لڑکپن کے دور میں میں جناب غلام احمد پرویز کی فکر سے بہت متاثر ہوا کرتا تھا۔ ہر جمعے کی صبح بلا ناغہ گلبرگ لاہور میں طلوع اسلام کے دفتر جا کر ان کا ویڈیو لیکچر سننے جایا کرتا تھا۔ پرویز صاحب کا بنیادی موضوع ویسے تو تفسیر قران تھا لیکن وہ وسیع المطالعہ شخصیت تھے اور دنیا میں مروجہ نظریات پر بھی اکثر رائے دیا کرتے تھے۔
جمہوریت کے بارے میں وہ فرمایا کرتے تھے کہ جمہوری نظام میں اگر اکاون فیصد لوگ غلط بات کو صحیح قرار دے دیں تو وہ ملک کا قانون بن جائے گا۔ بات دل کو لگتی تھی۔ اقبال کے بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے کی گواہی نے جمہوریت کے اس سقم پر مہر تصدق ثبت کر دی۔
آگے چل کر جب جان لاک، ایڈمنڈ برک اور دوسرے مصنفین کو پڑھا جنھیں جدید تصور جمہوریت کا بانی سمجھا جا سکتا ہے تو ادراک ہوا کہ جمہوریت میں قانون سازی خلا میں نہیں کی جاتی اور جمہوریت اور اکثریت کے جبر میں فرق ہوتا ہے۔ پاکستانی دوستوں سے تبادلہ خیال کرتے ہوے محسوس ہوتا ہے کہ کئی لوگوں کو اس فرق کا پوری طرح علم نہیں۔
جمہوری مفکرین نے جب جدید جمہوریت کے خد و خال متعین کیے تو انہیں واضح طور یہ احساس تھا کہ جمہوریت میں اکثریت کے جبر کا امکان موجود ہے۔ ایڈمنڈ برک نے تو صاف لکھا کہ جمہوری نظام میں یہ ممکن ہے کہ اکثریت اقلیت کو اس کے حقوق سے محروم کر دے۔ امریکی آئین کے مصنفین تو اکثریت کے جبر سے اس قدر خائف تھے کہ انہوں نے اپنی نئی مملکت کو ایک ڈیموکریسی کہنے کی بجائے ایک ریپبلک قرار دیا۔
بدقسمتی سے اردو زبان میں عمومی طور پر ان دونوں الفاظ کا ترجمہ جمہوریت ہے لیکن تصوراتی طور پر یہ دو مختلف چیزیں ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ آج کے جمہوری ممالک بشمول پاکستان دراصل ریپبلیکس ہیں
جدید جمہوریت کے اس تصور میں اکثریت کے جبر سے بچاؤ کے لئے کچھ میکنزم پنہاں ہیں۔ سب سے آسان مثال ایوان ہائے نمایندگان کی ساخت ہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں صوبوں کی نمائیندگی ان کی آبادی کے مطابق ہے۔ اس ایوان میں یہ امکان موجود ہے کہ اگر سب سے بڑے صوبے کی آبادی کل آبادی کا اکاون فیصد ہو جائے تو وہ چھوٹے صوبوں کے حقوق سلب کر لے۔
اکثریت کا یہ جبر روکنے کے لئے ایوان بالا ، یعنی پاکستان سینیٹ، میں تمام صوبوں کو مساوی نمائیندگی دی جاتی ہے۔ اکثریت کے جبر کو روکنے کا ایک اور میکنزم ایک ایسی عدلیہ کا وجود ہے جو مقننہ اور انتظامیہ کے تابع نہ ہو اور جو آزادانہ مقننہ کی قانون سازی کا تجزیہ کر سکے۔ عدلیہ کی آزادی ہی اس امر کی سب سے بڑی تصدیق ہے کہ اکثریت کی رائے ہی جمہوریت میں سب سے مقدس شے نہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو عدلیہ کو مقننہ کی نگرانی پر نہ بٹھایا جاتا۔
جمہوریت میں اکثریت کی رائے سے بھی زیادہ مقدس چیزیں ہیں جن میں سرفہرست شہری حقوق ہیں۔ پاکستان سمیت جمہوری دنیا کے تمام آئینوں میں ایسی شقیں رکھی گئی ہیں جو مقننہ کو پابند کرتی ہیں کہ وہ کوئی ایسی قانون سازی نہیں کرے گی جس سے شہریوں کے حقوق متاثر ہوتے ہوں یا حقوق میں امتیاز رکھا جائے۔ ایسی قانون سازی کے نتیجے میں عدلیہ کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ اسے منسوخ کر دے۔
یہ سب کہنے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ جب نریندر مودی کی پارٹی نے شہریت کا نیا بل پاس کیا گیا تو بی جے پی کے دانشوروں کا ارشاد تھا کہ ایسا کرنے کی اجازت انہیں جمہوریت نے دے رکھی ہے۔ یہ حقیقت کے بلکل بر عکس ہے۔ یہ جمہوریت نہیں اکثریت کا جبر ہے جو شہری حقوق میں امتیاز پیدا کرتا ہے۔ افسوس ہوا کہ بھارتی عدلیہ نے اس قانون سازی کو منسوخ نہیں کیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت میں بھی پاکستان کی طرح جمہوری نظام تو موجود ہے لیکن جمہوری عمل میں بہت سے سقم ہیں۔
ادھر پاکستانی حلقوں میں بھی اس قانون کی واضح مذمت کی گئی اور اسے بجا طور پر جمہوریت کی روح سے روگردانی کہا گیا۔ ہم بھارت کے تناظر میں تو جمہوریت اور اکثریت کے جبر میں فرق جان چکے ہیں لیکن شاید خود احتسابی سے کتراتے ہوئے اپنی تاریخ پر نگاہ ڈالنے سے گریزاں ہیں۔
پاکستان میں کئی دفعہ اکثریت اپنی رائے بالجبر نافذ کر چکی ہے جس کی سب سے بڑی مثال 1974 میں پاکستانی پارلیمان کا احمدی پاکستانیوں کو غیر مسلم قرار دینا تھا۔ غیر مسلم صرف لیبل نہیں بلکہ اس کی زد میں احمدیوں کے شہری حقوق آتے ہیں۔ یہ وہ سیڑھی تھی جس پر چڑھ کر بعد میں جنرل ضیا الحق نے امتناع قادیانیت آرڈیننس پاس کیا جس کے تحت احمدیوں پر وہ پابندیاں لگائی گئیں جو دنیا کے کسی بھی پیمانے پر بنیادی انسانی اور شہری حقوق کی خلاف ورزی ہیں
میں بخوبی جانتا ہوں کہ پاکستان میں مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت احمدیوں کو غیر مسلم سمجھتی ہے اور انہیں یہ رائے رکھنے کا حق ہے۔ اگر کبھی کسی نے ان کا یہ حق چھیننے کی کوشش کی تو جمہوریت پسند ایسے اقدام کی بھی مخالفت کریں گے۔ جیسے کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی دوسرے کو غیر مسلم سمجھے اور قرار دے، اسی طرح آر ایس ایس کے بنیاد پرستوں کو بھی یہ رائے رکھنے کا حق حاصل ہے کہ بھارتی ہونا ہندو ہونے سے مشروط ہے۔ لیکن کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اکثریت رکھنے کی بنا پر اپنی رائے ریاست پر مسلط کر دے۔ یہ جمہوریت نہیں، اکثریت کا جبر ہے۔
دنیا میں احمدیوں سے مماثلت رکھنے والی ایک اور جماعت بھی ہے جس کی بنا امریکہ میں رکھی گئی۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں عمومی طور پر مورمنز کہا جاتا ہے۔ یہ یسوع مسیح کے علاوہ اٹھارہ سو پانچ میں پیدا ہونے والے جوزف سمتھ کو اپنا نبی مانتے ہیں اور اسی پر بس نہیں۔ یہ اس کے بعد آنے والے ہر جماعتی سربراہ کو بھی نبی مانتے ہیں۔
اس کے باوجود کہ ان کے نظریات مسیحیت سے خاصے مختلف ہیں، یہ لوگ خود کو مسیحی ہی کہتے ہیں۔ بہت سے مسیحی رہنماؤں کے مطابق ان لوگوں کے پاس خود کو مسیحی کہنے کا حق نہیں لیکن امریکی ایوان نمایندگان کا کوئی رکن سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ کبھی پارلیمان میں یہ بل پیش کرے کہ مورمنز کو غیر مسیحی قرار دیا جائے۔ بفرض محال کوئی ایسی قرارداد پیش کر بھی دے اور کسی معجزے کے نتیجے میں امریکی پارلیمان اس قرارداد کو منظور بھی کر لے تو امریکی عدلیہ ایک دن میں اس قرارداد کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دے گی کیونکہ ریاست کا تعلق شہریوں کے حقوق و فرائض سے ہوتا ہے ، ان کے عقائد سے نہیں۔
کہا جاتا ہے کہ عوام کی اکثریت ایسے مسائل میں جذباتی ہوا کرتی ہے جو کہ درست بھی ہے اور انہیں اس کا حق بھی ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ ریاست عوام کے جذبات کو مدنظر رکھ کر کچھ اقدام کر دے تو اس میں کچھ حرج نہیں۔ یہاں مجھے اختلاف ہے۔
ریاست کبھی بھی نہ جذباتی ہو سکتی ہے اور نہ ہی جذبات کا احترام کرنا اس کا کام ہے۔ ریاست کا کام اکثریت کے جذبات پر اقدام کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس کے برعکس اقلیت کو اکثریت کے جذبات سے محفوظ رکھنا ہوتا ہے اور یہ وہ چیز ہے جس میں پاکستانی اور بھارتی ریاستیں، دونوں ناکام ہوئیں۔ یہ جمہوریت نہیں، اکثریت کا جبر ہے جس میں دو بھیڑیوں اور ایک بھیڑ میں ووٹنگ کروائی جاتی ہے کہ رات کے کھانے میں کیا ہوگا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ