سائیں رفعت عباس سے سوال:
اساطیری درخت ، اساطیری گاڑی آپ ان چیزوں کو مقامیت کے ساتھ جوڑتے ہیں- ان باتوں کو معاصر سماجی اور سیاسی عمل سے کیسے جوڑیں گے؟
جو اب: یہ ساری سماجی اور سیاسی باتیں ہیں اور شکرگزار ہوں کہ آپ نے مجھے وضاحت کا مزید موقعہ دیا. پہلے عرض کر دوں کہ اساطیر مقامیت کا تسلسل ہیں،ان کا کسی ایک زمانے، مذہب یا مت سے کوئ تعلق نہیں ہے. دریاوں کا کا دیوتا، ایم پنت،، بڑی آسانی سے دل دریا اور خواج خضر بن جاتا ہے. جنگل کا دیوتا، بن را،، بڑی سہولت سے ہر آنگن کا ، دولہا،، بن جاتا اور ماں کی دعا میں ڈھل جاتا ہے. ، شالا جیوے بنرا،،. سو یہ اساطیری درخت اور اساطیری گاڑی ہماری جدید سماجی اور سیاسی علامتیں ہیں. یہ ہمارے سیاسی موقف کا اظہار ہیں. یہ اساطیری درختم مقامیت میں پنپتا ہے. یہی وہ درخت ہے جس پر اجداد کے چہروں کے پھول لگتے ہیں. حملہ آور یا تاجر کا اساطیری درخت اس کے اپنے خطے میں رہ جاتا ہے. یہ درخت گھوڑے یا بحری جہاز پر لاد کر نہیں لایا جا سکتا. آگے مقامیت کا اپنا درخت ہے جس پر حملہ آور یا تاجر کے اجداد کے پھول نہیں کھلتے. اسی طرح حملہ آور یا تاجر جب گھوڑے یا اپنے بحری جہاز پہ سوار ہوتا ہے تو یہ اساطیری گاڑی (گڑگاڈا) اس کے ساتھ نہیں چلتی.
کولمبس کا جہاز جب جنوبی امریکہ پہنچا تو پرتگال یا سپین کی اساطیری گاڑی ان کے ساتھ نہیں تھی. وہ پرتگال یا سپین ہی میں رہ گئی۔گبریل گارسیا مارکیز جب نیل آرمسڑانگ سے پہلے چاند پر پہنچنے کی بات کرتا ہے تو وہ مقامی انڈین کی اساطیری گاڑی کی بات کرتا ہے.
مقامی آدمی کا موقف
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
مقامی دانش اور تخلیقی جہات||رفعت عباس سے مکالمہ