جولائی 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چکنا چور خواب۔۔۔ گلزار احمد

گزشتہ سے پیوستہ روز ڈیرہ کی سپریم درسگاہ کے ایک سینر پروفیسر کا ایسا کارنامہ سامنے آیا کہ لوگ منہ چھپاے پھرتے ہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان شھر ایک ہستا بستا پر امن شھر تھا جس کو کسی کی ایسی نظر لگی کہ اب یہاں خوش ہونے کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آتے۔

گزشتہ سے پیوستہ روز ڈیرہ کی سپریم درسگاہ کے ایک سینر پروفیسر کا ایسا کارنامہ سامنے آیا کہ لوگ منہ چھپاے پھرتے ہیں۔جن لوگوں کے بچے اس عظیم درسگاہ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کی نیندیں حرام ہو گئیں۔

ہماری PTI کی حکومت ٹیکسوں ۔کرپشن۔قانون کی بالا دستی کی بات کرتی ہے مگر شاید IMF کے کہنے پر ٹیکس تو امریکہ جیسا وصول کرنا چاہتی ہے مگر سھولتیں افریقی غلاموں والی فراہم کر رہی ہے۔

پچھلی دفعہ ڈیرہ کے 1613 اساتذہ کو نوکری سے نکال کے باہر کیا گیا حالانکہ روزگار کی فراھمی حکومت کی ذمہ داری ہے۔۔ پچھلے ہفتے ڈیرہ میں بوتلوں میں پٹرول بیچنے والے دھاڑی داروں کو پکڑ کے پولیس نے بے روزگار کر دیا کیونکہ اوپر سے آرڈر ملے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ڈیرہ میں دھشت گردی عروج پر تھی اور روزانہ دھماکے ہو رہے تھے پھر بھی گزشتہ حکومت ان دکانداروں پر ہاتھ نہیں ڈالتی تھی کیونکہ حکومت کو پتہ تھا کہ یہ مزدور پیشہ لوگ تین چار سو روپے روزانہ کما کر بچوں کا پیٹ بمشکل پال رہے ہیں جب حکومت ان کو روزگار فراہم نہیں کر سکتی تو معصوم لوگوں کے منہ سے نوالہ تو نہ چھینے۔

اب یہ دکانیں اور روزگار بند کر کے تھانہ کچہری کی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔یار جب ان کی دکانیں بند کرا دیں اب بات ختم ہو گئی ان پر مقدمے بنا کر قوم کی کیا خدمت ہو رہی ہے؟

کیا عزت سے روزگار کمانا جرم تھا؟ کم از کم ان بے چاروں کو متبادل روزگار فراہم کر دیتے۔ ڈیرہ میں تاجر روز روز کی چخ چخ سے تنگ آ چکے ہیں اور کاروبار بمشکل رینگ رہا ہے۔چینی مل مالکان اسمبلی میں بیٹھے ہیں اور واضع طور پر چینی کے ریٹ برابر اوپر چڑھا دیے مگر ان پر ہاتھ کوئی نہیں ڈال سکتا۔

آٹا مافیا کا آج تک پتہ نہ چل سکا کہ اچانک ریٹ ڈبل کیسے ہوے۔یوٹیلٹی سٹورز پر کچھ اشیا کی قیمتوں کی کمی کا اعلان ہوا مگر کئی اشیا موجود نہیں ۔ڈیرہ پر نحوست کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ رات اعجاز آباد مریالی کی بڑی سڑک پر ایک ھی رات میں چھ دکانوں کے تالے توڑ کر نقدی اور بیٹریاں چوری کر لی گئیں ۔

اس سے دو دن پہلے دو مکانوں کی چھتوں سے شمسی پلیٹین چوری کر لی گئ تھیں.۔ جس کی رپورٹ بھی تھانہ کینٹ میں درج کرائی گئی مگر کچھ نہیں ہوا۔کچھ روز پہلے یوسف ٹاون کی یوٹیلٹی سٹور کے تالے توڑ کر سامان چوری کرلیا گیا ۔

پولیس کی ٹیمیں ۔چوروں۔ نشہ بیچنے والوں کی بجاے پٹرول بیچنے والوں کو پکڑنے میں مصروف ہیں۔ چوری کی یہ وارداتیں اکثر بجلی کی لوڈشیڈنگ کے دوران کی جاتی ھیں اور لوڈ شیڈنگ کا ذمہ دار واپڈا ھے ۔

واپڈا کی لوڈشیڈنگ کے ساتھ جرمانوں کا سلسلہ بھی جاری ہے جس سے عوام عاجز آ چکے ہیں۔ ایک طرف مہنگائی نے جینا مشکل کر دیا ھے دوسری طرف لوگوں کے اموال محفوظ نہیں۔ حکومت ہمیں اب بھی باور کرا رہی ہے کہ پچھلی حکومتوں نے لوٹ مار کی مگر نہ کچھ برآمد ہوا نہ ثابت اور سب ون بائی ون چھوٹ رہے ہیں البتہ مہنگائی پچھلی حکومتوں کے مقابلے بڑھتی جا رہی ہے۔

لٹیروں اور چوروں کی چیخیں نکلوانے چلے تھے غریب عوام کی چیخیں نکلوا دیں۔ہم ملک بچانے نکلے تھے اور لوگوں سے ووٹ لیے کہ ہمارے ساتھ چلو اب لوگ مہنگائی ۔کرپشن۔ناانصافی سے بچنے کے لیے در بدر ہو رہے ہیں۔

دوائیوں کے ریٹ بڑھ گیے مگر پوچھتا کوئی نہیں۔ پنشنرز کی پنشنیں روکی جارہی ہیں میڈیکل کی سھولتیں ختم ہو رہی ہیں مگر اخباروں اور بیانات میں ایک مدینہ ریاست بنائی جا رہی ہے۔ ڈیرہ شھر کے ترقیاتی کام ٹھپ پڑے ہیں۔

منیر نیازی نے کہا تھا؎ منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے… کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ ۔۔۔

%d bloggers like this: