28 فروری کو لاہور میں کامریڈ لال خان کے اعزاز میں تعزیتی ریفرنس ہوا۔ جس کا انعقاد کامریڈ لال خان کے زمانہِ طالب علمی کے دوست، ضیا آمریت میں پاکستان اور جلاوطنی میں ایک ساتھ جدوجہد کرنے والے ساتھی اور کامریڈ لال خان کے آخر دم تک ساتھ محبت کرنے والے کامریڈ فاروق طارق نے دیگر بائیں بازو کے دوستوں کیساتھ مل کے کیا۔ اس تعزیتی ریفرنس کی خوبی یا کمال یہ تھا کہ اس میں شریک لوگ وہ نہیں تھے کہ جنہوں نے کامریڈ لال خان کو پڑھا ہوا تھا یا ان کے بارے سن رکھا تھا۔ بلکہ وہ سب لوگ تھے جو کامریڈ لال خان کی مارکسسٹ نظریات سے کمٹمنٹ اور ان کے ضیاء الحقی عہد میں عزم و ہمت، بہادری، جرات اور استقلال کے عینی شاہد تھے۔۔۔۔۔
اس پروگرام میں ایک طرف اُس فیض احمد فیض کی بیٹی ہال کی سیڑھیوں/فرش پہ بیٹھی نظر آئی کہ جس فیض کی عظمت سے ساری دنیا واقف ہے تو وہاں محنت کش اور مزدور طبقے کی عظمتوں کے نغمہ خواں اور مرتے دم تک ایمانداری کی داستان حبیب جالب کی بیٹی حبیب جالب کے انکار آمریت کے "دستور کو ، صبحِ بے نور کو” جالب کے انداز میں پڑھتی نظر آئی۔ وہاں وہ کامریڈ شاہدہ جبیں بھی شریک تھیں جس نے نہ صرف ضیاء آمریت میں شاہی قلعے کی قید و صعوبتیں برداشت کیں، بد ترین تشدد سہا بلکہ جس کے مزدور بھائی عثمان غنی کو پھانسی دی گئی۔ اس پروگرام میں پاکستان میں انسانی حقوق کیلئے رات دن کام کرنے والے دوست بھی شریک تھے۔۔۔۔۔۔۔
اس پروگرام کا سب سے بڑا اعزاز یہ بھی تھا کہ کامریڈ لال خان کی بیوہ کامریڈ صدف اپنے کامریڈ جیون ساتھی کی تعلیمات اور نظریات مطابق دکھ درد اور جدائی میں رونے پیٹنے اور سوگ منانے کی رسموں کو جھٹک کر اپنے نا بالغ اور معصوم بچوں بیٹے کامریڈ شیرزمان اور بیٹی سحر کیساتھ محنت کش طبقے کیساتھ جدوجہد کے لا زوال عزم کو لے کر شریک تھیں۔۔۔ کامریڈ صدف سے میرا جس نظرئیے محبت اور احترام کیوجہ سے رشتہ اور قربت رہی، اب تک قائم ہے اور رہیگی۔ میں نے پہلی دفعہ کامریڈ صدف کو ایک وقار کیساتھ، ایک عزم کیساتھ محنت کش طبقے کے بارے ان کو اس طبقاتی نظام کی اذیتوں سے نجات کے بارے بات کرتے دیکھا ہے۔۔۔۔۔
اس پروگرام کے تمام شرکاء کی باتوں، نوجوانوں کے فلک شگاف نعروں میں ایک اور صرف ایک قدرِ مشترک تھی کہ کامریڈ لال خان کی زندگی کا ہر ایک قدم اور ہر ایک سانس محنت کش طبقے کو دکھوں، درد، اذیتوں اور ذلتوں سے نجات کی جدوجہد میں گذری۔ اور اس جدوجہد کی زندگی میں تمام آمرانہ جبر، دشمنوں کے حملوں، ریاکاروں کی منافقت، راہ چلتے دوستوں کی بیوفائیوں کے باوجود کوئی ایک بھی ایسا لمحہ نہیں آیا کہ جب کامریڈ لال خان کے قدموں میں کوئی لغزش یا لرزش آئی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح کامریڈ لال خان محض کمیونزم، مارکسزم، لینن ازم اور ٹراٹسکی ازم کا پرچم تھامے استقامت کا ساکت و جامد کوئی کوہِ گراں نہیں تھے نا ہی کامریڈ لال خان نے کبھی اپنی ذات کا بت بنایا اور ناں ہی کسی دیوتا کا روپ دھارا۔ کیونکہ وہ طاقت کے ہر ناروا و ناجائز مظہر چاہے وہ کوئی بت ہو یا کہ دیوتا اس کو مٹانے کیلئے ہی جئیے۔ اور اس یقین کیساتھ چلے گئے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کائناتِ ارضی پر کیمونزم نظام کے سرخ سویرے کو طلوع ہونے سے نہیں روک سکتی ۔۔۔۔۔ کامریڈ لال خان سرخ سلام
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹 🌹🌹🌹🌹
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر