلے چند ایسے مغالطوں کا ازالہ ضروری ہے جن کی وجہ سے نوجوان اس شعبے کی طرف رجوع نہیں کرتے۔ ان میں سب سے بڑا مغالطہ یہ ہے کہ نیوز اینکر بننے کے لیے صحافتی تجربہ ہونا ضروری ہے۔ ایسا بالکل بھی نہیں۔ پاکستان کے اکثر نیوز اینکرز نے اخبار میں لکھنا تو درکنار، زندگی میں کبھی تواتر کے ساتھ کوئی اخبار پڑھا بھی نہیں ہوتا اور وہ پاکستانی صحافت سے بالکل نابلد ہیں۔ ان سے اگر کبھی پوچھ لیں کے ارشاد احمد حقانی کون تھا تو یہ شاید جواب دیں کہ حقانی نیٹ ورک کا بانی۔ اور ان میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو خوامخواہ ہی سینئر صحافی کی تہمت اٹھائے پھرتے ہیں جیسے کہ وہ سینئر صحافی جن کا صحافت سے تعلق یہ تھا کہ وہ ایک اخبار فروش یونین کے صدر ہوا کرتے تھے۔
دوسرا مغالطہ یہ ہے کہ اینکر بننے کے لیے آپ کو اردو زبان پر عبور ضروری ہے، آپ کو گفتگو کے فن ک ماہر ہونا چاہیے ، آپ کی زبان رواں ہونی چاہیے وغیرہ۔ یہ سب بھی سراسر غلط ہے۔ وطن عزیز کی تمام زبانیں ہماری اپنی زبانیں ہیں، پرائی نہیں، سو آپ جب چاہیں اردو بولتے بولتے علاقائی زبان بولنا شروع کر دیں۔ جیسے کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے میرے ایک پسندیدہ اینکر اکثر اپنے ساتھی اینکر کو کہتے ہیں “تانوں چھڈئیے مج تھلے تے تسی جاندے او کٹے تھلے”۔ فن گفتگو کی بات کریں تو ملک کے کامیاب ترین اینکروں میں سے ایک اکثر گفتگو کو ایک ہی لفظ بول کر بڑھاوا دے دیتے ہیں۔ وہ لفظ کبھی استفساری “اچھا؟” ہوتا ہے، کبھی تحیراتی “ہیں؟” اور کبھی اشتعالی “اوئے!”۔ تلفظ کی بھی کوئی قید نہیں۔ ایک معروف اینکر “تخفیف” کو “تفخیف” بولتے ہیں۔ رہی بات زبان پر گرفت اور روانی کی تو ایک بہت ہی مشہور اینکر جو برسوں سے اینکری کر رہے ہیں، ان دونوں کے ضروری نہ ہونے کی دلیل ہیں۔ ان کے اکثر فقرے “آآ آآ” اور اسی سے ملتے جلتے صوتی اثرات سے مزین ہوتے ہیں اور زبان پر گرفت کا یہ عالم ہے کہ عمران خان کے لفٹر سے گرنے کے واقعے کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ “ذرائع کے مطابق لفٹر پر پہلے سے پانچ نفوس موجود تھے اور جب ایک اور نفوس اس پر سوار ہوا تو۔۔۔”
اب آتے ہیں ان صلاحیتوں کی طرف جو آپ کو ایک کامیاب اینکر بنا سکتی ہیں۔ پنجاب کے دیہی علاقوں کی ثقافت میں ایک کردار ہوا کرتا ہے جسے پھپھے کٹنی کہتے ہیں۔ اس ترکیب کا مترادف کسی بھی اور زبان میں کم از کم میرے علم میں نہیں۔ خاصیت اس کردار کی یہ ہے کہ کسی بھی دو لوگوں میں بیٹھے بٹھائے لڑائی کروا سکتا ہے یا چلتی ہوئی لڑائی میں دخیل ہو کر اس کی شدت میں اضافہ کروا سکتا ہے۔ ایک کامیاب اینکر کے لیے یہ گر کلیدی ہے۔ اگر آپ کے مہمان دو متحارب سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں تو آپ نے سیاسی یا قانونی سوال نہیں پوچھنے۔ آپ نے ایسے سوال پوچھنے ہیں جس کے نتیجے میں آپ کے مہمانوں کا ذاتیات پر اترنے کا امکان ہو۔ جب وہ اس پر اتر آئیں تو یہاں یہ بہت ضروری ہے کہ اول تو آپ خاموش ہو جائیں یا پھر اس اشتعالی “اوئے!” کا استعمال کریں جس کا ذکر اوپر ہو چکا۔ اگر اس لڑائی میں ایک مہمان دوسرے پر چائے کا کپ دے مارے تو آپ کا شو کامیاب ہے اور اگر کہیں تھپڑوں ہی کا تبادلہ ہو جائے تو یہ تو انگریزی کا پیور گولڈ ہے۔ اس دوران اگر آپ دیکھیں کے کوئی ذاتی حملہ اپنا اثر دکھانے میں ناکام ہو رہا ہے تو آپ فورا “یعنی آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں ” کہہ کر وہی ذاتی حملہ زیادہ موثر الفاظ کے ساتھ دہرا دیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک مہمان دوسرے سے کہے کہ “آپ نے قومی خزانہ خالی کر کے اپنی جیبیں بھر لیں” اور مخاطب مطلوب ردعمل دیتا نظر نہ آئے تو آپ کا کام ہے کہ آپ کہیں‘‘یعنی آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ یہ چور ہیں’’
کامیاب اینکر بننے کا دوسرا گر موضوع کا انتخاب ہے اور اس کے لیے آپ کو ایک ہم خیال پروڈیوسر درکار ہوگا جو کہ وافر مقدار میں دستیاب ہیں۔ آپ شاید سمجھیں کہ پروگرام اس دن کے اہم ترین موضوع پر ہونا چاہیے جو کہ ایک انتہائی منفی سوچ ہے۔ پانچ فیصد اینکر ایسے پروگرام کرتے ہیں لیکن وہ ریٹنگ کی دوڑ میں بہت پیچھے ہیں۔ تو پھر آپ نے موضوع کا انتخاب کیسے کرنا ہے؟ آپ نے کامیاب اینکر بننا ہے تو آپ کو وہ کرنا ہوگا جسے میرے محترم استاد نصرت جاوید صاحب “چسکہ فروشی” کہتے ہیں۔ یہ ذہن نشین کر لیں کہ اہم موضوع سے بھی اہم چیز چٹپٹا موضوع ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے آج کا اہم موضوع افغان امن معاہدہ اور اس میں موجود پیچیدگیوں کے پاکستان پر ممکنہ اثرات ہوں لیکن اس خشک موضوع پر پروگرام سے آپ ریٹنگ کے قبرستان میں اپنے پروگرام کے لیے قبر کھو دیں گے۔ اس کے برعکس اگر آپ پورا ایک گھنٹے کا پروگرام عورت مارچ پر اس کے حامی اور مخالفین اکٹھا بٹھا کر کر دیں تو آپ بہت ریٹنگ لیں گے۔ اور ویسے بھی افغان امن معاہدے جیسے موضوع پر مہمانوں میں تو تکار ہونے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔
اگر آپ کی طبیعت متجسس واقع ہوئی ہے تو آپ پر لازم ہے کہ آپ اپنے تجسس کو چسکہ فروشی پر غالب مت آنے دیں۔ وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ فرض کریں کہ ایک شخص آپ کے پاس آئے اور کہے کہ وہ گنے کے رس سے جہاز اڑا سکتا ہے۔ اب آپ خود نہ سائنسدان ہیں نہ انجینئر سو آپ کا تجسس کہے گا کہ کسی سائنسدان سے پوچھا جائے کہ کیا یہ ممکن ہے لیکن کسی سائنسدان کو فون کرنے سے پہلے ٹھہرئیے اور سوچئے کہ چسکہ فروشی کا تقاضہ کیا ہے۔ چسکہ فروشی کا تقاضہ یہ ہے کہ سائنسدان سے پوچھئے ضرور لیکن اسے اپنے پروگرام میں بلا کر، گنے کے رس سے جہاز اڑانے کے داعی کے ساتھ تاکہ عوام اس ممولے اور شہباز کی لڑائی سے لطف اندوز ہو سکے۔
اب آتے ہیں مہمانوں کے انتخاب کی طرف۔ کامیابی کے اس تیسرے گر میں آپ کو پہلے دو گر سامنے رکھنا ہوں گے۔ بہتر مہمان وہ ہے جو یا تو ذاتیات پر اترنے کی صلاحیت رکھتا ہوں یا چسکہ فراہم کر سکے اور اگر کوئی ایسا ہیرا ہے جو یہ دونوں کام کر سکے تو کوشش کریں کہ وہ روزانہ آپ کے پروگرام میں شرکت کرے۔ یاد رکھیں کہ ایسے مہمان جو لمبے لمبے تبصرے کریں یا پاکستان کی سیاسی تاریخ کھول کر بیٹھ جائیں وہ آپ کے پروگرام کے لیے سم قاتل ہیں۔ ان پر کسی ایسے شخص کو ترجیح دیں جو بات چاہے مہمل اور بیکار ہی کیوں نہ کرے لیکن اپنے تبصرے میں “ہانگ کانگ کے شعلے”، “جوڈو کراٹے” اور “منی بدنام ہوئی” جیسی تراکیب کا وافر استعمال کرتا ہو۔
جہاں تک الفاظ کی ادائیگی اور اور آواز کے زیروبم کا تعلق ہے تو کوشش کریں کہ آپ جذباتی ہو کر تیز بولنا نہ شروع کر دیں ورنہ ویسا ہی ہو گا جیسا ایک معروف اینکر کے ساتھ ہوا جنہوں نے فرط جذبات میں دوست کھوسہ کو دوست کھوتا کہہ دیا تھا۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آپ بالکل ہی غیر جذباتی انداز میں بولنے لگیں۔ ہمارے ہاں ایک اینکر ہیں۔ بندہ کیا ہے چلتی پھرتی لائبریری ہے۔ پروگرام بھی بہت سنجیدہ کرتا ہے اور اکثر غیر جذباتی رہتا ہے۔ اور دوسری طرف ایک دوسرے صاحب ہیں جو ہاتھ نچا نچا کر کہتے ہیں “آئے ہائے، آج تو مخالفوں کی تریفیں ہو رئی ایں، تریفیں ہو رئی ایں، یہ کیا چکر ہے”، موخر الذکر اول الذکر سے کہیں زیادہ مشہور ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور