کوکلا چھپاکی جمعرات آئی اے، جیہڑا اگے پچھے ویکھے اوہدی شامت آئی اے۔
پنجاب کے دیہات میں بچوں کے کھیلوں میں یہ کھیل خاصا مقبول ہے۔ اس کھیل میں بچے ایک دائرے میں بیٹھ جاتے ہیں اور اُن میں سے کوئی ایک اپنے کسی بھی دوست کے پیچھے کپڑا چھپا دیتا ہے جس کے بعد آنکھوں پے کپڑا باندھے محض خطرہ بھانپنے والا کپڑا چھپانے والے کے پیچھے بھاگ پڑتا ہے اور پھر بھرپور دھلائی ہوتی ہے۔
ان قدیم دیہاتی کھیلوں میں کوئی ایک سبق بھی چھپا ہوتا ہے۔ میری دانست میں اس کھیل کے بول اور اس کے ایکشن میں اس بات کو سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ آنکھیں بند رکھنے کے باوجود چوکنا رہنا چاہیے تاکہ چپکے سے ہونی والی سازش کو بھانپا جا سکے اور اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔
سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان کے بیانات بھی کچھ ایسے ہی کھیل کا حصہ ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی پیروی کے دوران سابق اٹارنی جنرل کمرہ عدالت میں بنچ کے سامنے نہ صرف معزز جج صاحبان پرمعاونت کا الزام لگاتے ہیں بلکہ چند ثبوتوں کی بات بھی کرتے ہیں جو انھیں مبینہ طور پر دکھائے گئے ہیں۔ انور منصور صرف اس پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ٹی وی پروگراموں میں شہزاد اکبر صاحب اور فروغ نسیم کے کردار پر بھی سوال اٹھا دیتے ہیں۔
معاملہ صرف یہ نہیں کہ یہ الزامات لگائے گئے بلکہ سوال یہ بھی ہے کہ جج صاحبان کی مبینہ نگرانی کیوں اور کون کر رہا تھا۔ الزام تو یہ بھی ہے کہ ججوں کی نگرانی کے لیے غیر ملکی جاسوسوں کی فرم ہائر کی گئی اور سنگین الزام یہ بھی کہ شواہد اٹارنی جنرل کے ساتھ شیئر کیے گئے۔
عجب نہیں کہ وزیراعظم اور پی ٹی آئی کی کور کمیٹی اس بات سے اُتنی ہی ناآشنا ہو جتنے کہ ہم اور آپ۔ اس سے قبل سوشل میڈیا کی ریگولیشن کے حوالے سے بھی کچھ ایسی ہی صورت حال سامنے آ چکی ہے اور فروغ نسیم صاحب کے کردار پر خود پی ٹی آئی کے اندر سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
حالیہ صورتحال میں جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس اور الزامات کا دفاع کرنے کو نئے اٹارنی جنرل تیار نہیں۔ انھوں نے نہ صرف اپنے دفتر میں تقرریوں کی تفصیلات وزارت قانون سے طلب کر لی ہیں بلکہ بیرون ملک مقدمات کے لیے بھی اٹارنی جنرل کے دفتر کو ہی اہل قرار دے دیا ہے۔
نئے اٹارنی جنرل کا قاضی فائز عیسی کیس کی پیروی سے ہٹنا اس بات کی نشاندہی ہے کہ حکومت مزید اس معاملے میں پیش رفت سے ہچکچا رہی ہے۔ بیرون ملک مقدمات کی خود پیروی کرنا بھی کم از کم شہزاد اکبر صاحب پر عدم اعتماد ہو سکتا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کو کسی سے کیا چیلنج ہو سکتا ہے۔ اپوزیشن خاموش تماشائی اور اپنی باری کی منتظر پویلین میں بیٹھی ہے اور چاہتی ہے کہ اس حکومت کو پوری طرح سے بلکہ کھل کر کھیلنے کا موقع دیا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ لندن میں ہونے والی ملاقاتوں اور ڈیل کے اشارے بھی محض اشارے ہی ہیں۔ رابطوں کے باوجود کوئی خاطر خواہ کامیابی ممکن نہیں ہو رہی۔ شنید ہے کہ اپوزیشن کسی بھی طرح کا رسک لینے کو تیار نہیں۔ یہ تاثر البتہ دیے جانے کی کوشش ضرور ہو رہی ہے کہ بیک ڈور چینل سے مذاکرات جاری ہیں جن میں فی الحال تعطل آ چکا ہے۔
تحریک انصاف کا انور منصور سے استعفیٰ لینا اور اٹارنی جنرل کا اس مقدمے سے پیچھے ہٹنا ظاہر کرتا ہے کہ کوکلا چھپا کی کے اس کھیل میں چند دوستوں کی جانب سے رکھا جانے والا کپڑا پکڑ لیا گیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ شامت کس کی آئے گی، دھلائی کس کی ہو گی، کون کرے گا اور کیسے!
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ