کسی بھی مہذب معاشرے میں فنکار، لکھاری، ادیب، شاعر، موسیقار، گلوکار اور اداکار کو عام انسان کے سانچے سے مختلف سمجھا جاتا ہے کیونکہ مہذب دنیا سمجھتی ہے کہ یہ لوگ وہ ”میوٹیٹیس“ ہوتے ہیں جو کسی بھی معاشرے میں اس لئے پیدا کر دیے جاتے ہیں کہ اس معاشرے کے لوگ کہیں اپنی زندگیوں کی بے رنگی سے تنگ آکر مر ہی نہ جائیں لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں ان شخصیات کو پس پشت ڈال کر معاشرے کی پسند صرف“چمچہ“ ہی ہے۔
ویسے میرے تخیل کے گھوڑے ایسے کمزور، مریل اور لاغر سے ہیں کہ بیچارے مشاہدے اور تجربے کی خوراک کھائے بغیر دو قدم بھی نہیں چل سکتے۔ اپنے آپ کو تجربات میں سے گزارے بغیر میرے لئے کچھ لکھنا ایسا ہی ہے جیسے ماں دردوں کے بغیر بچہ جن دے۔ اب میرے مشاہدے میں بھی ہر سائز اور ہر قسم کے چمچے آ چکے ہیں اور جب سب لوگ چمچے کو ہی پسند کرتے ہیں تو پھر ہم جیسے لکھاریوں کا بھی حق بنتا ہے کہ چمچے کو ہی موضوع بنایا جائے۔
پرانی اردو کا ایک لفظ ہے قاشق، جس کا مطلب لغات میں چمچہ یا ڈوئی لکھا ہے۔ اردو ادب میں تو لفظ قاشق عرصے سے دیکھنے میں نہیں آیا۔
اسی طرح سرائیکی میں بھی قاشق چمچ کو ہی کہتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ یہ لفظ صرف بڑے بوڑھوں کی زبان پر رہ گیا ہے، نئی نسل صرف چمچ کہتی ہے۔ بہرحال ترکی زبان کے لفظ ‘چمچہ’ سے ماخوذ اردو میں ‘چمچ’ بنا اور الف لاحقہ تکبیر لگانے سے ‘چمچا’ بنا اور ایک امکان یہ بھی ہے کہ فارسی سے اردو میں آیا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ 1665ء کو ”علی نامہ” میں مستعمل ملتا ہے۔ تو ثابت ہوا چمچ دراصل ترکی زبان کے لفظ چمچہ کا اُردو تلفظ ہے لیکن یہ اُردو کے لشکری زبان ہونے کا فائدہ اُٹھا کر جلد ہی چمچہ بھی بن گیا۔ اگر یہ چمچہ نہ بنتا تو صرف کھانا کھانے والا چمچ ہوتا، مگر اس نے چمچہ بن کر دیگر بہت سی ذمہ داریاں بھی اپنے پلے باندھ ڈالیں۔ یہ ایک ہو تو چمچہ کہلاتا ہے، زیادہ ہوں تو چمچے بن جاتے ہیں۔
بچپن میں ایک شربت کی بوتل پہ لکھا پایا کہ دو چائے کے چمچے دن میں تین بار، مگر یہ اتنی سنجیدہ بات نہیں تھی۔ بس اتنی سمجھ نہیں آئی کہ چائے والاچمچ کون سا ہوتا ہے۔ خیر کچھ ہی عرصہ بعد ایک اور چمچے کے بارے میں پتہ لگا اور یہ تھا کھانے کا چمچہ، تو ڈکشنری کھولنا ناگزیر ہوگیا کہ لفظ و معانی کی اتھل پتھل کا بار گراں میرا ننھا دماغ کیسے سہہ سکتا؟
تب آہستہ آہستہ پتہ لگا کہ چائے کا چمچہ چھوٹا اور کھانے کا تھوڑا بڑا ہوتا ہے۔ بچپن سے لے کر کچھ عرصہ پہلے تک صرف دو قسم کے چمچے میرے علم میں تھے۔ لیکن میرے پیارے قارئین کرام! آج بندہ آپ کو ایک اور چمچ سے روشناس کرانا چاہتا ہے۔ یہ چمچ کی اُس قسم سے تعلق رکھتے ہیں جو بولنے والا چمچہ کہلاتا ہے۔ اس قسم کا چمچہ کسی نہ کسی بڑے کا چمچہ ہوتا ہے۔
دوسرے چمچوں کی طرح یہ چمچہ کبھی بھی بھوکا نہیں رہتا۔ یاد رکھیں! چمچہ بھی ایک جامع اور مختصر لفظ میں ڈھلنے سے قبل ہر دیگ کا چمچہ ہوا کرتا تھا۔ ویسے تو اس کا مقام بہت چھوٹا ہے لیکن فرائضِ منصبی کے لحاظ سے دیکھیں تو اس ننھی سی جان نے بہت بڑی ذمہ داری سنبھال رکھی ہے۔
یہ چمچہ نامی مخلوق صرف امیر اور عہدے والے انسان کے پاس ہوتی ہے۔ ہر معتبر آدمی، سماجی راہنما اور سیاسی لیڈر چمچوں کی پرائیویٹ ملیشیا بھرتی کرتا ہے، جسے بعدازاں ”ٹاسک فورس“ کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ غریب انسان کے چمچے نہیں ہوتے بلکہ کئی غریب خود کسی نہ کسی دیگ کا چمچہ بننے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ٹاسک فورس کے یہ چمچے صرف ٹین کے ڈبوں کی طرح شور کر کے دفاعی پوزیشن میں نظر آتے ہیں۔
تحقیق اور تجربے سے معلوم ہوا کہ ٹاسک فورس کے اس چمچے کا دماغ نہیں ہوتا۔ لہذا آپ چمچے سے یہ امید نہ رکھیں کہ وہ اپنے مالک کی انفرادیت، وعدوں اور ترقی کے اہداف یا دیگر جزیات کی مطلوبہ تفصیلات سے آگاہ کر سکے۔ لیکن پھر بھی یہ بے چارے چمچے خود کو فادر آف ارسطو سمجھتے ہیں۔ دماغ کی عدم موجودگی کے باعث ان چمچوں کی سب سے بڑی خاصیت ان کی منہ میں موجو د 4G کی طرح کام کرتی لمبی اور نہ رکنے والی زبان ہوتی ہے جو انکا اہم ہتھیار ہوتی ہے۔ پتہ نہیں چمچوں کی زبان میں اس اہم ہتھیار کا کیا نام ہے؟ یہ اسی زبانی ہتھیار سے مالک کی بلی کو شیراور بکری کو بیل بنا ڈالتے ہیں اور انکی باتوں اور تجزئیوں سے مالک خود کو سکندر اعظم، سائرس، امیر تیمور یا کولومبس سمجھنے لگتا ہے۔ ان چمچوں کو سب سے زیادہ خوشی مجمع عام میں بے عزت ہونے کے بعد ہوتی ہے کیونکہ یہ مالک کی توجہ کے طالب ہوتے ہیں۔ ان کو اس گالی کی کوئی پرواہ نہیں کہ جس سے اقبال کے شاہنوں کا وجود ہی ڈھ جاتا ہے۔
اسی خصوصیت کی بنا پر چمچوں کے حسب نسب اور نسل کا اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ گھر چلانا ہو یا ملک، تعلیمی مراکز ہوں یا رفاہی ادارے، دنیاوی مفادات کا حصول ہو یا سیاسی شخصیات کی قربت یہ چمچے ہر جگہ اس طرح ملیں گے جس طرح نظام ِ شمسی کے مختلف تارے اور سیارے۔ آپکو ہر جگہ پر مذکر چمچے کا ہی زکر ملے گا واحد ایک جگہ پر اس کی مؤنث چمچی کا زکر ملتا ہے اور وہ ہے محبت۔ کیونکہ محبوبہ کی باتیں اس کی چمچی ہی بتاتی ہے۔ ویسے محبت آسان نہیں ہے۔ اس میں کتنے چمچوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ کوئی نہیں جانتا ہے۔
ادب کے مہاندروں کو چاہیئے کہ مصوّری، اداکاری اور شاعری وغیرہ کی طرح ان چمچوں کی چمچہ گیری کو بھی فنونِ لطیفہ کی فہرست میں شامل کرنا چاہیئے۔ کیونکہ چمچہ گیری ایسا تیر بہ ہدف نسخہ ہے جس میں تیر کا کہیں نام و نشان بھی نہیں مگر ہدف پھر بھی شکار ہو ہی جاتا ہے۔ ادبی دنیا میں بھی کچھ چمچے اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں۔
یقین نہ آئے تو تاریخ پڑھ کے دیکھ لیں ماضی میں کچھ چمچے قصیدہ گو اپنے ممدوح کی شاعری کو شجاعت اور بہادری ظاہر کرنے پر بہادر الملک کا خطاب اور نشاط پور کی سپہ سالاری بھی حاصل کر چکے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے ہمارے ایک قلمکار دوست کی کسی دوسرے قلمکار کے چمچے سے تھوڑی سی ادبی تو تو میں میں کیا ہوئی یکے بعد دیگرے کئی چمچے الفاظ و تحاریر کے چھری کانٹوں سمیت ہمارے قلمکار دوست پر چڑھ دوڑے۔ اب ان چمچوں کو سپہ سالاری تو ملنے سے رہی۔
دیکھتے ہیں کہ یہ ادبی چمچے کون سی فیوض و برکات سمیٹتے ہیں۔ چمچوں کے اس دور میں چمچوں کی کمی نہیں بلکہ ہر جگہ پر چمچوں کی ہیرامنڈی لگی ہوئی ہے۔ بلکہ ہم تو چمچوں میں اتنے خودکفیل ہو چکے ہیں کہ اب عربی اور گورے کفیل بھی اس سلسلہ میں ہم سے ہی رابطہ کرتے ہیں۔
اگر آپ کے پاس بھی شہرت، مرتبہ یا بے حساب دولت ہے تو آپکے پاس بھی چمچوں کی ایک فوج ہوگی کیونکہ چمچہ رکھنا یا پالنا کوئی نیا کام نہیں۔ ویسے میں خوشنصیب ہوں کہ سونے چاندی کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوا۔ یاد رکھیں کامیاب چمچہ بننے کیلیے یا مجھے جھوٹا ثابت کرنے کے لیئے آپکو خوامخواہ جذباتی یا حساس ہونے کی قطعا ضرورت نہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ