میری عمر سات یا آٹھ سال رہی ہوگی کہ ہمارے محلے میں اچانک کچھ اجنبی بچے اور خواتین آکر بسنے لگے۔
ان لوگوں کے آنے کے بعد ہمارے گھر کے بڑے بزرگ آپس میں کچھ عجیب عجیب باتیں کر رہے تھے جو ہمیں سمجھ تو نہیں آرہی تھیں ہاں البتہ اتنا سمجھ آرہا تھا کہ یہ نووارد افغان ہیں۔
ان دنوں عام رواج تھا کہ خاندان کے بڑے (مرد) شام کو اکٹھے ہوکر وقت گزارتے تھے اور اردگرد کی خواتین بھی ہمارے گھر میں جمع ہوتی تھیں۔ ان لوگوں اور بچوں کی آمد کے پہلے ہی روز ہماری والدہ مرحومہ اور دیگر عورتوں نے بچوں کے قابل استعمال کپڑے اور گھر کے سامان میں سے کچھ چیزیں محلے کے ان گھروں میں پہنچائیں جہاں پر ایسے ہی مزید افغان آکر ٹھہرے تھے۔
اس سارے عمل کے دوران ہمیں جو ایک بات سمجھ آسکی وہ یہ تھی کہ ان افغانوں کے ملک پر روس نے حملہ کیا ہے اور یہ سب اپنی جان بچا کر چھپتے چھپاتے پشاور پہنچے ہیں اور وہ ایک ہی دن میں یہاں نہیں پہنچے بلکہ وہ کابل اور جلال آباد سے نکل کر راستے میں کھڑی فصلوں میں دن بھر چھپے رہتے اور رات کو نکل کر اندھیرے میں پاکستان کی جانب پیدل سفر کرتے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے سامنے بہت سارے افغانوں کو روسی ٹینکوں نے کچل کر مار ڈالا۔ ان آنے والوںکے پاس کچھ بھی نہیں تھا اور انہیں یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ وہ پشاور یا پاکستان کے دیگر شہروں میں آکر کہاں رہیں گے لیکن بس یہ آگئے اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ تھوڑی بہت جگہ اور سامان رکھنے والے مقامی لوگوں نے ان افغانوں کیلئے گھروں کے دروازے کھول دئیے۔
یہاں سے ہمارا تعارف افغانوں کیساتھ ہوا۔ پھر ہمارے سکولوں میں اعلان ہوا کہ تمام بچے کل گھر سے اپنی زیراستعمال اشیا خصوصاً گرم کپڑے اور جو کچھ بھی لاسکیں لے آئیں، پھر ہم نے اپنے سکول کے اسٹاف کو کپڑوں کی گٹھلیاں بناتے دیکھا۔
یوں کم عمری میں ہی ہمارا افغانوں سے تعارف ہوگیا۔ ان بچوں میں ایک چھوٹی بچی زرغونہ مجھے آج بھی یاد ہے جس کی بعد میں ہمارے سامنے ہی شادی ہوئی اور بچے بھی پیدا ہوئے، پتہ نہیں وہ اب کہاں رہتی ہے؟ اسی دوران بورڈ بازار اور نمک منڈی میں لوگوں نے افغان بھائیوں کیلئے چھوٹے چھوٹے کاروبار کھول لئے۔
اب اس سب کچھ کو چالیس سال کا عرصہ بیت چکا ہے اور پوری دنیا سے لوگ اتنے عرصے تک افغان مہاجرین کی میزبانی کرنے پر اسلام آباد میں جمع ہوئے ہیں جہاں پر ان کا ایک ہی مقصد ہے کہ پاکستان کا شکریہ ادا کیا جاسکے اور جنگ کے آغاز سے آنیوالے چالیس لاکھ افغان مہاجرین میں سے باقی رہ جانیوالے تقریباً بیس لاکھ رجسٹرڈ اور غیررجسٹرڈ افغانوں کے مستقبل پر بات کی جاسکے۔
اسلام آباد میں بین الاقوامی کانفرنس میں تقریباً 20ممالک کے اعلیٰ حکام و مندوبین، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نتونیو گوتریس سمیت خود افغانستان سے آنیوالے وفود بھی شامل ہیں۔
کانفرنس کا مقصد جہاں افغان مہاجرین کی رضاکارانہ وطن واپسی کے حل پر تبادلہ خیال کرنا ہے وہاں پاکستان میں بسنے والے افغانوں خصوصاً ان کی نئی نسل کو اس قابل بنانے پر غور بھی کرنا ہے کہ وہ کسی طرح اپنے وطن لوٹ کرملک کی خدمت کرنے کے قابل ہو سکیں۔ افغانستان کو اس قابل بنایا جاسکے کہ وہاں پر سیاسی استحکام ہو اور بیرون ملک مقیم افغانی واپس وطن لوٹنے کا سوچ سکیں اور یہ سارے مہاجرین پاکستان سے نکلنے کے بعد افغانستان کی بجائے کسی اورملک جانے کا سوچنا چھوڑدیں۔
اس دو روزہ کانفرنس کا مقصد یہ بھی ہے کہ پاکستان پر سے مہاجرین کا بوجھ کم کیا جاسکے۔ لیکن کچھ ایسے سوالات ہیں جو اب بھی ہمارے بچپن میں یہاں آنے والے افغانوں کی وطن واپسی کا راستہ روک رہے ہیں اور نہ وہ جانے کو تیار ہیں اور نہ ہی ان کی پاکستان میں جنم لینے والی نسل جانے کا سوچ رہی ہے۔آج ہی میرے ایک رشتے دار کیساتھ میرے گھر آنے والے نوجوان افغان مہاجرجو اس وقت قیمتی پتھروں کے کاروبار سے وابستہ ہے نے واپسی کے کسی امکان کو یہ کہہ کر رد کردیا کہ اب پاکستان ہی ہمارا گھر ہے، ہم واپس لوٹنا نہیں چاہتے۔
وجہ پوچھی تو جواب وہی تھا کہ ابھی افغانستان کو رہنے کے قابل ہونے میں مزید وقت لگے گا، وہاں پربڑی بڑی عمارتیں تو بن چکی ہیں لیکن ابھی اسے ایک نارمل ملک بننے میں وقت لگے گا۔ وہاں پر اشرف غنی نے حالات کو کافی حد تک بہتربنادیا ہے اورہم کسی سٹیج پر واپس بھی جانا چاہیں گے لیکن ابھی نہیں، ابھی کچھ وقت اور لگے گا۔
افغانوں کے واپس جانے کی راہ میں بڑی رکاوٹوں میں سے ایک وہ سماجی بندھنیں بھی ہیں جس میں یہ افغان اورپاکستانی بندھ چکے ہیں۔ میرے سامنے بہت سارے پاکستانی مردوں کی شادیاں افغان خواتین سے اور افغان مردوں کی شادیاں ہماری پاکستانی خواتین سے ہوچکی ہیں۔ ان کے بچے پیدا ہو چکے ہیں اور اگر ان کی مشکلات کو نظر میں رکھے بغیر کوئی حل نکالا جاتا ہے تو پھرواپسی کے راستے بھی بتانے ہوں گے کہ ایسا کچھ کیا جائے کہ یہ خاندان تقسیم ہونے کی بجائے بچ سکیں۔
افغانوں اور پاکستانیوں کی کاروبار میں شراکت داریاں ہیں اور یہ کاروبار صرف پاکستان کے اندر تک محدود نہیں بلکہ بیرون ملک بھی بڑے بڑے کاروبار چل رہے ہیں۔ افغان طلبہ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں، افغانستان کے مریضوں کا اچھا اور سستا علاج صرف پاکستان میں ہی ممکن ہے۔
اس لئے یہ افغان واپس لوٹنے کی بجائے پاکستان میں ہی مزید وقت کیلئے رہنے کا سوچ رہے ہیں۔ یہ سب یہ بھی چاہتے ہیں کہ طورخم اور چمن کے بارڈر ان کیلئے ہمیشہ کھلے رہیں۔
اس لئے جو لوگ پاکستان میں افغان مہاجرین کی نمائندگی کر رہے ہیں ان کی جانب سے بنی فہرستوں میں بھی یہی مسائل نمایاں ہیں کہ کیسے پاکستان سے بارڈرز پر آنے جانے والوں کیلئے کوئی آسانی اور مزید وقت لیا جاسکے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ