میری سکول لائف پرانے لاھور میں گزری ۔ جب سڑکوں پر ڈبل ڈیکر۔ مورس ٹیکسیاں اور تانگے رہڑے گھومتے پھرتے تھے۔ویسپا سکوٹر بھی ایک سٹیٹس سواری تھی۔ لاھور کی زندگی سینماٶں سے پُر تھی۔
سر شام گلی میں چارپائیاں۔پیڑھیاں بچھ جاتیں اور حقے کے دور کے ساتھ قہقہے چلتے۔ لڑکیاں علیحدہ ۔خواتین علیحدہ ٹولیوں کی شکل میں بیٹھی ہنس رہی ہوتیں۔لڑکوں کا شغل سائیکل۔سڑکیں۔سینما۔ باغات اور بہترین لباس تھا۔ سب سے اہم چیز جس نے مجھے متاثر کیا وہ لاھور کا کھلا ڈُلا ماحول اور کھلے ڈُلے لوگ تھے۔
میں جس سے بھی ملا چاہے وہ طلبا تھے یا محلے کے لوگ بہت پرتپاک طریقے سے ملتے اور بڑی اپنایت محسوس ہوتی۔ ہمارے ہاں والے سکولوں۔کالجوں۔محلوں کی طرح کی گُھٹن بالکل نہیں تھی۔ راتوں کو بیٹھ کے ہنسنا۔لطیفے۔قہقہے ۔باغوں کی سیر سب زندگی کا ایک حصہ تھا۔
کام بھی بڑی محنت سے کرتے اور زندگی کو انجاے بھی کھلے دل سے کرتے۔ ہمارے شھر ڈیرہ کا ماحول اور سکول کا ماحول بالکل ایک خاص اصولوں قواعد کا پابند تھا۔
اگرچہ میرا بچپن تھا اور میرا مشاھدہ بھی تیز نہیں ہوا تھامگر یہاں مجھے قدم قدم پر سڑیل مزاج لوگ ملتے۔ اکثر لڑکوں کے گھروں میں ریڈیو سیٹ رکھنا منع تھا۔
کچھ لڑکوں پر فلم دیکھنے کی پابندی تھی۔ لیکن لاھور میں ایک جدا فضا تھی۔یہی وجہ تھی کہ وہاں کے لوگوں کا رہن صحن ۔ڈریس۔ کھانے کی اقسام۔ رسم و رواج ۔صفائی ستھرائی کا معیار سب مجھے بہت متاثر کرتا اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ لاھور کے لوگ خوشی کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے اور خوب انجاے کرتے۔
یہ بڑی حیرت کی بات تھی کہ لاھور کے غریب امیر سب خوش باش اور مطمین زندگی گزار رہے تھے۔اس راز کا تو مجھے پتہ نہیں تھا لیکن بہت عرصے کے بعد ہاورڈ یونیورسٹی امریکہ کی ایک سٹڈی سامنے آئی جو وہ ستر سال سے کر رہے تھے کہ دنیا کے مطمین۔کامیاب اور خوش لوگ کون ہیں اور ان میں کیا خوبیاں ہوتی ہیں۔
چنانچہ جب اس سٹڈی کو شایع کیا گیا تو پتہ چلا دنیا کے سب سے زیادہ خوش اور مطمین لوگ دولتمند مند نہیں تھے بلکہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنے رشتے۔دوستیاں اور تعلقات نبھاے ۔ جو رشتوں میں دراڑوں کو مرمت کر دیتے اور رشتوں کے بندھن کو ٹوٹنے نہیں دیتے تھے وہ سب سے خوش اور مطمین نکلے۔
تو لاھور میں اس وقت ایسا ماحول تھا کہ سب مل جل کر ہنسی خوشی رہنا سیکھ چکے تھے اس کو اپنی ثقافت کا حصہ بنا چکے تھے سڑیل مزاجی اور رُسیمے دیکھنے کو بھی نہیں ملتے تھے کیا اپنے کیا پراے سب ایک لڑی میں پروے دانوں کی طرح آگے بڑھ رہے تھے۔
اب جو سائنسی فارمولا وجود میں آیا ہے وہ انسان کو چار جہتوں سے دیکھتا یا ناپتا ہے ۔نمبر ایک pq یا فزیکل کوشنٹ ہے اس میں انسان کی اچھی صحت کو دیکھا جاتا ہے کہ جو شخص صحت مند ہے وہ کیا کھا رہا اور زیادہ تو نہیں کھا رہا۔ وہ مناسب ایکسر سائیز اور نیند کر رہا ہےاور سب سے اہم چیز زندگی میں leasure time ہے بغیر کسی کام اور مطلب کے دوستوں میں بیٹھنا۔گپیں مارنا۔قہقہے لگانا اور خوش رہنا۔دوسرا نمبر Iq یا انٹیلیجنس کوشنٹ ہے جو اس کی ذہانت اور معاملات کو سمجھنے اور حل کرنے کی صلاحیت ظاہر کرتا ہے۔
اس کو تیز کرنے کے لیے آپ کو روزانہ کچھ سیکھنا پڑتا ہے کوئی کتاب پڑھیں کوئی ہنر سیکھیں بس اپنے آج کو گزشتہ کل سے بہتر بنائیں ۔تیسرا Eq یا اموشنل کوشنٹ یہ دیکھتا ہے کہ ایک شخص جذباتی طور پر کتنا متوازن ہے اور لوگوں کے ساتھ ڈیل کرنے میں کیا رویہ اختیار کرتا ہے۔
Eq میں سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ آپ کو غصہ زیادہ آتا ہے؟ اگر غصہ آتا ہے تو بس آپ تباہ ہیں کیونکہ دانش کی تمام صلاحیتیں غصہ چاٹ لیتا ہے۔
آپ دوسروں کے احساسات اور اپنے احساس کو سمجھ کر کوئی درمیانی صورت نکال سکتے ہیں تو کامیاب انسان ہیں۔چوتھا اور آخری نمبر Sq یا سپریچویل کوشنٹ کو دیا گیا ہے اس کا مذھبی لحاظ سے تو سیدھا مطلب روحانی شخصیت ہے لیکن اگر مذھب سے ہٹ کے دیکھیں تو اس کا مطلب ہے ایک شخص جو کام کر رہا وہ کسی بلند مقصد کے لیے یا بس اپنے مفاد کو سامنے رکھتا ہے۔
مثلا” ایک ڈاکٹر دن رات محنت کر کے اس لیے پیسہ کما رہا ہے کہ اس کی گاڑی بڑی۔بنگلہ بڑا ہو اور دوسرا ڈاکٹر اسی قسم کی محنت کر کے یہ سوچ رہا ہے میں فالتو پیسوں سے یتیم بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرونگا تو دوسرے ڈاکٹر کا مقصد بلند اگرچہ کام برابر ہے۔
تو جب یہ تمام ڈایمنشن اعلی مقاصد کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتے ہیں تو آپ خوش باش اور خوش قسمت انسان بن جاتے ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ