نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صحافت اور صحافی ۔۔۔ملک خلیل الرحمٰن واسنی

بے شک وہ صحافی ماہانہ بنیادوں پر ان اداروں میں اپنا کنٹری بیوشن انفرادی طور پر خودبھی جمع کرائے تاکہ ادارے پر بوجھ نہ بنے

صحافت ایک مقدس پیشہ،خدمت کیساتھ ساتھ عبادت بھی،یوں توکہنے کو ریاست کا ایک اہم بنیادی ستون بھی مگر بدقسمتی سے اگر صحافی حقا ئق بیان کرے تو پوری دنیا اسکی دشمن بن جاتی ہے،

اگر کسی کے حق میں کچھ لکھ دے تو خوشامدی کے تمغے،اگر خاموش رہے تو اپنے پیشے سے غداری،

بحثیت ایک صحافتی طالبعلم کے میرا خیال اور تجزیہ ہے جو شاید غلط بھی ہوسکتا ہے۔گویا ایک صحافی اپنی نارمل زندگی سے کٹ کر ہی رہ جاتا ہے اور جس ادارے کے لیئے خدمات انجام دیتا ہے کچھ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ وہ بھی اپنے رویوں میں تبدیلی لانا شروع کر دیتا ہے ہر ایک شعبہ ہائے زندگی کے ادارے میں عمر بڑھنے کیساتھ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ کچھ فواعد بڑھتے ہیں کیونکہ صحافی جس میڈیا گروپ سے منسلک ہے

صاف ظاہر وہ اسکا نمائندہ اور ملازم ہے جس کے تمام تر معاملات کی ذمہ داری اس ادارہ پر عائد ہوتی ہے۔کیونکہ اچھے حالات میں تو سب ساتھ ہوتے اور بوقت ضرورت شاید اپنا سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔

مگر یہاں حقیقت کچھ برعکس ہے اور صحافی خدانخواستہ دوسرے کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوجاتا ہے کیا ایسا ممکن نہیں کہ یہ بھی تو ایک مزدور اور ورکرر کی ہی حیثیت رکھتا ہے اور ساری زندگی محنت و مزدوری میں مصروف عمل رہتا ہے اس کے بھی معاملات ہوتے ہیں اسکی بھی ضروریات ہوتی ہیں

اسکے بھی والدین ،بیوی بچے،رشتہ دار،خوشی غمی اور روزمرہ ضروریات زندگی کے مسائل اور معاملات ہوتے ہیں کیونکہ یہ کوئی فرشتہ نہیں کہ اسکا پیٹ نور سے بھرا رہے اسکو بھی روزی روٹی کی ضرورت ہوتی ہے یہ نہیں کہ دوسرے کے مسائل کے حل کا ٹھیکہ لیئے رکھے اور اپنے مسائل سے ساری زندگی نا آشنا رہے کیونکہ اسکو بھی بہتر سہولیات کی فراہمی اور معاملات زندگی صحت،تعلیم اور زرائع آمدنی کی بھی ضرورت ہے جس کے لیئے ہمارا پورا معاشرہ ان سے نظریں چرا لیتا ہے

کیا محکمہ سوشل سیکیورٹی ورکرز ویلفیئر سے صحت تعلیم اور معذوری پینشن کی سہولیات و مراعات،اولڈ ایج بینیفٹس ایسوسیشن سے بڑھاپا پینشن،اور لیبر ڈیپارٹمنٹ سے میرج گرانٹ اور ڈیتھ گرانٹ کیا اسکا حق نہیں ہے؟ کیا یہ اسکا ادارہ اسے نہیں دلا سکتا

بے شک وہ صحافی ماہانہ بنیادوں پر ان اداروں میں اپنا کنٹری بیوشن انفرادی طور پر خودبھی جمع کرائے تاکہ ادارے پر بوجھ نہ بنے اوربوقت ضرورت اپنی پریشانیوں،مجبوریوں سے نمٹنے کے لیئے بجائے کسی اور کیطرف دیکھنے یا دست سوال دراز کرنے کے جرآت و خودداری سے یہ سہولیات حاصل کرے اور اس پر لگنی والی تہمتیں اور بدگمانیاں بھی اپنی موت آپ مر جائیں

اگر حکومتی سطح پر نہ سہی صحافتی تنظیموں کیطرف سے ایک مروجہ شکل دے کر اسے ایک قانونی اور آئینی شکل دے کر اپنے صحافی بھائیوں کے لیئے کردار ادا کیا جاسکے جوکہ مشکل تو ضرور ہوگا مگر ناممکن نہیں؟

کیا یہ ممکن ہے پورے معاشرے اور متعلقہ حکام،افسران بالا اور صحافت سے منسلک اور متعلق اداروں اور مالکان سے بھی سوال ہے کیا وہ اس حوالے سے اپنا کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں تاکہ انکے ادارے کے لیئے مال وجان اور پورے خاندان کی بازی لگانے والا ادارے کی بہتری کے لیئے کام کرنے والا انکا ورکر اپنی اور اپنے خاندان کی بہتر طور پرکفالت اور خودداری کی زندگی بسر کر سکے کیونکہ ملک پاکستان کے ہر ادارے میں کوئی نہ کوئی میکنیزم ہے جو وہ اپنے ورکرز،اہلکاروں اورمنسلک افراد کو فراہم کرتے ہیں،

لیکن اسکے برعکس ہر شعبہ ہائے زندگی میں ایک صحافی کو بڑی عجیب و غریب مخلوق تصور کر کے عجیب و غریب تصور پیش کیاجاتا ہے جوکہ موجودہ اور آنیوالے وقت کی شاید بلکہ یقیناً اشد ترین ضروت ہے۔میڈیا مالکان اور اداروں کے استحکام کی بھی علامت ہے۔

About The Author