دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بیروزگاری اور جنازوں کا موسم ۔۔۔حیدر جاوید سید

ادھر اب برنا صاحب' چھاپرا صاحب یا نثار عثمانی مرحوم جیسے قائدین بھی نہیں رہے جنہیں نوجوان ساتھی اولاد سے زیادہ عزیز ہوں اور جو مشکل حالات میں نتائج سے بے پرواہ ہو کر نعرہ مستانہ بلند کریں۔

یہ پچھلی صدی کی ساتویں دہائی کا نواں سال (1979ء) تھا’ مارشل لاء حکومت نے دیگر بہت سارے جرائد کیساتھ ہفت روزہ جدوجہد کراچی کی اشاعت بھی 3ماہ کیلئے معطل کر دی۔
نصیر میمن قدرے بہتر طبقے کے فرد تھے اور بھائیوں کے کاروبار میں حصہ دار بھی تھے (نصیر صاحب پرچے کے مالک تھے) دفتر میں ان کے علاوہ ہم کل چار افراد تھے’ دو کاتب(تب کتابت ہوتی تھی کمپوزنگ بعد میں آئی) ایک رفیق سومرو اور دوسرا میں۔
کاتب صاحبان چونکہ دوسرے اخبارات میں بھی کام کرتے تھے اس لئے تین ماہ کی بندش سے وہ کچھ زیادہ متاثر نہ ہوئے لیکن رفیق اور میرے لئے مسائل ہی مسائل تھے۔
ہمارا ذریعہ آمدنی کلی طور پر یہی ملازمت تھی۔ ہم دونوں ملازمت کے علاوہ پڑھتے بھی تھے’ اب پریشانی یہ ہوئی کیا کیا جائے؟
دیگر اخبارات وجرائد سے منسلک دوستوں سے مدد چاہی مگر مارشل لاء کی دو دھاری تلوار اور اوپر سے ہم زیرعتاب بھی ایسے میں کسی نے حوصلہ نہ کیا۔
جناب عبدالحمید چھاپرا نے یقینا کچھ مدد بھی کی اور ڈھارس بھی بندھائی لیکن مدد اور ڈھارس سے زیادہ روزگار کی ضرورت اور تلاش تھی۔
ہم روزانہ اخبارات وجرائد کے دفاتر کی سیڑھیاں پرعزم انداز میں چڑھ کر مالکان وایڈیٹرز صاحبان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور کچھ دیر بعد منہ لٹکائے نیچے اُترتے۔
کچھ دن اسی بھاگ دوڑ میں گزرے، پھر ایک دن رفاقت خان یہ نوجوان سٹی کالج ناظم آباد میں سال سوئم کا طالب علم تھا، ہم تینوں مل کر اورنگی ٹاون چار کے ایک چھوٹے سے کوارٹر میں رہتے تھے
اسی کوارٹر میں ایک شب فیصلہ ہوا کہ رفاقت اپنی فیکٹری میں انچارج سے ہمارے لئے بات کرے گا اور اگر رضا مندی ہوئی تو اگلے روز ہم اس کیساتھ جائیں گے۔
رفاقت فیکٹری سے سیدھا کالج جاتا اور پھر واپس لوٹتا تھا۔ اُس دن وہ واپس آیا تو اس نے بتایا کہ صبح دونوں میرے ساتھ چلو۔
صبح اس کیساتھ اس کی فیکٹری یاد پڑتا ہے کہ (نیشنل پائپ فیکٹری نام تھا) پہنچے جہاں ہم دونوں کو 10’10 روپے روزانہ پر ملازمت مل گئی۔
اس فیکٹری میں کیبل پائپ تیار ہوتے تھے۔ ان دیگی پائپ سے برما مشین کے ذریعے سوراخ کئے جاتے۔ رفیق اور میرا کام تھا کہ پائپ کو پکڑ کر کھڑا ہونا اور اس مضبوطی سے کہ پائپ اپنی جگہ سے ہلنے نہ پائے کیونکہ پائپ ہلنے کی صورت میں برما ٹوٹ سکتا تھا۔
ہم دونوں نے اس فیکٹری میں 25یا 26 دن کام کیا۔ 41سال بعد ان سموں یاد آرہا ہے کہ برمے سے سوراخ کے دوران کیسے پائپ گرم ہوجاتا اور ہماری حالت کیا ہوتی تھی۔ 26ویں یا 27 ویں دن مشین پر مزدوری کر رہے تھے کہ چوکیدار نے آکر بتایا کہ کوئی صاحب تم دونوں سے ملنے آئے ہیں۔
انچارج سے اجازت لے کر گیٹ پر پہنچے تو وہاں نصیر میمن، چھاپرا صاحب اور تنویر جمال موجود تھے۔ تینوں ہمیں گلے لگا کر محبت سے ملے اور فیکٹری منیجر کے پاس لے گئے، جہاں انہوں نے اپنا تعارف کروانے کے بعد ان سے کہا کہ ہم دونوں کا حساب ابھی کرکے فارغ کردیا جائے۔
منیجر نے کہا ابھی مہینہ پورا نہیں ہوا’ چھاپرا صاحب نے میز پر پڑے فون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہم ایک فون کرلیں؟۔
جی بہت خوشی سے جواب ملا۔
انہوں نے نمبر ملایا ایک دو منٹ بات کی اور ریسیور منیجر کی طرف بڑھا دیا۔ بات کرچکنے پر اس نے شکوہ کیا کہ آپ ان بچوں کے بارے میں پہلے بتا دیتے پھر جھٹ سے اس نے اپنے ایک ماتحت کو حساب بنانے کیلئے کہا اور تھوڑی ہی دیر میں ہمیں محنت کے دنوں کی اُجرت مل گئی۔

اڑھائی سو یا دو سو ساٹھ روپے فی کس جیب میں لئے ہم ان تینوں کیساتھ فیکٹری سے باہر نکل آئے اور سڑک کے دوسری طرف ہوٹل میں آبیٹھے، جہاں چھاپرا صاحب اور تنویر جمال (تنویر جمال مشہدی ان دنوں روزنامہ حریت میں ملازمت کرتے تھے) نے نصیرمیمن کی خوب کلاس لی۔

میمن صاحب کا موقف تھا کہ میں نے بالکل نہیں کہا کہ پابندی کے دنوں کی (تین ماہ) تنخواہ نہیں دوں گا۔ فیکٹری میں ان دونوں نے اپنی مرضی سے ملازمت کی، میں تو کل ان کے کوارٹر پر تنخواہ دینے گیا تو پتہ چلا کہ یہ دونوں یہاں ملازمت کرتے ہیں۔ مجھے افسوس کیساتھ غصہ بھی آیا اسی لئے تو تنویر اور آپ کو زحمت دی ساتھ آنے کی۔
اب دونوں بزرگ ہم پر برس پڑے، چھاپرا صاحب بولے میں نے تم دونوں سے کہا تھا گھبرانے کی ضرورت نہیں۔
ہم نے کہا سر ہم گھبرائے بالکل نہیں چند جگہ کوشش کی لیکن بات نہیں بن پائی۔ سب کو پتہ تھا کہ ہمارے ساتھ ہوا کیا ہے۔ کسی پر بوجھ بننے سے بہتر یہی لگا کہ یہاں ملازمت کرلی جائے۔
ڈانٹ ڈپٹ کے بعد انہوں نے نصیر میمن کی طرف دیکھا تو اس نے ہم دونوں کو اس ماہ کی تنخواہیں دیں۔

41برس بعد یہ کہانی خود ستائی یا ہمدردی سمیٹنے کیلئے نہیں لکھی بلکہ یہ آج کے ان حالات جو میڈیاورکرز کے گلے کا پھندہ بنے ہوئے ہیں کی وجہ سے سنانے، لکھنے پر مجبور ہوا ہوں۔
پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران مختلف شہروں میں 5قلم مزدور تنخواہیں نہ ملنے اور بیروزگاری کی وجہ سے وفات پاچکے، ابھی دو دن قبل روئف کلاسراء نے دس پندرہ دن قبل وفات پانے والے ایک سینئر صحافی فصیح کے حوالے سے کالم لکھا دیگر مرحومین کے ذکر کو سنگل کالمی خبر میں جگہ مل پائی ۔
پرنٹ والیکٹرانک میڈیا پچھلے ڈیڑھ سال سے بحران کا شکار ہے۔
بحران کی زد میں آئے اداروں کے کچھ دوستوں کی داد رسی ہوئی اور کچھ اپنے ہی اداروں کی اندرونی وارداتوں کا شکار ہوگئے۔
میڈیا ورکرز کی بڑی اکثریت مسائل کا شکار ہے۔ خود ہم نے پچھلے چند برس لاہور کے جس ادارے میں ملازمت کی وہاں سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود معاملات حل نہیں ہوئے، اس میں ایک پہلو اور بھی ہے وہ یہ کہ تھڑوں، چوپالوں اور پریس کلبوں میں بیٹھ کر ورکرزدوستی کا چولہا جلانے والے دیہاڑی بازوں نے ساتھیوں کی گردنوں پر پاوں رکھ کر اپنی قیمت وصول کرلی اور سادھو کے سادھو رہے۔
سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے اپنی زندگیوں کے دس سے 20 سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ قلم مزدوری میں بیتایا وہ اب کیا کریں گے؟
اگلے روز ملتان کے ایک اخبار کی میگزین ایڈیٹر کو اے پی این ایس کا ایوارڈ ملا’ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایوارڈ لینے والی یہ خاتون صحافی پچھلے ہفتے اپنے ادارے کی جانب سے فراغت نامہ وصول کرچکی تھیں۔
پی ایف یو جے کا حال یہ ہے کہ
”اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے کوئی کہاں گرا کوئی کہاں”۔ سوشل میڈیا پر جاکر دیکھیں منہ اُٹھائے ہر شخص صحافیوں کو چور’ لفافہ خور اور نجانے کیا کیا کہہ لکھ رہا ہے
ان سارے دیانتداروں نے کبھی کسی قلم مزدور کے کچن میں جھانک کر نہیں دیکھا۔
ادھر اب برنا صاحب’ چھاپرا صاحب یا نثار عثمانی مرحوم جیسے قائدین بھی نہیں رہے جنہیں نوجوان ساتھی اولاد سے زیادہ عزیز ہوں اور جو مشکل حالات میں نتائج سے بے پرواہ ہو کر نعرہ مستانہ بلند کریں۔
لیکن کیا
بیروزگار ہوئے یا تنخواہوں سے محروم قلم مزدورایک ایک کرکے مرتے رہیں گے اور جنازے پڑھے پڑھائے جاتے رہیں گے؟
مجھے اس سوال کا جواب نہیں مل رہا۔

About The Author