ہو سکتا ہے آپ کو عجیب سا لگے کہ مجھے دلی میں موجودہ قتل و غارت اور بربادی پر حیرانی نہیں ہوئی لیکن انسان ہونے کے ناتے بہت افسوس اور دکھ ہے ۔ یہ دکھ پہلی دفعہ نہیں ہو رہا بلکہ جب بھی تاریخ کی کتاب پڑھی‘ وہی دکھ محسوس کیا جو آج ہو رہا ہے۔
دلی کی بربادی کی کہانی اتنی ہی پرانی ہے جتنی دلی خود۔ آخری دفعہ دلی اس وقت برباد ہوئی جب 1857ء کا غدر مچا تھا۔ پہلے باغیوں نے انگریز افسران کے بیوی بچے مارے تو جواباً انتقام سے لبریز انگریزوں نے دلی کو ایسا لہولہان کیا کہ اس کے زخم پھر نہ بھر سکے۔ جو باغی ہاتھ لگا اسے توپ کے دہانے پر رکھ کر اڑایا گیا یا لٹکا دیا گیا۔ اس دفعہ بادشاہ تک کو معافی نہ تھی عام انسانوں کی تو بات ہی نہ کریں۔ بہادر شاہ ظفر چلاتا رہا کہ وہ باغیوں کے ہاتھوں یرغمال تھا۔ کارنامے وہ سرانجام دیتے رہے اور شاہی مہر اس کی ثبت ہوتی رہی۔ لیکن غدر کے دنوں میں عقل اور دانش ہجوم سے غائب ہو جاتی ہے۔ شیکسپیئر کے ڈرامے جولیس سیزر میں جب سیزر قتل ہوتا ہے اور مارک انٹی کی تقریر لوگوں کو قاتلوں اور سازشیوں کے خلاف بھڑکاتی ہے اور لوگ جلائو گھیرائو شروع کرتے ہیں تو سیزر کو قتل کرنے کی سازش میں شریک ایک سینا نام کا بندہ بھی ہوتا ہے۔ ہجوم کو ایک سینا نظر آتا ہے۔ ہجوم سمجھتا ہے وہی سازشی سینا ہے۔ ہجوم اسے مارنے دوڑتا ہے تو وہ چلاتا ہے: میں سینا شاعر ہوں سازشی کوئی اور ہے۔ ہجوم میں سے کوئی چلاتا ہے: یہ تو اور اچھی بات ہے اگر یہ سینا سازشی نہیں بلکہ سینا شاعر ہے‘ اسے بھی جلا دو کیونکہ یہ برے شعر کہتا ہے۔
دلی کے باسیوں کے ساتھ بھی صدیوں سے یہی کچھ ہوتا آیا ہے۔ دلی کے غدر میں جہاں بہادر شاہ ظفر کے بچوں کو ہلاک کرکے اس پر بغاوت کا ٹرائل ہو رہا تھا اور اسے سزا کے طور پر دلی بدر کرکے رنگون بھیجا گیا تھا‘ وہیں دلی کا کوتوال بھی بیوی بچوں کی جان بچانے کے لیے بھاگ رہا تھا۔ راستے میں انگریز فوج نے اس کشمیری خاندان کو پکڑ لیا۔ انہیں لگا‘ وہ کسی انگریز خاندان کا بچہ اغوا کرکے لے جارہے ہیں کیونکہ کشمیری خوبصورت ہوتے ہیں۔ بڑی مشکل سے اس قافلے میں شریک بچے نے انگریزی میں انہیں کچھ سمجھایا۔ وہ اس کوتوال کے ہی بچے تھے۔ دلی کے اس کوتوال کا پوتا نہرو بعد میں بھارت کا پہلا وزیر اعظم بنا۔یہی وجہ تھی کہ تقسیم کے بعد جب دلی میں فسادات شروع ہوئے تو نہرو ہر جگہ خود پہنچ جاتا۔ گاندھی کو مسلمان دلی سے باہر نہ جانے دیتے تھے کہ اگر وہ چلے گئے تو انہیں ہندوئوں کے جتھے جلا دیں گے۔
دلی کی بدقسمتی یہ رہی یہ شہر ہندوستان کا دارالخلافہ تھا لہٰذا اس پر قبضہ کیے بغیر ہندوستان پر حکمرانی کا پرچم نہیں لہرایا جا سکتا تھا۔ دلی سینٹرل ایشیا، افغانستان اور ایران سے آنے والے حملہ آوروں کے لیے تر نوالہ ثابت ہوتی تھی۔ حملہ آوروں کو زیادہ لمبا سفر طے نہیں کرنا پڑتا تھا۔ افغانستان سے وہ آج کے خیبر پختون خوا میں داخل ہوتے اور سیدھے ملتان جا پہنچتے۔ وہاں کچھ دن مزاحمت ہوتی۔ جلد یا بدیر ملتان فتح ہوتا تو وہ وہاں سے تازہ دم ہو کر لوٹ مار کرتے دلی کی طرف چل پڑتے۔ درمیان میں مزاحمت کہیں نہ ہوتی۔ حملہ آور قتل و غارت کرتے وقت یہ نہیں دیکھتے تھے کہ ہندو کون ہے‘ سکھ کون ہے اور مسلمان کون۔پہلے گھر لٹتا اور پھر سر قلم ہوتا۔ بلکہ ہندو اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ وہ صرف لٹتے تھے کیونکہ ان کے پاس دولت تھی۔ مسلمانوں پر تو زیادہ عذاب اترتا کہ وہ دلی کے حکمران ہوتے تھے لہٰذا افغان اور سینٹرل ایشیا کے مسلمان حملہ آور ہی ان کو دلی کے تخت سے بزور شمشیر اتارتے اور سر قلم کرتے۔ دلی میں ہی شاہی خاندان بغاوتیں کرتے، اور اقتدار کے لیے سازشیں ہوتیں۔ ایک بادشاہ مرتا یا مار دیا جاتا تو اس کے بعد پورا شاہی خاندان نہ صرف قتل ہوتا بلکہ تمام وزیر اور درباری بھی ساتھ قتل ہوتے۔ پورے شہر کو اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی تھی۔ دلی میں سب نے خون بہایا لیکن جو لہو دلی کا نادر شاہ ایرانی نے بہایا وہ شاید تاریخ معاف نہ کرسکے۔
شاید بہت کم لوگوں کو پتہ ہو کہ لارڈ مائونٹ بیٹن نے ہندوستان کو مسلمانوں اور ہندوئوں میں اس وقت بانٹنے کا فیصلہ کیا تھا جب پہلے کلکتہ اور پھر پنڈی کے قریب کہوٹہ میں بدترین فسادات میں بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا تھا۔ مائونٹ بیٹن کا خیال تھا کہ اگر ان دونوں کو الگ الگ ملک دے دیے جائیں تو فسادات رک جائیں گے۔ مائونٹ بیٹن کو اندازہ نہ تھا کہ مسلمانوں اور ہندوئوں کے درمیان نفرت ایک دو راتوں کی بات نہ تھی بلکہ یہ ہزار سال پرانی تھی۔ انگریز تو ہندوئوں کیلئے بہتر آپشن نکلے کہ انہوں نے انہیں مسلمانوں کی طویل حکمرانی سے نجات دلائی‘ جس سے ہندو نیشنلزم اور ہندتوا کی بنیاد پڑی۔ ہندوئوں کی اکثریت کو احساس ہوا کہ انگریز نے کبھی نہ کبھی ہندوستان سے نکلنا ہے‘ لہٰذا ان کیلئے ایک موقع تھا کہ وہ ہندوستان پر ایک ہزار سال بعد دوبارہ حکمرانی کریں ۔ لیکن جب 1937ء میں الیکشن ہوئے اور کانگریس کو وزارتیں ملیں اور جس طرح کا بدترین امتیازی سلوک مسلمانوں کے ساتھ اس دور میں ہوا‘ اس سے مسلمان ڈر گئے کہ متحدہ ہندوستان ان پر کانگریس کے طویل راج کا آغاز ہو گا‘ جس میں وہ نشانہ ہوں گے۔ دوسرے نہرو کے سوشلسٹ مائنڈسیٹ سے بھی مسلمان جاگیردار ناخوش تھے۔جس طرح ہندوستان تقسیم ہوا وہ مہا بھارت کے حامیوں کیلئے ایک ایسا زخم ہے‘ جسے وہ نہیں بھولتے اور یہ تاریخی اور مذہبی غصہ کسی نہ کسی شکل میں نکلتا رہے گا۔ اس لیے آپ نوٹ کریں کہ بی جے پی سردار پٹیل کو اپنا ہیرو مانتی ہے۔ وزیر اعظم مودی بار بار سردار پٹیل کا نام لیتے ہیں کیونکہ سردار پٹیل نے ہی 565 ریاستوں کو ایک ”بریف کیس اور ایک پستول‘‘ کے سہارے ہندوستان کو جوائن کرنے پر ”راضی‘‘ کیا تھا۔ بی جے پی جواہر لعل نہرو کو ہیرو نہیں مانتی بلکہ اسے آج کے نوجوان ہندوستانی کے سامنے ایک ایسا ولن اور تاریخ کا لالچی کردار بنا کر پیش کرتی ہے جو ہندوستان کا پہلا وزیر اعظم بننے کیلئے پاکستان کا مطالبہ ماننے پر تیار ہو گیا تھا۔ بی جے پی اور آر ایس ایس نے پچھلے بہتر برس میں دھیرے دھیرے ہندوستانی ذہنوں میں اس سوچ کو راسخ کیاکہ پاکستان جناح سے زیادہ نہرو کا کارنامہ تھا۔ آج نہرو اور گاندھی ہندوستان کے نوجوان کے اس طرح آئیڈیل نہیں رہے جیسے مودی اور امیت شاہ ہیں۔ گاندھی کا بھی اس لیے ہندوستانی نوجوان طبقے میں وہ درجہ اور احترام نہیں رہا کہ وہ مسلمانوں کو خوش اور پاکستان کو اس کے حصہ کے پیسے دلوانے کیلئے نہرو اور پٹیل کو بلیک میل کر رہے تھے۔ یوں وہ فلاسفی آج ہندوستان میں دم توڑ چکی جو نہرو اور گاندھی نے متعارف کرائی تھی کہ ہندوستان سیکولر ہو گا‘ سب کا ہو گا۔ آج کا نوجوان ہندو اس فلاسفی سے بہت دور جا چکا۔ وہ اب آر ایس ایس فلاسفی کا قائل ہے کہ ہندوستان صرف ہندوئوں کا ہے۔ اب وہ ہندوستان کے سب مسائل کا ذمہ دار پاکستان کو سمجھتا ہے کیونکہ ہندوستانی میڈیا اور بی جے پی نے دن رات اسے یہی بتایا اور سمجھایا ہے۔ ہندوستانی ٹی وی سکرین پر پچھلے پندرہ بیس برسوں میں ایک ہی چیز ان کے ذہن میں بٹھائی گئی ہے کہ پاکستان اور مسلمان ہندوستان اور ہندوازم کے لیے خطرہ ہیں۔ رہی سہی کسر پاکستان میں ٹی وی چینلز پر بیٹھے چند دانشوروں نے غزوہ ہند کی بار بار تکرار سے پوری کردی کہ بہت جلد ہم بھارت فتح کریں گے۔ ہندوستان کے نوجوان نے جب یہ دیکھا کہ ہندوستان پاکستان کا پچھلے سال فروری میں حملوں کے باوجود کچھ نہ بگاڑ سکا تو اس نے اپنا رخ نہتے ہندوستانی مسلمانوں کی طرف موڑ دیا۔ نفرت کا جو طوفان برسوں کی محنت سے برپا کیا گیا تھا‘ اس کا رخ کہیں تو ہونا تھا۔ نشانہ معصوم ہندوستانی مسلمان بنے۔
صدیوں پرانی اس آگ نے کئی گھر جلانے تھے۔ دلی ایک دفعہ پھر جلنی تھی، اجڑنی تھی‘ تباہ ہونی تھی۔ ہم 1947ء کے جن فسادات اور خون خرابے کی دردناک کہانیاں درسی کتب میں پڑھتے اور حیران ہوتے تھے کہ انسان اتنے بھی وحشی ہو سکتے ہیں، وہ آج ہماری نظروں کے سامنے ہوا ہے۔ دلی جل گئی اور سب دیکھتے رہے۔ دلی کے باسیوں پر پتہ نہیں سینکڑوں سالوں سے کس آسیب کا سایہ ہے کہ جب بھی بسنے لگتی ہے پھر اجڑ جاتی ہے اور اجڑ کر پھر بس جاتی ہے۔
عجیب دلی ہے —جہاں نہ بسنے والے بسنے سے باز آتے ہیں اور نہ ہی اسے جلانے اور اجاڑنے والے۔۔!
دلی کی بدقسمتی یہ رہی یہ شہر ہندوستان کا دارالخلافہ تھا لہٰذا اس پر قبضہ کیے بغیر ہندوستان پر حکمرانی کا پرچم نہیں لہرایا جا سکتا تھا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر