سیاست کے میدان میں گرماگرم خبریں ہیں’ رخصت ہوتے موسم کی جھلمل ہے اور لاہور میں رونق لگی یوئی ہے۔
پہلے کتابوں کا عالمی میلہ منعقد ہوا پھر زمین زادوں کا ”فیض امن میلہ”۔ اب لاہور لیٹریری فیسٹول ہو رہا ہے۔
زمین زادوں کا فیض امن میلہ اصل میں اشرافیہ کے فیض میلہ سے بغاوت ہے جہاں منہ بگاڑ کر انگریزی تلفظ میں اُردو بولنے والے فیض صاحب پر بات کرتے ہیں اوریہ عوامی قسم کا فیض امن میلہ۔ اس میں پاکستان بھر سے محنت کش’ طلباء وطالبات’ ادیب’ دانشور اور شاعروں سمیت افتاد گان خاک کی بڑی تعداد شرکت کرتی ہے۔
حسن اتفاق سے اس عوامی میلے کے محرکین میں پیش پیش فرخ سہیل گوئندی اور فاروق طارق ہمارے پرانے کرم فرما اور دوست ہیں مگر اس میلہ میں شرکت کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ پاکستان بھر سے آئے دوستوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔
بہت سارے بزرگ دوستوں کی قدم بوسی کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔ نئی نسل کے دوست ملتے ہیں’ گپ شپ’ تبادلہ خیال’ مکالمہ اور پھر نئی نسل کے دوستوں کی زندگی سے بھرپور جگتیں
اس بار بھی یہی ہوا، دانش اقبال کراچی سے آئے تھے، ان کا سوال تھا کہ فیض امن میلہ’ صرف لاہور میں ہی کیوں ملک کے دوسرے شہروں میں بھی منعقد ہونا چاہئے تاکہ جو لوگ لاہور تک نہیں پہنچ پاتے وہ اپنے اپنے شہروں میں زندگی’ علم اور زندہ فہم سے بھرپور اس طرح کے اجتماعات میں شرکت کرسکیں۔
بات تو دانش اقبال کی درست ہے۔ عوامی انداز میں فیض امن میلہ منعقد کرانے والے فرخ سہیل گوئندی اور فاروق طارق سمیت دوسرے دوستوں کو اس پر غور کرنا چاہئے۔
فیض احمد فیض بلند پایہ شاعر’ دانشور و ادیب اور عالمی شہرت کی حامل شخصیت تھے۔ اپنی جدوجہد اور ثابت قدمی سے انہوں نے اس ملک کی تین نسلوں کو متاثر کیا، ان کے چاہنے والوں کی تعداد اب بھی کم نہیں۔ اُردو بولنے’ لکھنے’ پڑھنے والے ان کے نام سے بخوبی واقف ہیں’ محنت کش اور طلباء کیساتھ سفید پوش اور نچلے طبقات کے پُرعزم سیاسی وسماجی کارکن اب بھی ان کے اشعار سے لہو گرم رکھتے ہیں۔
اشرافیہ کے زیادہ تر گھروں میں فیشن کے طور پر سہی فیض صاحب کی کتابیں موجود ہوتی ہیں مگر وہ حقیقت میں آزادی پسندوں’ مساوات اور قانون کی بالا دستی پر یقین رکھنے والوں کے محبوب شاعر ہیں۔
فیض نے خواب بوئے نہ خواب دکھائے، عملیت پسند انسان تھے’ زندگی بھر عملی طور پر جدوجہد کی قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔
فیض امن میلہ میں شرکت کیلئے آئے دوستوں’ بزرگوں’ اپنے اپنے ادوار میں پر عزم جدوجہد سے معروف ہوئے ترقی پسند ساتھیوں سے ملاقاتیں رہیں۔ ماسکو سے ڈاکٹر مجاہد مرزا بھی آئے ہوئے تھے۔ 1970ء کی دہائی کے ترقی پسند طالب علم راہنما ڈاکٹر مجاہد مرزا کی سوانح حیات
”پریشاں سا پریشاں”
کی دوسری جلد بھی شائع ہونے کو ہے۔
فیض امن میلہ کے مہمانوں کی بدولت دو تین دن بھرپور اور مصروف گزرے۔
مصروفیات اور ملاقاتوں کا سلسلہ تھما تو پھر اُداسی نے آن لیا۔
مسائل ومشکلات نے دستک دی۔
سو فقیر راحموں کے مشورے پر مرشد کریم حضرت سید عبداللہ شاہ بخاری المعروف بابا بلھے شاہ رح کے حضور حاضری دینے کی ٹھان لی۔
مبشر علی ایڈووکیٹ اور احمد سرفراز ایڈووکیٹ کا شکریہ دونوں دوست قصور پہنچنے کا وسیلہ بنے۔
یوں پچھلی سپہر ہم مرشد کے حضور حال دل بیان کر پائے۔
فقیر راحموں نے لگائی بھجائی کیساتھ مرشد کو چند شکایتیں بھی لگائیں مگر مرشد بڑے کریم ہیں، ہمیشہ کی طرح موتی لٹاتے رہے۔
پچھلی سپہر بھی ہم نے مرشد کے حضور عرض کیا
مرشد! زندگی تنگ ہوئی جاتی ہے تو وہ مسکراتے ہوئے بولے ”اس راستے پر چلنے کا فیصلہ خالص تمہارا اپنا تھا’ اب شکایات وشکوے کیسے”۔
ساعت بھر کیلئے مرشد نے سکوت کیا پھر بولے
”زندگی آدمی پر بوجھ نہیں بنتی اگر وہ زندگی پر بوجھ نہ بنے۔ حق یہ ہے کہ حق زندگی ادا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے”۔
خوب زمانے کے ستموں اور دوسرے معاملات پر اپنی عرضیاں پیش کیں۔ یہ بھی عرض کیا’ مرشد دن بدلتے ہیں مگر دن نہیں بدلتے۔
فرمانے لگے
”ہمت سے سفرحیات کرتے رہو دن بہرطور بدلیں گے۔ شکایت آدمی کو بے وقعت کر دیتی ہے”
مرشد کریم نے یوں بھی کہا
”جب زندگی حد سے گزرتی محسوس ہو تو بس ایک ساعت کیلئے نیلے آسمان کی اور دیکھ لیا کرو۔ مگر کہنا کچھ نہیں یار سے حساب ہوتا ہے نہ شکایت”۔
فقیر راحموں نے مرشد سے کہا یہ مایوسی کی بکل کو نصیب سمجھ بیٹھا ہے، سیدی بولے
"سب کچھ ممکن ہے مگر یہ مایوسی کی بکل کو نصیب نہیں سمجھ سکتا کہ اسے معلوم ہے مایوسی دیمک کی طرح زندگی چاٹ جاتی ہے”۔
مرشد کریم سیدی بلھے شاہ کے حضور حاضری سے ہمیشہ یہ محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی کا بوجھ کم ہوگیا ہو۔ پچھلی سپہر بھی جب ہم خانقاہ کی حدود سے نکل رہے تھے تو فقیر راحموں نے کہا
شاہ! اب بڑے چہک رہے ہو،
عرض کیا اب مرشد جانے’ آقائے صادق وکریم محمد مصطفیٰؐ اور رب العالمین۔ ہم نے جو عرض کرنا تھا کردیا۔
عین ان سموں میں سرمد یاد آئے جنہوں نے کہا تھا
”دوست جس حال میں رکھے اس پر شکوہ بنتا ہی نہیں۔ آدمی کو بس اپنے انتخاب پر زندگی بسر کرنی چاہئے”
مجھے یوں لگا جیسے مرشد کہہ رہے ہوں
”خواہشیں زندگی کو کھانے پر تل جائیں تو خواہشوں کو روند کر حق زندگی ادا کرنا واجب ہے”۔
پلٹ کر خانقاہ کے گنبد کی طرف دیکھا اور نم آنکھوں سے عرض کیا
مرشد!
ہم نے کبھی اپنے حصہ سے زیادہ کی خواہش ہی نہیں کی۔ جواب ملا
”تمہارا حصہ” یہ تم کیسے طے کرو گے۔ طلب کی بجائے ایثار کے راستے پر چلو مورکھ۔ دھمال رونے سے اور بانٹ دینا خواہش پالنے سے بہتر ہے”۔
مرشد فرما رہے تھے
”جو ہے اس پر قناعت کرو’ زندگی دعاؤں سے زیادہ جہد مسلسل مانگتی ہے۔ تم اپنے حصے کا کام کرتے رہو وہ اپنے حصے کا کام کرے گا یہی حق ہے”۔
بے اختیار میں کہہ اُٹھا مرشد!
یہ میرا ہی امتحانی پرچہ ہے کہ سارے جہاں کے امتحانی پرچے تھما کر دنیائے سرائے میں دکھیل دیا گیا ہوں؟۔ مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایا
”تجھے شوق تھا نا فقیر راحموں بننے کا’ بس بن گیا، اب جو ہو سو ہو”۔
میرا جی چاہا مرشد سے عرض کروں مگر اس سے قبل وہ فرمانے لگے
”خواب بنتے رہنے سے بہتر ہے تعبیروں کیلئے جدوجہد کرنا”۔ لمحہ بھر کے وقفے کے بعد مرشد گویا ہوئے۔
مرشد اعلیٰ امام علیؑ کا ارشاد یاد رکھا کرو
”آدمی پر فرض یہ ہے کہ وہ اپنے حصے کا سچ وقت پر بولے”
اور سچ یہی ہے
”بھلے شاہ اساں مرنا نا ہیں’ گور پیا کوئی ہور”۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر