ضلع رحیم یار خان کے علمی و ادبی، صحافتی اور سماجی حلقوں کے لیے 12فروری بروز بدھ دن کے پہلے پہر میں محترمہ سیدہ صبا وحید کی موت کی خبر یقینا ایک بڑے دُکھ اور صدمے کی خبر ہے.یہ دنیا فانی جہان ہے.
بے شک ہم سب نے ایک نہ ایک دن اُدھر ہی لوٹ کے جانا ہے. رحیم یار خان کے علمی و ادبی گھرانے خوجہ فیملی کی اس بہو نے ضلع رحیم یار خان میں بڑا نام شہرت عزت کا ایک اعلی مقام پایا.
علمی و ادبی حلقوں میں ملک گیر شہرت حاصل کی.ایس صبا وحید میاں وحید الدین کی زوجہ تھیں.آج مجھے رحیم یار خان کی ایک علمی و ادبی شخصیت اور اپنے بزرگ دوست میاں سراج الدین سانول بھی شدت سے یاد آ رہے ہیں. خواجہ فرید کالج میں سرائیکی مضمون کی کلاسز کے اجراء کی تحریک کے دوران انہوں میرا بڑا ساتھ دیا. ان کی زندگی کی 32سالہ محنت لاکھوں الفاظ و محاورات پر مشتمل سرائیکی ڈکشنری بھی یاد آ رہی ہے.
اللہ تعالی ان کی اولاد کو اس قیمتی علمی و ادبی اثاثے کی قدر اور اشاعت کی توفیق عطا فرمائے. آمین
ایس صبا وحید اپنی ذات میں ایک انجمن تھیں. وہ ایک غمگسار سماجی ورکر خاتون،ایک حساس شاعرہ،ایک باوقار مقرر، ایک اچھی قلمکار صحافی اور کالم نگار بھی تھیں.
ایس صبا وحیدایک انتھک محنتی بہادر خاتون کا نام ہے.خود مختار ذہن و کردار کی مالک اپنے معاش کے معاملے میں بھی خود مختاری کی حامل رہی ہیں.
اس خاتون نے اپنے لیے خواتین سے متعلق کاروبار ایک اعلی درجے کا بیوٹی پارلر بھی بنا رکھا تھا.
شاعر احساس رکھنے والے، محبت کرنے والے، خوشیاں بانٹنے والے، غم میں سانجھ کرنےوالے، فکر اور وژن رکھنے والے لوگ ہی ہوتے ہیں.
ایس صبا وحید یقینا ایک پرعزم، ہمدرد، بہادر، انتہائی ملنسار، ہنس مکھ، برد بار اور سلجھی ہوئی عملی خاتون تھیں. اس کی شاعری ہو یا صحافت دونوں شعبہ جات میں انہوں نے اپنے آپ کو اچھے انداز میں منوایا.
صحافت میں ان کا ہفت روزہ روداد صبا اور پھر اپنے خاوند میاں وحید الدین کے ساتھ مل کر روزنامہ خواجہ رحیم یار خان تک کا کامیاب سفر. پھر پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد شفٹنگ، زندگی کی دوڑ میں بہتر سے بہترین کی تلاش اور جستجو میں وہاں اچھی اور کامیاب شروعات.
پھر یہ سب کچھ اس وقت حسین خوابوں کی طرح اچانک بکھر گیا جب تین چار سال قبل ان کے رفیق حیات میاں وحید الدین اسلام آباد میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے.
ان کی حضرت امام بری سرکارؒ سے نسبت و محبت انہیں ان کی وصیت کے مطابق وہاں کے قبرستان میں دفن کیا گیا. ڈسٹرکٹ پریس کلب رحیم یار خان کے صدر ڈاکٹر محمد ممتاز مونس مرحوم کے قریبی دوستوں میں سے ہیں.
ضلع رحیم یار خان سے فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کےممبر ایف ای سی محترم جاوید اقبال کی اس گھر اور جوڑی کے ساتھ بڑی قربت تھی.
دو سال قبل جب میں ان دوستوں کے ہمراہ فیڈرل یونین آف جرنلسٹ راولپنڈی اسلام آباد کے پروگرامز میں شرکت کے لیے گیا ہوا تھا.
ایک صبح ڈاکٹر ممتاز مونس ہم سے کہتے ہیں آؤ آج میں آپ کو ایک ولی اللہ سے ملواتا ہوں. پھر اپنی کار میں بیٹھا کر ہمیں پارلیمنٹ ہاوس وزیر اعظم ہاوس کی بیک سائیڈ کی طرف لے گئے. ہم نے سوچا کہ امام بری سرکار کے مزار شریف پر حاضری کے لیے لائے ہیں.لیکن ان کا رخ دربار شریف کی بجائے ایک اور چھوٹے سے راستے کی طرف ہو گیا. بار بار پوچھنے پر کچھ بھی نہیں بتا رہے تھے کہاں اور کس کے پاس جا رہے ہیں. ایک قبرستان آ گیا گاڑی روکی ہمیں ساتھ لیکر ایک قبر پر جا پہنچے.
تختی پر نام لکھا تھا میاں وحید الدین. محمد سلیم چشتی بھی اس سفر میں ہمارے ساتھ تھا.پر خلوص اور سچے رشتے ایسے ہوتے ہیں.ہم نے فاتحہ پڑھی کچھ دیر وہاں رہے جاوید اقبال نے بھابھی ایس صبا وحید کو وہاں سے فون کیا میری بھی بات کروائی. یقین کریں مرحرم کی قبر پر اچانک حاضری دینے سے ذہنی اور قلبی تسکین محسوس ہوئی.
ان کے ساتھ گذشتہ ملاقاتیں یاد آئیں. یہاں سے فارغ ہونے کے بعد ہم سب نےحضرت امام بری سرکار کے مزار شریف پر حاضری دی.
محترم قارئین کرام،، آج ایس صبا وحید بھی اپنے دو بیٹوں چار بیٹیوں خاندان کے دیگر افراد اور اپنے بہت سارے پرستاروں کو چھوڑ کر اپنے رفیق حیات میاں وحید الدین کے پاس چلی گئی ہیں. وہ ان کے بغیر بہت اداس اداس تھیں.اپنے خاوند کی وفات کے بعد یہ بہادر خاتون گویا ٹوٹ پھوٹ چکی تھیں. جو کبھی سرکاری اور غیر سرکاری تقریبات کی رونق اور ضرورت ہوا کرتی تھی بس گھر تک محدود ہو کر وقت گزارنے لگی تھیں. صدمات یقین انسان کو جھکا دیتے ہیں. پھر محبت محبوب اور محب کی بات تو کچھ اور ہی ہوتی ہے.
ایس صبا وحید سے میری زیادہ قربت تو نہ تھی بس علمی و ادبی اور صحافتی ذوق کی وجہ سے ایک واجبی سا تعلق تھا. میں نے اس خاتون کو بڑا ہمدرد اور ادب نواز پایا ہے. ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ ہمارے ضلع رحیم یار خان کے نامور عوامی شاعر و گلوکار میرزادہ رفیق ساحل کا بھٹہ واہن میں واقع کچاگھر اور گھر کے چھپر ایک طوفافی آندھی اور برسات کے دوران گر گئے.
بیوی بچےشدید زخمی ہو گئے.غریب شاعر انتہائی پریشان کن حالات کا شکار ہو گیا.کھلا آسمان تھا غریب شاعر اور اس کے بیوی بچے تھے. میں نے اس رفیق ساحل کے طوفانی آندھی کے بعد کے حالات و واقعات کی خبر اخبارات کو سینڈ کی.اگلے روز مجھے محترمہ ایس صبا وحید کا فون آیا بولا گانگا صاحب رفیق ساحل کہاں ملے گا ہم ان کی کچھ مدد کرنا چاہتے ہیں.
پانچ ہزار روپے ان کی خدمت میں پیش کرنے چاہتے ہیں.میں نے رفیق ساحل سے رابطہ کیا اگلے روز اس نے رحیم یار خان شہر آنا تھا. ایس صبا وحید کو بتایا تو انہوں چائے کی دعوت پر گھر ہی بلا لیا دونوں طرف سے اصرار تھا کہ آپ لازمی ساتھ ہوں گے. اگلے روز ہم سکول بازار رحیم یار خان میں واقع میاں وحید الدین کے گھر پہنچے. میاں بیوی نے بڑی محبت سے ہمارا استقبال کیا.
خاصی پرتکلف ریفرشمنٹ دی. رفیق ساحل کو پانچ ہزار روپے دیتے وقت کہا کہ ہماری کوشش ہو گی کہ ہم آپ کی مزید خدمت کریں اور کروائیں.محترمہ ایس صبا وحید کے جذبات اور احساسات کو پہلی بار آمنے سامنے اور ایک طویل نجی نسشت میں سننے اور سمجھنے کا موقع ملا.
آج وہ ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کی سوچ کردار، یادیں اور باتیں موجود ہیں اور موجود رہیں گی. سوچ اور کردار ہی تو وہ چیز ہے جو ہمیشہ موجود رکھتے ہیں. میری دعا ہے کہ اللہ تعالی مرحومہ سیدہ صبا وحید کی مغفرت اور درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کی اچھی کفالت کا انتظام و بندوبست فرمائے آمین.
ان کے ساتھ گذشتہ ملاقاتیں یاد آئیں. یہاں سے فارغ ہونے کے بعد ہم سب نےحضرت امام بری سرکار کے مزار شریف پر حاضری دی.
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر