صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی اور دیگر درخواستوں کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی ہے ۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔
اٹارنی جنرل انور منصور نے دلائل میں کہا 6 ماہ تک دیگر درخواست گزاروں کے دلائل جاری رہے،کافی عرصے بعد مجھے بولنے کا موقع ملا ہے۔ کوشش کرونگا درخواست گزار کی جانب سے اٹھائے گئے نقاط کے جواب دوں
اٹارنی جنرل انورمنصور خان نے کہااصل ایشو کو درخواست گزاروں کی جانب سے اٹھایا ہی نہیں گیا،کل کائنات کا مالک اور اصل حاکمیت اللہ تعالی کی ہے،ملک کا نظام منتخب نمائندوں کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔
انور منصور خان نے کہاعدلیہ کو آئین میں مکمل تحفظ فراہم کیا گیا ہے،ججز عدالتوں میں انصاف کرنے کیلئے موجود ہوتے ہیں،درخواست گزار جسٹس فائز عیسی کیخلاف الزامات کا جائزہ سپریم جوڈیشل کونسل نے لینا ہے،کونسل کو کہا گیا جائزہ لیں جائیدادیں جسٹس فائز عیسی کی ہیں یا نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا تاثر ہے لندن جائیدادوں کا براہ راست تعلق جسٹس فائز عیسی کیساتھ ہے،تاثر یہ بھی ہے کہ جسٹس فائز عیسی نے غیرملکی جائیدادوں کیلئے رقم فراہم کی،سپریم جوڈیشل کونسل کی انکوائری سے پہلے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔
انور منصور خان نے کہاکسی جج کیخلاف کوئی عداوت ہے نہ ہی کسی سے دشمنی،ججز کیخلاف جو الزامات ہیں ان کا جائزہ لیا جانا چاہیے، انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔
اٹارنی جنرل نے ججز کا حلف بھی پڑھ کر سنایا
اس کے بعد اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے انور منصور خان نے کہا کہ اعلی عدلیہ کا جج کوڈ آف کنڈکٹ کا پابند ہوتا،اعلیٰ عدلیہ کا جج حلف اٹھاتے ہوے وعدہ کرتا ہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا مسٹر اٹارنی جنرل، سب سے پہلے اپنی گزارشات کے پوائنٹس دے دیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کیا عدالت عظمی آرٹیکل 184/3کے مقدمے میں ریفرنس کے حقائق کا جائزہ لے سکتی ہے؟ کیا شوکاز نوٹس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی چیلنج ہو سکتی ہے؟
انور منصور خان نے کہا مذکورہ جج نے جائیدادیں اہلیہ اور بچوں کے نام تسلیم کیں، کیا غیر اعلانیہ ظاہر نہ کردہ جائیدادوں کی معلومات حاصل کرنا جاسوسی ہے؟کیا ایگزیکٹو کو جج کیخلاف ملی معلومات کی تصدیق نہیں کرنی چاہیے؟ جج کو خوف اور جانبداری کے بغیر فیصلہ کرنا چاہیے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نےاستفسار کہ کیا حلف کے مطابق خوف اور جانبداری بارے میں جج کا دماغی معائنہ کرنا چاہیے؟
اٹارنی جنرل نے کہا میں نے تو صرف جج کا حلف پڑھا،کسی جج پر اعتراض نہیں کرونگا، تمام ججز سے مکمل انصاف کی توقع ہے،جسٹس فائز عیسی نے بنچ کے بعض ممبران پر اعتراض کیا تھا، درخواست گزار جج نے کوشش کی کہ بنچ انکی سہولت کا بنے۔
اٹارنی جنرل نے کہا صدارتی ریفرنس میں پوچھا گیا ہے کہ جائیدادوں کا جائزہ لیں۔ جوڈیشل کونسل نے دیکھنا ہے کہ جج نے مس کنڈکٹ کیا یا نہیں؟ مسئلہ یہ ہے کہ برطانیہ میں تین جائیدادیں خریدی گئیں۔ ایک جائیداد 2004 میں خریدی گئی جسکی 2011 میں تجدید ہوئی،دوسری جائیداد 2013 میں خریدی گئی،2004 میں جو جائیداد خریدی گئی وہ بہت اہم ہے۔ جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ زرینہ کھوسو کا نام پاکستان میں رجسٹرڈ نہیں۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا 2011 میں جائیداد میں بیٹی سحر علی کا نام بھی شامل کیا گیا،2013 میں جائیدادیں اہلیہ,بیٹی اور بیٹے ارسلان کے نام خریدی گئیں۔ جوڈیشل کونسل میں جج نے کہا میری جائیدادیں نہیں ہیں،
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اٹارنی جنرل صاحب پہلے بتائیں کہ ریفرنس کیسے بنایا گیا؟
انور منصور خان نے کہا سارے سوالوں کا جواب دوں گا پہلے مجھے کیس بنانے دیں،جائیدادیں تسلیم کرنےسے حقائق درست ثابت ہوئے۔
اٹارنی جنر ل نے کہا اب سوال یہ ہے کہ یہ جائیدادیں جج کو گوشواروں میں ظاہر کرنی چاہیں یا نہیں؟سوال یہ ہے کیا جائیدادیں بچوں اور اہلیہ کے نام پر ہونا درست ہے؟
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا پہلے یہ بتا دیں ریفرنس میں الزام کیا ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا معزرت چاہتا ہوں مجھے یہ بات پوچھنے سے پہلے بتانی چاہیے تھی، الزام یہ ہے کہ برطانیہ کی جائیدادیں ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہیں ہوئیں۔
کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور