نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان میں قومی زبانوں کا سوال اور وفاقیت کا تصور! ۔۔۔جامی چانڈيو

پاکستان میں ابتدا ہی سے وفاق کی بانی قومیتوں کی تاریخی قومی زبانوں کی قومی حیثیت سے انکار کی روش موجود رہی ہے۔

(An excerpt from my upcoming book on federalism)
ہم اس بات کا ذکر پہلے تفصیل کے ساتھ کر چکے ہیں کہ وفاقی نظاموں کے جواز کا ایک ستون لسانی٬ ثقافتی یا قومیتی تنوع ہوتاہے۔ اس لیے جن وفاقی ممالک میں لسانی و ثقافتی تنوع کا احترام ہوتاہے٬ اس کو آئین میں تسلیم کرکے آئینی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے٬ وہاں متنوع آبادیوں میں ثقافتی و لسانی تنازعات کم ہوتے ہیں اور جہاں ریاست اس کا انکار کرکے لسانی و ثقافتی وحدانیت پر زور دیتی ہے٬ وہاں اس قسم کے تنازعات کا ایک لامتناہی سلسلہ ناگزیر ہوتا ہے۔ اس لیے وفاقی ممالک میں تنوع کا سوال ہمیشہ ایک پیچیدہ سوال رہا ہے۔ ممتاز یورپی وفاقیت کے ماہرین سیزر کولینو اور لوئس مورینو اپنے مقالے ‘‘وفاقی ممالک میں کثیرجہتی اور یکجہتی پر تقابلی جائزے’’ میں لکھتے ہیں کہ: ‘‘اسی طرح کثیرنسلی یا کثیرقومیتی معاشروں میں نسلی یا سیاسی طور پر متحرک علاقائی یا خود توضیحی قومی شناختوں کا وجود حکمرانی اور اختلافات کے لئے گنجائش پیدا کرنے کے ضمن میں ایک اہم چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔”
وفاقی ممالک میں سماجی پہلوؤ ‏ں کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ:
کس حد تک کوئی ایک ثقافت یا نسلی گروہ یا کئی طرح کی علاقائی اقلیتیں حاوی ہیں۔ بعض صورتوں میں سیاس شناختیں زیادہ گہری اور سماجی طور پر متحرک ہوتی ہیں (سوئیٹزرلینڈ) یا اکثریتی ثقافت میں آسانی سے ختم ہو جاتی ہیں (جرمنی یا ریاست ہائے متحدہ امریکہ)۔ بعض اوقات وفاق کو سماجی طور پر متحرک قدیمی آبادی یا مقامی لوگوں کا سامنا ہوتا ہے (آسٹریلیا یا کینیڈا میں قدیم الاصل قومیتیں)۔
ii۔ کثیر جہتی کا تعلق کس حد تک وفاق کی اکائیوں میں علاقائیت، نسلی، لسانی، یا مذہبی اقلیتوں یا اکثریتوں سے ہے۔ بعض صورتوں میں نسلی و لسانی یا ثقافتی گروہ کی ایک جغرافیائی خطے میں رہ رہے ہوتے ہیں اور اقلیتیں اپنی اپنی قابلِ نشاندہی علاقائی شناختوں سے پہچانی جاتی ہیں (روس، کینیڈا یا سوئٹزرلینڈ )۔ دوسری صورتوں میں یہ گروہ وفاق کے سارے علاقے میں پھیلے ہوئے ہوتے ہیں (برازیل یا ریاست ہائے متحدہ امریکہ)، یا کثیرجہتی مختلف علاقوں اور گروپوں کے اندر بیک وقت پائی جاتی ہے (بھارت یا نائیجیریا)۔
iii۔ ایک وفاقی ملک میں وفاق کتنی اکائیوں پر مشتمل ہے۔ بعض وفاقی ریاستوں نے اپنی اکائیوں کی تعداد میں اضافہ کر کے ترقی کی ہے اور بعض میں دو یا تین اکائیاں ہی چلی آرہی ہیں اور بنیادی طور پر ان کی دو گروہی ہے۔ (امریکہ، یا سوئٹزرلینڈ بمقابل بیلجیئم)۔
iv۔ کس حد تک نمایاں طور پر علاقائی یا ایسی پارٹیاں، جو ملک بھر کی نمائندہ نہیں ہیں، وفاق کی اکائیوں میں حکومت کرتی ہیں یا وفاقی پارلیمنٹ میں نمائندگی کرتی ہیں (سپین)، اور کس حد تک یہ پارٹیاں وفاق میں مخلوط بنا پاتی ہے اور انہیں مناسب جائز حیثیت ملتی ہے۔ یا وہ بعض اکائیوں میں پوری آبادی کی نمائندگی کرنے میں ناکام رہتی ہیں (بیلجیئم)۔
V۔ کس حد تک سماجی و معاشی وسائل اور گروہی مفادات کسی علاقے میں مرکوز ہیں، یا مخصوص گروہ ان پر حاوی ہیں۔ اور مختلف وفاقی اکائیوں میں معاشی ترقی کی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے (برازیل، آسٹریلیا، ایتھوپیا اور نائیجیریا)
vi۔ کسی وفاقی ملک میں کس حد تک مختلف قسم کی کثیرجہتیں ایک دوسرے کو مضبوط کرتی ہیں یا ایک ہی وقت میں مختلف گروہوں میں پائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر ضروری نہیں کہ سوئیٹزرلینڈ میں مذہبی، لسانی یا نسلی شناختیں ایک دوسرے سے مطابقت رکھتی ہوں۔ ایتھوپیا میں کئی تفرقات مرکب صورت میں ہیں، اس لئے ان کے لئے جگہ بنانا زیادہ دشوار ہے۔
vii۔ وفاقی ملک میں کس حد تک علیحدگی پسند تحریکیں موجود ہیں اور کس حد تک وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے تشدد یا دہشت گردی میں ملوث ہوتی ہیں (روس یا سپین)۔
vi۔ مختلف نسلی و ثقافت یا علاقائی گروہوں یا افراد کو وفاق کی شہری انتظامیہ فوج، عدلیہ، تجارت یا اہلِ دانش کے اداروں میں کس حد تک جائز حق سے کم یا زیادہ نمائندگی ملی ہوئی ہے (روس، نائیجیریا)۔
پاکستان میں ابتدا ہی سے وفاق کی بانی قومیتوں کی تاریخی قومی زبانوں کی قومی حیثیت سے انکار کی روش موجود رہی ہے۔ جب مملکتوں یا ریاستوں کی نظریاتی بنیادیں ہی غلط اور تاریخ کی معروضیت کے برعکس رکھی جائیں تو پھر نہ صرف نیتیں بلکہ ذہنیتیں بھی خراب ہونگیں٬ جس کا اظہار قومی اسمبلی کی قانون اور انصاف کے بارے میں اسٹینڈ نگ کمیٹی کے ممبران نے بار بار کیا ہے۔ اب تو سات دہائیوں کی خودفریب٬ قوموں اور ان کی قومی زبانوں کے وجود سے انکار کی روش ایک جاہلانہ ذہنیت بن کر اس ملک کے حکمران طبقے کی فکری اور نظریاتی رگوں میں شامل ہو چکی ہے لیکن ملک کی پہلی دہائی میں جس گروہ نے ملک کی کثیرالقومی تشکیل٬ ان کے وجود اور زبانوں کی جداگانہ قومی شناختوں سے انکار کیا٬ اس کا محرک صرف سیاسی جہالت نہیں بلکہ بدنیتی تھا۔ ہندوستان میں ‘‘دو قومی نظریہ’’ کے مفروضے کی بنیاد پر ملک حاصل کرکے پھر اس میں جبراً ‘‘یک قومی نظریہ’’ مسلط کردیا گیا۔ اس خود فریب ‘‘یک قومی نظریہ’’ کے مفروضے کی بنیاد پر ہی ملک میں اردو کو واحد قومی زبان کے طور پر مسلط کیا گیا٬ جب کہ اردو پاکستان کی وفاق کی تشکیل کردہ پانچوں صوبوں میں سے کسی بھی صوبے یا اس میں مقیم تاریخی قومیتوں کی زبان مادری یا قومی نہیں تھی٬ نہ صرف یہ بلکہ اُس وقت اردو متحدہ پاکستان کے صرف 3.1 فیصد ہندستان سے ہجرت کرکے آنے والے لوگوں کی زبان تھی۔ تاریخ کا ایک اور دلچسپ پہلو تو یہ بھی ہے کہ اردو ان ہجرت کرکے آنے والے تمام افراد اور گروہوں کی مشترکہ مادری زبان بھی نہیں تھی۔ اردو صرف یوپی٬ سی پی سے ہجرت کرکے آنے والے لوگوں کی مادری زبان تھی٬ جب کہ ہجرت کرکے آنے والے افراد اور گروہوں میں گجراتی٬ میمن٬ کچھی٬ مارواڑی اور دیگر زبانیں بولنے والے افراد بھی شامل تھے۔ درحقیقت یہ لازمی نہیں کہ ہر سیاسی اور سماجی گروہ کی مادری زبان قومی زبان بھی ہو۔ دنیا میں قومی یا قومیتی زبان کی حیثیت کے اپنے معیار ہوتے ہیں اور اس کا سادہ اُصول تو یہ ہے کہ قومی زبان کے لیے ایک ساتھ قوم کا ہونا لازمی ہوتا ہے۔ گوکہ پاکستان کے ابتدائی برسوں بلکہ ایوب خان کے 1958ء کے مارشل لا تک ملک کی مکمل باگ ڈ ور پنجاب کے ساتھ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والی بیوروکریسی اور سیاسی قیادت کے پاس تھی لیکن تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ ملک میں قومی زبانوں کی قومی حیثیت سے انکار اور اردو کو ملک کی واحد قومی زبان کے طور پر مسلط کرنے میں ملک کے بانی محمد علی جناح نے بھی بنیادی کردار ادا کیا۔ دو قومی نظریے کے ساتھ بنیادی طور پر وفاقیت اور صوبائی خودمختاری کی بنیاد پر ملک حاصل کرنے والے محمد علی جناح نے ملک کے قیام فوراً بعد ہی صوبوں کے حقوق کی بات کو ‘‘صوبائی عصبیت’’ قرار دیا اور اردو کو ملک کی واحد قومی زبان کے طورپر مسلط کرنے پر زور دیا۔ 15 جون 1948ع کو کوئٹہ میونسپالٹی کی جانب سے دیے جانے والے استقبالیہ میں انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ:
‘‘برطانوی تسلط سے محفوظ رہنے کے لیے صوبائی خودمختاری اور مقامی آزادی کے ستون کھڑے کیے تھے٬ جنہیں کچھ لوگ ابھی تک چپکے ہوئے ہیں لیکن اب جب اپنی مرکزی حکومت ہے٬ جوکہ بالکل بااختیار ہے٬ لہٰذا فرسودہ اور غلط اصطلاحات پر سوچنا کمزور سہاروں کو چپکے رہنے کے مترادف ہے۔ یاد رہے کہ صوبائی عصبیت خواہ مقامی اور ذاتی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کرنا خودکشی ہوگی!’’ حوالہ
جناح صاحب نے 31 مارچ 1948ع کو ڈ ھاکہ میں واضح طور پر کہا کہ:
‘‘آپ پر لازم ہے کہ آپ بنگالی٬ سندھی٬ پنجابی٬ بلوچی اور پختون وغیرہ کی باتیں نہ کریں۔ آپ صرف ایک قوم ہیں٬ اور ایک ہی مملکت سے وابسطہ ہیں۔ یہ مملک نہ پنجابی کی ہے٬ نہ بنگالی کی٬ نہ سندھی کی ہے نہ بلوچی کی’’۔ حوالہ
جناح صاحب کی اس تقریر پر مشرقی بنگال میں شدید ردعمل سامنے آیا۔ خود مسلم لیگ مشرقی بنگال میں اس سوال پر تقسیم ہو گئی۔ خود مولانا بھاشانی بھی لسانی تحریک کے پُرجوش حمایتی تھے۔ شیخ مجیب الرحمان چونکہ اس جلسے میں موجود تھے اس لیے انہوں نے اپنی سوانح حیات ‘‘ادھوری یادیں’’ میں اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
19 مارچ کو جناح صاحب ڈھاکا کے تیج گاؤں ایئرپورٹ پر اترے ۔ ہزاروں لوگ ان کا استقبال کرنے کے لیے وہاں گئے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ اس روز شدید بارش ہورہی تھی۔ ہم بارش میں بھیگ گئے تھے، اس کے باوجود ہم بھیگے کپڑوں ہی میں ان کا استقبال کرنے کے لئے ایئرپورٹ پر انتظار کرتے رہے۔ جناح صاحب ریس کورس کراؤنڈ گئے اور وہاں انھوں نے ایک عظیم الشان جلسے میں اعلان کیا، "اردو پاکستان کی واحد سرکاری زبان ہوگی” ہم چار پانچ سو طالبِ علم میدان کے ایک کونے میں بیٹھے تھے۔ جناح صاحب کے یہ کہنے پر ہم میں سے بہت سوں نے احتجاجاً ہاتھ اٹھائے اور چِلا کر بولے "نہیں، نہیں”۔ بعد میں جب وہ ڈھاکا یونیورٹی کے کانووکیشن سینٹر میں گئے اور وہاں دورانِ تقریر اعلان کیا کہ "اردو پاکستان کی واحد قومی زبان ہوگی” تو ان کے سامنے بیٹھے ہوئے طلبا چِلا اٹھے، "نہیں نہیں، نہیں”۔ جناح صاحب تقریباً پانچ منٹ تک خاموش رہے، اس کے بعد انھوں نے دوبارہ اپنی تقریر شروع کی۔ مجھے یقین ہے کہ یہ پہلا موقع تھا جب بنگالی طالب علموں نے ان کی مخالفت کرنے کی جرأت کی تھی۔ اس کے بعد وہ جب تک زندہ رہے، انھوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ اردو کو پاکستان کی واحد سرکاری زبان بنانا چاہتے تھے۔
چونکہ زبان کے سوال پر مشرقی بنگال میں خود مسلم لیگ تقسیم ہوگئی تھی٬ اس حوالے سے ان حالات کو قلمبند کرتے ہوئے شیخ مجیب الرحمان لکھتے ہیں کہ:
ڈھاکا میں جناح صاحب نے اس وقت کی دو مرکزی طلبہ تنظیموں کے نمائندوں کو بات چیت کے لیے بلایا۔ ان نمائندوں کا تعلق مشرقی پاکستان مسلم طلبا لیگ اور کُل مشرقی پاکستان مسلم طلبا لیگ سے تھا۔ ممکن ہے کہ انھوں نے آل پارٹی اسٹیٹ لینگویج ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کو بھی مدعو کیا ہو، اب اس بارے میں، میں یقین سے کچھ نہیں کہ سکتا۔ انھیں یہ بات پسند نہیں آئی تھی کہ اس وقت طلبا کی دو مختلف تنظیمیں موجود تھیں ۔ مسٹرطٰحٰہ اور شمس الحق صاحب نے ہماری نمائندگی کی مگر مجھے ان کے ساتھ جانے کے لیے نہیں کہا گیا تھا۔ جناح صاحب کو ہماری تنظیم کا نام پسند آیا۔ ہمارے نمائندوں نے کُل پاکستان مسلم طلبا لیگ کے سربراہ اور کارکنوں کے ناموں پر مشتمل فہرست جناح کر پیش کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش بھی کی ان میں سے بیشتر کُل وقتی ملازمت کر رہے تھی یا تعلیمی سلسلہ منقطع کر چکے تھے۔ جناح صاحب نے یہ سب جان کر برہمی کا اظہار کیا تھا۔ پاکستان کی سرکاری زبان کے مسئلے پرشمس الحق صاحب کی جناح صاحب سے بحث بھی ہوئی تھی۔ حق صاحب نے ملاقات سے واپسی پر بذات خود یہ بات مجھے بتائی تھی۔ شمس الحق صاحب ایسے آدمی تھے کہ جو وہ درست سمجھتے تھے، کہہ دیتے تھے۔ حق گوئی کے معاملے میں وہ کسی سے ڈرتے نہیں تھے۔
ڈھاکا سے جناح صاحب کی روانگی کے چند روز بعد فضل الحق ہال کے سامنے طلبا کا اجلاس ہوا تھا۔ ایک طالب علم، جس کا نام اب مجھے یاد نہیں، نے اپنی تقریر میں کہا: "جناح صاحب نے ہم سے جو کچھ کہا ہے ہمیں اسے تسلیم کرنا ہوگا ۔ چونکہ وہ اردو کو سرکاری زبان بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اسے سرکاری زبان مان لینا چاہیے۔” جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے اپنی تقریر میں طالب علم کے اس بیان پر اعتراض کیا تھا۔ میں نے کہا تھا، "اگر کوئی بھی رہنما کوئی ایسا کام کرتا ہے جو غلط ہے تو عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ اس کے خلاف احتجاج کریں اور اسے اپنی بات سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کریں۔ اس سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثال موجود ہے جب عام لوگوں نے ان سے لمبا کرتا زیب تن کرنے پر سوال کیا تھا۔ پاکستان کے ۵۶ فی صد عوام بنگالی زبان بولتے ہیں، یہ ایک جمہوری ملک ہے اس لیے اکثریت کا مطالبہ پورا ہونا چاہیے۔ ہم اس وقت تک اپنی تحریک جاری رکھیں گے جب تک کہ بنگالی ریاستی زبان نہیں بن جاتی۔ یقینی طور پر ہم اس مقصد کے لیے کام کرنے کو تیار ہیں۔” وہاں موجود طلبا نے میری تائید کی۔ اس کے بعد پاکستان کے طلبا اور نوجوانوں نے بنگالی کو سرکاری زبان بنانے کے اپنے مطالبے کی حمایت میں جلسے جلوسوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ ہر گذرتے دن کے ساتھ اس مطالبے کی عوامی حمایت میں اضافہ ہوتا رہا۔ چند ماہ میں ہی ظاہر ہو گیا تھا کہ کُل مشرقی پاکستان مسلم طلبا لیگ اپنی حمایت کھو چکی تھی۔ یہ پارٹی صرف چند "رہنماوں” تک محدود رہ گئی تھی جن کا کام صرف وزراء کے آگے پیچھے رہنا اور ہر معاملے میں حکومت کی حمایت کرنا تھا۔
شیخ مجیب الرحمان مزید لکھتے ہیں کہ:
بنگالی کو قومی زبان بنانے کی تحریک صرف ڈھاکا شہر تک محدود نہیں تھی۔ اس مقصد کے لیے فریدپور اور جیسور میں بھی کئی سو طالب علم جیل گئے تھے۔ راج شاہی، کھلنا، دیناج پور کے علاوہ اور بھی کئی اضلاع میں اس مقصد کی حمایت میں تحریکیں شروع کی گئی تھیں ۔ مشرقی پاکستان مسلم طلبا لیگ نے تحریک کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی لیکن بالآخر ناکام رہی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ تحریک طلبا نے اپنے طور پر شروع کی تھی، مگر بعد میں یہ ظاہر ہو گیا تھا کہ عوام بھی بنگالی کو سرکاری زبان بنائے جانے کے حامی تھے۔ یہاں سرکاری ملازمین کا خاص طور سے ذکر ہونا چاہیے جنھوں نے دل و جان سے اس تحریک کی حمایت کی ۔ جب انجینئرنگ کالج کے طلبا پرغنڈوں کے ایک گروہ نے حملہ کیا تو پلاسی بیرک سے سرکاری ملازمین ان کا مقابلہ کرنے کے لیے آ گئے تھے، جس کے نتیجے میں غنڈوں کو مار کھا کر بھاگنا پڑا تھا۔ یہ ظاہر ہو گیا تھا کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ زبان کے مسئلے پر ڈھاکا کے لوگوں نے اپنی رائے تبدیل کر لی تھی۔
اسی طرح 15 جون 1948ع کو کوئٹہ میں شہری سپاسنامے کے جواب میں انہوں نے کہا کہ: ‘‘ہم نہ بلوچ ہیں نہ پٹھان٬ نہ سندھی ہیں اور نہ بنگالی اورنہ پنجابی رہے ہیں۔ ہمارے احساسات اور عوامل صرف پاکستانی ہونے چاہییں۔’’ یہاں تک کہ 11 اگست 1947ع کی اپنی مشہور تقریر میں جہاں انہوں نے ایک طرف اپنے ہی فرقہ پرست دو قومی نظریے کو رد کرکے بہتر کیا وہاں پر ہی انہوں نے پاکستانی قومیت کے غلط تصور اور ‘‘یک قومی نظریے’’ پر زور دیا٬ جو کہ وفاقیت کے اُصولوں کی صریحا ًنفی تھا۔چنانچہ مسلم لیگ نے اصل غداری سر سید٬ اقبال اور جناح سے نہیں بلکہ اختیارات کی مرکزیت کے خلاف جدوجہد٬ 1940ع کی لاہور قرارداد اور پاکستان میں شامل ہونے والی قومیتوں کے درمیان سماجی معاہدے اور بالخصوص مظلوم اقوام سے کی٬ جس میں ‘‘کھوٹے سکوں’’ کے ساتھ خود ملک کے بانی محمد علی جناح کے کردار کو بھی ہرگز معاف نہیں کیا جا سکتا۔ کانگریس کے منافقانہ اور مرکزیت پسند کردار کے خلاف مزاحمت پر جہاں پر جناح صاحب کا کردار قابلِ تعریف ہے وہاں پر ‘‘دو قومی نظریہ’’ کی تشکیل اور قیامِ پاکستان کے بعد صوبائی خودمختاری کو رد کرنے٬ ‘‘اردو’’ کو بطور واحد قومی زبان مسلط کرنے اور مفروضاتی اور خود ساختہ ‘‘ایک قومی نظریہ’’ پر زور دینے پر انہیں قطعی طور پر معاف نہیں کیا جا سکتا۔ کیوں کہ اس کے بدترین نتائج ہم آج بطور ایک وفاقی ملک کے بھگت رہے ہیں۔ جناح صاحب کو یہ معلوم اور اس بات کا احساس ہونا چاہیے تھا کہ نام نہاد اور مفروضاتی پاکستانی قوم کے نام پر ان کے کھوٹے سکے اور پنجابی – مہاجر مستقل مفاد کے علمبردار اس نومولود مملکت کی مظلوم قومیتوں کے عوام کے ساتھ مستقبل میں کیا حشر برپا کریں گے؟ ملک کے موجودہ کثیرالجہتی ریاستی بحران کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے۔
درحقیقت وفاقیت کی بنیاد ہی ریاست کی کثیرالقوامی٬ کثیرالنسلی٬ کثیرالمذہبی٬ کثیرالعلاقائی اور کثیرلسانی تشکیل پر ہوتی ہے۔ زبانوں کی تکثیریت اس میں بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ موجودہ دؤ ‏ ر میں دنیا کے اندر رسماً 28 وفاقی مملکتیں ہیں اور غیر رسمی طور پر 60 سے زائد ممالک میں عملاً وفاقیت یا نیم وفاقیت کا نظام رائج ہے اور درحقیقت دنیا میں پاکستان کے علاوہ کوئی بھی ایک وفاقی ملک ایسا نہیں جس کی قومی زبان ایک ہو۔ وفاقی ممالک کی دفتری یا (لوگوں اور صوبوں کے درمیان) رابطے کی زبانیں تو ایک یا ایک سے زیادہ ہوتی ہیں لیکن کسی بھی وفاقی ملک میں ایک قومی زبان کا تصور نہیں ہوتا۔ کیوں کہ وفاقی ممالک ہوتے ہی کثیرالقومی ہیں اور وفاقیت کی بنیادی روح ہی مفروضاتی یکسانیت (Uniformity) کی بجائے ‘‘کثرت میں وحدت’’ یعنی (Unity in Diversity) ہوتی ہے۔ حقیقی وفاقی نظام میں نہ صرف قومیتوں کی زبانوں کو آئینی طور پر قومی زبانوں کا درجہ حاصل ہوتا ہے بلکہ ان کی ترقی اور تحفظ کے لیے بھی باقاعدہ کُل وقتی ادارے قائم کیے جاتے ہیں۔ اس سوچ کے تحت کثیرالقومی ریاست کی خودمختار اقوام/ صوبوں کی قومی زبانوں کی حیثیت کو وفاق کی بدبختی یا کمزوری کی بجائے قوت سمجھا جاتا ہے۔
انیسویں اور بیسویں عیسوی صدیوں میں برطانیہ کے اندر آئرش تحریکِ آزادی٬ جنوبی سوڈان میں طویل خانہ جنگی٬ اسپین میں فرانکو راج کے اندر باسک بغاوت٬ کینیڈ ا میں کیوبیک فرینچ تحریکِ آزادی٬ نائجیریا کے اندر قومی تضاد٬ بیلجیم کے اندر فرانسسی اور فلیمش تضاد اور یہاں تک کہ پاکستان کے اندر قومی تضاد کی صورتیں بنیادی طور پر اسی غیرفطری یکسانیت کو زبردستی مسلط کرنے اور ‘‘کثرت میں وحدت’’ کے فطری اُصول کی حقیقت اور تصور سے انکار کا ہی منطقی نتیجہ تھیں لیکن دنیا کے وفاقی ممالک نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی ماضی کی غلط سوچ٬ وحدانی طرز کے وفاقی نظام کے تلخ تجربات سے سبق حاصل کرکے وفاق کے اندر شامل اقوام اور ان کی تاریخی زبانوں کی قومی حیثیت کو تسلیم کر لیا ہے۔ نتیجتاً ان ممالک کے اندر اب قومی یا ثقافتی و لسانی تضادات کافی حد تک تھم گئے ہیں۔ آئیے اس ضمن میں دیگر وفاقی ممالک کی قومی زبانوں کے بارے میں پالیسیوں کا جائزہ لیں۔
بھارت میں گوکہ ہندی اور انگریزی دفتری زبانیں ہیں لیکن اس کے باوجود آئینی طور پر 22 زبانوں کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے اور صوبے یا ریاستیں بھی ان 22 قومی زبانوں میں سے کسی بھی زبان کو اپنے صوبے میں بطور دفتری زبان نافذ کرنے میں مکمل طور پر خودمختار ہیں ۔ نائجیریا میں گوکہ انگریزی کے ساتھ تین مقامی تاریخی زبانوں کو دفتری زبان کا درجہ حاصل ہے لیکن اس کے باوجود 45 زبانوں کو آئینی قبولیت اور تحفظ حاصل ہے۔ ایتھوپیا میں انگریزی اور عربی سمیت دو اہم مقامی زبانوں کو دفتری زبان کی حیثیت حاصل ہے لیکن اس کے باوجود 83 زبانوں کو آئینی طور پر قومی زبانوں کا درجہ حاصل ہے۔ (اس کی حقيقت 2014ع میں میاں رضا ربانی٬ افراسیاب خٹک٬ بشریٰ گوہر٬ ڈ اکٹر سید جعفر احمد٬ ظفراللہ خان٬ ڈ اکٹر رسول بخش رئیس اور چند دیگر ماہرین وفاقیت ساتھیوں کے ہمراہ میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آیا ہوں)۔ دنیا کی سب سے اوائلی کنفیڈریشن یعنی سئٹزرلینڈ جو اب بھی دنیا کی واحد آئینی فیڈ ریشن ہے٬ اس کی بھی چار قومی اور تین دفتری زبانیں ہیں اور بیک وقت انہیں صوبوں (جنہیں وہاں پر Cantons کہا جاتا ہے) میں بھی قومی اور دفتری زبانوں کی حیثیت حاصل ہے۔ کینیڈ ا میں گوکہ فرینچ آبادی کی صرف ایک صوبے کیوبیک میں اکثریت ہے اور باقی تمام تر آبادی کی مادری زبان انگریزی ہے لیکن اس کے باوجود تین زبانوں یعنی انگریزی٬ فرانسسی اور ہسپانوی (جسے وہاں پر Castilian کہا جاتا ہے) کو دفتری اور قومی زبانوں کا درجہ حاصل ہے۔ ہاں البتہ تمام وفاقی ممالک میں اکثریتی قابلِ فہم زبانوں کو رابطے کی زبان کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ جس کا مطلب قومی زبان ہرگز نہیں ہوتا۔ مثلاً ایتھوپیا میں عربی ٬ اسپین میں کاسٹیلین ہسپانوی ٬ بھارت میں ہندی اور انگریزی٬ روس میں روسی اور نائجیریا میں بھی انگریزی رابطے کی زبانیں ہیں۔ اسی اُصول پر اگر پاکستان میں اردو کو صرف رابطے کی زبان قرار دیا جائے اور صوبوں میں مقیم مقامی اقوام یعنی پنجابیوں٬ سرائیکیوں٬ سندھیوں٬ بلوچوں اور پشتونوں کی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے تو ملک میں زبانوں کی حیثیت پر تنازعے کا حل ممکن ہے۔
پاکستان میں ابتدا ہی سے یہ خودفریب مفروضہ عام کیا گیا ہے کہ اگر تمام قومی زبانوں کو آئینی طور پر تسلیم کیا گیا تو ملک کے وجود کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ لیکن در حقیقت اس مفروضے کے برعکس کثیرالقوامی وفاقی ممالک کی بقا ٬ ترقی ہی اسی صورت میں ممکن ہے جب اقوام کے وجود٬ ان کے صوبوں/ ریاستوں کی مکمل خودمختاری اور ان کی زبانوں٬ ثقافت کو نہ صرف تسلیم کیا جائے بلکہ انہیں آئینی٬ قانونی اور سیاسی تحفظ بھی فراہم کیا جائے۔ کینیڈ ا٬ اسپین٬ بیلجیم٬ نائجیریا٬ ایتھوپیا اور سوئٹزرلینڈ جیسے ممالک اس کا واضح ثبوت ہیں۔ اس مفروضے کو غلط ثابت کرنے کے لیے خود پاکستان کی مثال ہی کافی ہے۔ 1971ع میں ملک جن محرکات کی وجہ سے تقسیم ہوا٬ ان میں ایک تاریخ محرک بنگلا جیسی تاریخی٬ قدیم اور امیر زبان کی قومی حیثیت سے انکار بھی تھا٬ جس کے ردعمل میں بنگالیوں نے مزاحمت کی اور اس جدوجہد اور قربانی کے نتیجے میں ہی اقوام متحدہ کی جانب سے 21 فروری کو مادری زبانوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔(21 فروری 1952ع کو ڈ ھاکہ میں بنگالی زبان کی قومی حیثیت کے لیے جدوجہد کرنے والے طلباء پر گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی ٬ جس کے نتیجے میں چار طلباء رفیق٬ برکت٬ جبار اور سلام شہید ہوگئے تھے)۔ گو کہ بنگالیوں کی جدوجہد کے نتیجے میں 1956ع کے دستور میں بنگالی زبان کو آئینی طور پر قومی زبان تسلیم کرلیا گیا لیکن تب تک جو ‘‘اعتماد کا بحران’’ پیدا ہونا تھا سو ہو چکا تھا اور یہ قدم بنگالیوں کے لہو لہان کلیجے پر مرہم ثابت نہ ہو سکا٬ کیوں کہ ان کا قومی استحصال بدستور جاری تھا۔ مہرالنساء علی اس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ:
لسانی تنازع جو اردو اور بنگالی کی صورت میں پوری طرح واضح ہوگیا تھا، مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان اختلاف کا بڑا عنصر تھا۔ پاکستا ایک کثیرلسانی مملکت ہے جیساکہ پہلے ہی بیان کیا جا چکا ہے۔ مغربی پاکستان میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں جب کہ مشرقی پاکستان بااعتبار زبان یکساں اکائی تھا۔ اُردو پاکستان کے کسی علاقے کی زبان نہیں تھی لیکن اس کو مغربی پاکستان کی مشترکہ زبان سمجھا جاتا تھا۔ تقسیم سے قبل اُردو مسلمانوں کی خاص زبان تھی، اس طرح اس نے ہندو مسلم مخاصمت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ برصغیر کے بڑے حصہ میں اُردو بولی اور سمجھی جاتی تھی جب کہ بنگالی صرف ایک صوبے تک محدود تھی۔ اصل تنازع یہ تھا کہ آیا پاکستان کی سرکاری زبان ایک ہونی چاہیے یعنی اردو یا دو زبانیں یعنی اُردو اور بنگالی؟
بنگالی زبان کے حامیوں کے مطالبہ کی دو بنیادیں تھیں ۔ اول یہ کہ اکثریت کی زبان بنگالی تھی، دوم یہ کہ دو لسانی فارمولا، دونوں بازوؤں کے مابین مضبوط بندھن اور بہتر افہام و تفہیم کا سبب بنے گا اور اس طرح اتحاد کا رشتہ مضبوط ہوگا۔ ملک کے لئے واحد سرکاری زبان کے حامیوں کا کہنا ہے تھا کہ لسانی یکسانیت بازوؤں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کا شعور بیدار کرنے کے لئے ضروری ہے۔ کیوں کہ وہ پہلے ہی جغرافیائی اور ثقافتی اختلافات کی وجہ سے تقسیم ہیں۔ چنانچہ ایسی صورت میں دو سرکاری زبانوں کا مطلب ہوگا کہ دونوں بازوؤں کے درمیان پہلے سے قائم خلیج کو اور زیادہ وسیع ہونے کا موقع دیا جائے ۔ ایک زبان کے مودین نے مزید زور دے کر کہا کہ جب ہندوستان کے کے مسلمانوں نے اپنے جداگانہ مذہب، ثقافت اور زبان کی بنیاد پر ایک قوم ہونے کا دعویٰ کیا تو زبان کے معاملے میں ان کے ذہنوں میں اُردو کا تصور تھا نہ کہ کسی صوبائی زبان کا۔
آزادی کے وقت مسلم لیگی لیڈروں میں یہ مفاہمت موجود تھی کہ اُردو پاکستان کی قومی زبان ہوگی۔ ۱۹۴۸ء میں اسمبلی میں ایک ہندو بنگالی کانگریسی رکن مسٹر ڈی این دتا (D.N.Duta) کی اس تحریک کا کہ ایوان کی کارروائی میں اُردو کے ساتھ بنگالی کو بھی استعمال کیا جائے، وزیراعظم لیاقت علی خان نے جواب دیا کہ:
"پاکستان ایک مسلم مملکت ہے اور اس کی "لنگوا فرینکا” (یعنی رابطے زبان) کو مسلم قوم کی زبان ہونا چاہیے۔ محرك کو اس امر کا ادراک کرنا چاہیے کہ برصغیر کے ۱۰۰ ملین مسلمانوں کے مطالبات کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا ہے اور ۱۰۰/ ملین مسلمانوں کی زبان اردو ہے ….. ايك قوم ہونے کے ناتے یه ضروری ہے کہ اس کی واحد زبان ہو اور وه زبان صرف اردو ہی ہوسکتی ہے اور کوئی نہیں۔”
بعد میں مارچ ۱۹۴۸ء میں ڈھاکا کے ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناح نے واشگاف الفاظ میں کہا:
"میں صاف اور واضح الفاظ میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ جہاں تک بنگالی زبان کا تعلق ہے اس بات میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ آپ کی معمول کی زندگی میں کوئی خلل ڈالا جائے گا۔ لیکن بالآخر آپ کے ہی صوبه کے لوگوں کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آپ کے صوبے کی زبان کیا ہوگی؟ لیکن میں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی اور کوئی دوسری زبان نہیں۔”
قائداعظم محمد علی جناح کے واحد سرکاری زبان کے حق میں دیے گئے دلائل بنگالی زبان کے حمایتیوں کو مطمئن نہ کر سکے اور وہ انسانی مسئلے پر اپنے عدم اطمینان کے اظہار میں آواز بلند کرتے رہے۔ یہ عدم اطمینان اس وقت کھل کر سامنے آیا جب مجوزہ دستور کے بارے میں عبوری رپورٹ (پہلا مسودہ) شائع ہوئی۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی تھی کہ اردو، مملکت کی قومی زبان ہوگی ۔ مشرقی بنگال کے لوگوں نے اس رپورٹ کے خلاف شدت سے احتجاج کیا۔ مشرقی بنگال کے طلباء، سیاسی جماعتوں اور پریس نے بنگالی زبان کو پاکستان کی سرکاری زبانوں میں سے ایک زبان بنانے کے لئے مہم چلائی۔ بنگالی کو سرکاری زبان کی حیثیت دینے کا مطالبہ، یونائیٹڈ فرنٹ کے ۲۱ نکاتی پروگرام میں بھی شامل کیا گیا۔ بنگالیوں کے احتجاج کی وجہ سے حکومت کو ان کا مطالبہ ماننے پر مجبور ہونا پڑا اور نتیجتاً دستور ساز اسمبلی کے اختیار کردہ "محمد علی فارمولا” (تیسرا مسودہ) ۱۹۵۴ء میں اُردو اور بنگالی کو سرکاری زبانوں کی حیثیت سے تسلیم کرلیا گیا۔ اسی وقت یہ بھی طے پایا کہ انگریزی سرکاری زبان کی حیثیت سے بیس سال تک راج رہے گی ۔ یہ امید کی گئی کہ مملکت پاکستان آئندہ ایک مشترک زبان کی ترقی ونشوونما کے لئے ہر ممکن اقدامات کرے گی ۔ چنانچہ دو لسانی قارمولے کو اختیار کرکے شکایت کا ایک بڑا منبع بند کردیا گیا۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ایسے حالات میں دو لسانی فارمولا ہی واحد قابلِ قبول حل نظر آتا تھا۔
سندھی عوام نے پاکستان کے اندر ابتدا ہی سے ان کے ساتھ ہونے والے دھوکے کے خلاف ہر دؤ ‏ ر میں آواز بلند کی ہے۔ سندھی زبان کو آئینی طور پر قومی زبان تسلیم کرانا سندھ کی قومی جدوجہد کا ایک اہم نقطہ اور محرک رہا ہے اور اس ضمن میں سندھی ادبی سنگت٬ سندھ کی سیاسی جماعتوں٬ دانشوروں٬ ادیبوں٬ شاعروں اور معاشرے کے تمام باشعور مکاتب فکر کا کردار انتہائی متحرک اور متحد رہا ہے۔
جب تک وفاقی سطح پر قومی زبانوں کو آئینی طور پر بطور قومی زبان تسلیم کیا جائے تب تک آئین کے آرٹیکل 251/3 کی رو سے ملک کی تمام صوبائی اسمبلیاں اپنی صوبائی زبانوں کو صوبائی سطح پر دفتری زبانوں کے طور پر رائج کریں۔ اس سلسلے میں صوبہ سندھ پہلے ہی 1972ع میں پہل کر چکا ہے اور سندھ ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں سندھی زبان کو رسمی طور پر صوبائی دفتری زبان کا درجہ حاصل ہے٬ وہ الگ بات ہے کہ اس پر عمل ہونا ہنوز باقی ہے۔
قومی اسمبلی کی قانون اور انصاف کے بارے میں اسٹینڈ نگ کمیٹی نے اکثریتی رائے سے قومی زبانوں کے بارے میں مسلم لیگ (ن) کی رکن ماری میمن کی جانب سے پیش کردہ بل اس بنیاد پر رد کر دیا تھا کہ ‘‘ایک قوم’’ کی قومی زبان ایک سے زیادہ نہیں ہو سکتیں اور صوبائی زبانوں کو قومی زبان تسلیم کرنے سے علیحدگی پسندوں کی سوچ کو تقویت ملے گی۔ کمیٹی کے اس فیصلے کے بعد وفاقیت کے نظام کو سمجھنے والے اس شدید تذبذب میں مبتلا رہے کہ اس بات کو مذکورہ ممبران کی صریحاً بدنیتی سمجھا جائے یا اس میں وفاقیت کے نظام سے لاعلمی یا سیاسی جہالت کا بھی بنیادی عمل دخل ہے۔ اگر قومی اسمبلی کی قانونی اور انصاف کی اسٹینڈ نگ کمیٹی کے سیاسی شعور اور وفاقیت کے بارے میں علم کا یہ حال ہے تو پھر اس پارلیمنٹ کی اور کون سی کمیٹی ہے جس سے کسی دانشمند اور نیک نیت فیصلے کی امید کی جا سکتی ہے؟ یہ حال صرف مسلم لیگ (ن) کے اکثریتی ممبران پر مشتمل قومی اسمبلی کا ہی نہیں بلکہ اس سے قبل بھی تین مرتبہ قومی اسمبلی سے نواب یوسف ٹالپر٬ مجیب پیرازادہ اور ماروی میمن کی جانب سے پیش کردہ بل رد کیے جا چکے ہیں۔ جب کہ اے این پی کے حاجی عدیل نے بھی سینٹ میں اس قسم کا بل پیش کیا تھا اور اس کے بعد سینیٹر ڈ اکٹر کریم خواجہ اور اس جماعت یعنی پاکستان پیپلز پارٹی کے دو ارکانِ سینٹ محترمہ سسئی پلیجو اور عاجز دھامراہ نے بھی سینٹ میں دو مختلف بل پیش کیے٬ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ یا کوئی بھی ایسا بل جو وفاق کی وحدتوں اور قومیتوں کی قومی زبانوں یا ملک کی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دینے کا حامل ہو٬ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے اکثریتی رائے سے پاس ہو سکتا ہے؟
افسوس کہ ملکی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کےممبران کی اکثریت وفاقیت کا یہ بنیادی سوال سمجھنے سے قاصر ہے کہ کون سی مفروضاتی ‘‘ایک قوم’’؟ وفاقی نظام تو پوری دنیا میں کثیرالاقومی ہوتے ہیں۔ وفاقی نظام ایک ملک اور ایک ریاست تو ہوتا ہے لیکن ایک قوم کس طرح سے ہو سکتا ہے؟ دنیا میں کون سا حقیقی وفاقی ملک ہے جو معاشرتی٬ ثقافتی٬ لسانی یا تاریخی معنوں میں ایک قوم ہونے کی دعویٰ کرے؟ یہاں تک کہ وہ وفاقی ملک بھی ایسی دعویٰ نہیں کر سکتے جہاں پر 80 فیصد سے زائد اکثریت ایک قوم کی ہوتی ہے٬ جیساکہ سوئٹزرلینڈ جہاں پر جرمن آج بھی 88 فیصد ہیں۔
پاکستان کا شمار دنیا کے اُن چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر 70برس گذرنے کے باوجود کلیدی اور پیچیدہ ریاستی٬ آئینی اور سیاسی معاملات کا حل تو کُجا ؛ سادہ اور سہل معاملات بھی اُلجھے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ ہرگز یہ نہیں کہ اس ملک کا معاشرہ اپنے معاملات اور مسائل حل کرنے کی سیاسی صلاحیت سے عاری ہے بلکہ در حقیقت اس کی وجہ ایک ‘‘مخصوص ذہنیت’’ہے٬ جو کہ ملک کی فکری٬ آئینی اور سیاسی معاملات پر قابض ہو کر اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ذہنیت یکسر کارفرما نہیں بلکہ اس کا تعلق ناجائز مفادات کی مربوط گروہ بندی اور مجموعی طور پر اس ریاستی جمود سے ہے جو کہ بظاہر تو آئینی٬ سیاسی٬ سماجی اور ثقافتی یا اقتصادی صورتوں میں مختلف نظر آتا ہے لیکن تعصب اور استحصال پر مبنی بظاہر ان مختلف صورتوں کے درمیان ایک بنیادی تعلق ہے٬ جسے ملک کا حکمران طبقہ ‘‘قومی مفاد’’ کا نام دیتا رہا ہے۔ لہٰذا پاکستان میں مشمولہ اکائیوں اور قومیتوں کے استحصال اور ان کے ساتھ متعصبانہ صورتیں بظاہر کتنی ہی مختلف نظر آتی ہوں لیکن ان کا باہمی طور پر گہرا تعلق ہے٬ اس لیے یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ پاکستان میں ثقافت اور زبان کے معاملات میں تعصبانہ روش بھی ریاستی قومی تضاد اور سوال کی ہی ایک شکل ہے۔ جو کہ نہ صرف تاحال حل نہیں ہو سکا بلکہ مستقبل قریب میں اس کے حل ہونے کا کوئی ٹھوس امکان بھی نظر نہیں آتا۔
2016ع میں سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ نما ہدایت جاری کی ہے کہ اردو زبان کو وفاقی اور تمام صوبوں کے انتظامی معاملات میں واحد دفتری زبان کے طور پر نافذ کرنے کو یقینی بنایا جائے۔ گوکہ موجودہ آئین کے تحت وفاقی سطح پر اردو کی یکسر قومی حیثیت بھی ناجائز٬ وفاقی اُصولوں کے برعکس اور مشمولہ اکائیوں اور قومیتوں کے تاریخی لسانی حقوق کی صریحاً نفی ہے لیکن اس کے باوجود آئین کے آرٹیکل 251 کے تحت جہاں پر اردو زبان کو وفاقی سطح پر دفتری زبان کے طور پر نافذ کرنے کی بات کی گئی ہے وہیں اسی آرٹیکل 251 کی ذیلی شق نمبر 3 میں یہ بھی درج ہے کہ صوبائی اسمبلیاں بیک وقت اپنی صوبائی زبانوں کو بھی اپنے صوبوں میں دفتری زبانوں کے طور پر تعلیم٬ ترقی اور دفتری استعمال میں لا سکتی ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ سپریم کورٹ کی تین رکنی بینچ نے جو 9 نقاطی ہدایت نامہ جاری کیا ہے اس میں کہیں بھی آئین کے آرٹیکل 251 کی ذیلی شق نمبر 3 کا کوئی ذکر تک نہیں کیا گیا۔ عجیب بات یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ کی تین رکنی بینچ نے مادری زبانوں کی اہمیت کی بنیاد پر صرف اردو کے اطلاق پر زور دیا ہے۔ جب کہ اردو زبان قیامِ پاکستان کے وقت پورے ملک کے صرف 3 فیصد لوگوں کی مادری زبان تھی اور مشرقی پاکستان کی آزادی کے بعد اب وہ 7 فیصد لوگوں کی مادری زبان ہے ۔
دنیا کی تاریخ میں نقل مکانی کرکے آنے والوں کی ثقافتی یلغار اور پس و پیش قائم ہونے والی سامراجیت انسانی تاریخ کے اہم موضوعات رہے ہیں۔ تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جہاں پر باہر سے آنے والوں کی ثقافتی بالادستی اور سامراجیت نے مقامی اقوام کی نہ صرف زبانوں بلکہ ان کے وجود تک فنا کردیے۔ عبرانی٬ یونانی اور سنسکرت جیسی عظیم زبانیں غیرمقامی زبانوں کی ثقافتی سامراجیت کے باعث تاریخ سے مٹ گئیں۔ موجودہ برطانیہ اور فرانس میں جو انگریزی اور فرانسسی زبانیں رائج ہیں وہ غیر مقامی باشندوں کی ہیں٬ جنہوں نے وہاں کی مقامی کلیٹ زبان کو ختم کردیا۔ برطانیہ میں اپنی بالادستی قائم کرنے والی انگریزی زبان نے اٹھارویں اور بیسویں صدیوں میں امریکہ٬ کینیڈ ا اور آسٹریلیا خواہ نیوزیلنڈ میں اپنی لسانی سامراجیت قائم کرتے ہوئے مقامی زبانوں کو کتابوں تک محدود کردیا۔ ساتویں اور آٹھویں صدیوں میں یہی حشر مصر٬ شام٬ عراق٬ لبیا٬ تیونس٬ مراکش اور دیگر ممالک کے مقامی باشندوں کے ساتھ ہوا جن پر غیرمقامی یلغار نے عربی زبان مسلط کردی۔ آج مصر٬ لبیا٬ مراکش اور تیونس کی اصل مقامی زبانیں ڈ یموٹک٬ کوپٹک اور بربر کے نام و نشان تک نہیں۔
پاکستان کی تاریخ کا یہ بھی المیہ ہے کہ بنگال کی آزادی کے بعد قومی زبانوں کے سوال پر سندھ تنہا ہوگئی٬ کیوں کہ پنجاب کے حکمران طبقے نے اقتدار اور ملک پر اجارہ داری کے نشے میں اپنی زبان اور ثقافت کو کوئی اہمیت نہیں دی اور اردو کی ثقافتی بالادستی کو فخر کے ساتھ سر آنکھوں پر رکھا۔ پنجاب میں دفتری٬ تعلیمی اور ادبی و علمی شعبوں میں پنجابی اور سرائیکی زبانوں کی جگہ ‘‘۱۸۴۹ء میں انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کرنے کے بعد اردو کو پنجاب کی تعلیمی و ثقافتی بان بنادیا تھا’’۔
افسوس کہ پنجاب کے حکمران طبقے نے پاکستان کے قیام کے بعد بھی اپنی مادری اور قومی زبان پنجابی کی جگہ اردو کو ہی اپنائے رکھا٬ ان کے برعکس سرائیکی پاکستان کے ریاستی اور پنجاب کے صوبائی ڈ ھانچے میں بہت کمزور حیثیت کے حامل ہوتے ہوئے بھی اپنی قومیتی زبان سرائیکی سے نہ صرف عشق کرتے ہیں بلکہ اس کی ادبی٬ لسانی اور سماجی و ثقافتی ترویج کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ جب کہ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ پشتون اور بلوچ رہنماؤ ‏ ں نے بھی اپنی قومیتی زبانوں یعنی پشتو اور بلوچی کو مطلوبہ حیثیت دینے کے لیے کوئی خاص جدوجہد نہیں کی۔ اس وقت پاکستان میں قومی زبانوں کے حوالے سے صرف سندھی اور سرائیکی کوشاں ہیں۔ اس لیے قومی زبانوں کے معاملے پر وفاقی مؤقف کو ملکی سطح پر مطلوبہ اہمیت نہ مل سکی۔ سندھ میں سندھی ادبی سنگت٬ قومپرست جماعتوں٬ ادیبوں٬ دانشوروں٬ شاعروں اور معاشرے کے دیگر باشعور شعبہ جات نے ہمیشہ زبان کے سوال کو شدت سے واضح کیا ہے لیکن افسوس کہ اس قسم کا تحرک دیگر صوبوں اور یہاں تک کہ بلوچوں اور پشتونوں میں بھی نظر نہیں آتا۔ پاکستان میں بنگال کے بعد زبانوں کے معاملے پر سندھیوں اور سرائیکیوں کا مؤ ‏قف پھر بھی قدرِ مضبوط رہتا آیا ہے لیکن یہ آواز ابھی تک ملکی سطح پر مطلوبہ حیثیت کا حامل نہیں ہو سکا۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ اس ضمن میں پنجابیوں٬ پشتونوں اور بلوچوں کو بھی بیدار اور متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔

About The Author