نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

17فروری2020:آج جموں اینڈ کشمیر میں کیا ہوا؟

جموں اینڈ کشمیر سے نامہ نگاروں اور نمائندگان کے مراسلوں پر مبنی خبریں،تبصرے اور تجزیے۔

کرناٹک: تین کشمیری طلبا رہا

ہبلی ،

ریاست کرناٹک کے ہبلی میں پولیس نے ملک سے غداری کے معاملے میں تین کشمیری طلبا کو سی آر پی سی کے سیکشن 169 کے تحت بانڈ پر دستخط کے بعد رہا کر دیا۔
پولیس کے مطابق ان تینوں طلبا نے پلوامہ حملے کی پہلی برسی کے موقع پر ایک ویڈیو بنایا تھا جس میں وہ مبینہ طور پر ‘پاکستان زندہ باد’، ‘ہم کیا چاہتے آزادی ‘ اور ‘فری کشمیر’ کے نعرے لگا رہے ہیں۔

ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس نے تینوں طلباکو گرفتار کیا تھا۔ساوتھ ایشین وائر کے مطابق پولیس نے بتایا کہ ابتدائی تحقیقات میں پتا چلا کہ ان تینوں کا تعلق جموں و کشمیر کے ضلع شوپیاں سے ہے۔

پرنسپل کی طرف سے دائر کردہ شکایت پر ان کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 153 اے بی اور 124 اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

گرفتار شدہ تینوں طلبا کرناٹک کے ہبلی شہر کے ایک نجینئرنگ کالج کے زیر تعلیم ہیں۔ طلبا کی شناخت عامر، طالب اور باسط کے طور پر ہوئی۔ہبلی دھرواد پولیس کمشنر آر دلیپ نے کہا کہ

طلباکو 169 سی آر پی سی کے تحت بانڈ پر دستخط کرنے کے بعد رہا کیا گیا۔اطلاعات کے مطابق طلبا کی رہائی کے خلاف ضلع ہبلی کے مقامی لوگوں نے ا حتجاج کیا۔


پلوامہ کے علاقے مورن میں سرچ آپریشن

پلوامہ

مقبوضہ جموں و کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ کے علاقے مورن کے شیخ محلہ میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے تلاشی کاروائی شروع کی گئی ہے۔
عسکریت پسندوں کی خفیہ اطلاع ملنے پر سکیورٹی فورسز نے شیخ محلہ کو محاصرے میں لیا اور تلاشی کاروائی شروع کر دی ۔

ذرائع کے مطابق آر آر جموں و کشمیر پولیس کے خصوصی آپریشن گروپ اور سی آر پی ایف کی مشترکہ ٹیم نے شیخ محلہ مورن نامی گاوں جانے والی سڑکوں کو گھیرے میں لے لیا۔

سیکیورٹی فورسز کو علاقے میں عسکریت چھپے ہونے کی اطلاع ملی تھی، جس کے بعد انہوں نے گھر گھر تلاشی شروع کردی۔مقامی ذرائع نے بتایا کہ علاقے میں فورسز کو تعینات کردیا گیا ہے۔


بھارت نے کشمیر پر اقوام متحدہ کی ثالثی کی پیشکش کو مسترد کردیا

نئی دہلی ،

بھارت نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کو مسترد کر دیا ہے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان روش کمار نے پاکستان میں انتونیو گوتریس کی جانب سے دیئے گئے بیان پر کہا کہ مسئلہ کشمیر سے متعلق بھارت کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، جموں و کشمیر، بھارت کا اٹوٹ حصہ تھا، ہے اور رہے گا۔

روش کمار نے کہا کہ جن مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان نے جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے اور انہیں آزاد کرانا ہے،

اگر مزید مسائل ہوں گے تو انہیں ہم دو طرفہ گفتگو سے حل کریں گے، اس معاملے میں کسی بھی ثالثی کی گنجائش نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل، بھارت کے خلاف سرحد پار سے ہونے والی شدت پسندی کے خاتمے کے لیے ایک قابل اعتماد اور مستحکم اقدام اٹھانے پر زور دیں گے، جس سے سب سے بنیادی انسانی حقوق یعنی کو خطرہ ہے۔

گزشتہ روز چار روزہ دورے پر پاکستان پہنچنے والے اقوام متحدہ کے سربراہ نے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا جس میں انہوں نے جموں و کشمیر کی صورتحال اور لائن آف لائن پر تناو پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔

انتونیو گوتریس نے کہا کہ بھارت اور پاکستان لائن آف کنٹرول پر تحمل کا مظاہرہ کریں، دونوں ممالک اقوام متحدہ کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کو یقینی بنائیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ملکوں میں امن کی بحالی کے لیے اقوام متحدہ اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔


شاہ فیصل پر پی ایس اے کیوں عائد کیا گیا؟

سری نگر ،

دو روز قبل سابق آئی اے ایس افسر اور جموں و کشمیر پیپلز موومنٹ (جے کے پی ایم)کے چیئرمین ڈاکٹر شاہ فیصل پر بھی پی ایس اے عائد کیا گیا ۔  شاہ فیصل وادی سے تعلق رکھنے والے آٹھویں سیاسی رہنما ہیں جن پر پی ایس اے کا اطلاق کیا گیا ہے۔

انتظامیہ کی طرف سے مرتب شاہ فیصل پر عائد پی ایس اے کے ڈوزیئر میں کہا گیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز بیانات دے رہے تھے۔ڈوزیئر میں کہا گیا ہے کہ شاہ فیصل سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے نرم علیحدگی پسندی کے نظریہ کی حمایت کرتے ہیں۔انہیں متعدد بار لوگوں کی طرف سے مثبت جواب ملا ہے جس سے عوامی نظم و ضبط کو خطرہ لاحق ہے۔

ڈوزیئر کے مطابق شاہ فیصل کے متعلق خدشہ تھا کہ اگر انہیں رہا کیا گیا ، تو وہ کسی طرح کا بیان دیتے جس سے وادی میں امن و امان میں خلل پڑ سکتا۔ ڈوزیئر میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں سیکیورٹی صورتحال بہتر ہوئی ہے اور معمولات زندگی معمول پر ہے تاہم حال ہی میں متعدد افواہیں پھیلائی گئی

جس سے کشیدہ صورتحال پیدا ہوگئی۔ اس کے پس منظر انتظامیہ نے خدشہ ظاہر کیا کہ ڈاکٹر شاہ فیصل کوئی بیان دیں گے جس سے نظم و ضبط میں خلل پیدا ہوسکتا ہے، اس کی بنیاد پر شاہ فیصل پر پی ایس اے لگایا گیا۔

شاہ فیصل کو 14 اگست کے روز دہلی ائیر پورٹ سے حراست میں لیا گیا تھا۔ جس کے بعد انہیں دہلی سے سرینگر واپس لایا گیا اور تب وہ نظر بند ہیں۔

گزشتہ برس 5 اگست کو مرکزی حکومت کی جانب سے دفعہ 370 کو منسوخ کرنے اور ریاست کو دو مرکزی علاقوں میں تقسیم کر دیا۔ اس فیصلے سے قبل اور بعد میں درجنوں ہند نواز سیاسی رہنماوں کے علاوہ علیحدگی پسند رہنما، وکلا،

تاجر سمیت تقریبا 4 ہزار افراد کو حراست میں لیا تھا۔اگرچہ گرفتار شدگان میں سے متعدد افراد کو رہا کیا گیا، تاہم تین سابق وزرائے اعلی، کئی سابق کابینہ وزرا اور علیحدگی پسند رہنما ابھی بھی نظر بند ہیں۔
فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے علاوہ علی محمد ساگر،

سرتاج مدنی، نعیم اختر، ہلال اکبر لون پر پی ایس اے عائد کرکے ان کی معیادِ نظر بندی میں مزید توسیع کردی ہے۔ساوتھ ایشین وائر کے مطابق انتظامیہ نے ان رہنماوں پر عائد کردہ پی ایس اے کے ڈوزیئر جاری کیے ہیں۔

عمر عبداللہ پر عائد پی ایس اے کے ڈوزیئر میں کہا گیا ہے کہ وہ ملی ٹینسی کے عروج اور الیکشن بائیکاٹ کے باوجود بھی ووٹ حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان پر یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ

انہوں نے ٹویٹر کے ذریعے لوگوں کو ملک کی سالمیت اور مرکزی حکومت کی طرف سے آئینی دفعات 370 اور 35 اے کی تنسیخ کے خلاف اکسایا

جبکہ محبوبہ مفتی پر عائد پی ایس اے کے ڈوزیئر میں کہا گیا ہے کہ وہ علیحدگی پسندوں کی ساتھی ہیں۔


ڈاکٹر شاہ فیصل پر پی ایس اے کا اطلاق انتہائی حیران کن:چدمبرم
جموں کشمیر میں پی ایس اے کا غلط استعمال کیا جارہا ہے

سری نگر ،

سابق آئی اے ایس افسر ڈاکٹر شاہ فیصل پر پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کرنے پر شدید تشویش کااظہار کرتے ہوئے بھارت کے سابق مرکزی وزیر داخلہ اور کانگریس کے سنیئر رہنما پی چدمبرم نے کہا کہ

جموں کشمیر میں انتظامیہ پی ایس اے کا غلط استعمال کر رہی ہے ۔  انہوںنے کہا کہ آئی اے ایس ٹاپر پر پی ایس اے کے اطلاق سے میں حیران ہوں ۔

اپنے ٹویٹر پیغام میں پی چدم مبرم نے کہا کہ الزامات کے بغیرہی سیاسی لیڈران نظربند رکھنا جمہوریت میں ایک بدترین عمل ہے۔

خیال رہے کہ جمعرات کو سابق آئی اے ایس افس کی چھ ماہ بعد گرفتاری ختم ہونے کو تھی لیکن حکومت نے ریاست کی سلامتی کا حوالہ دے کر ان پر پبلک سیفٹی ایکٹ لگا دیا۔


محبوبہ مفتی ایام نظربندی تلاوت قرآن، ادائیگی نماز، کتابیں پڑھنے اور الجزیرہ دیکھنے میں گزار رہی ہیں

سری نگر ،

پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی جن کا اکثر وقت سیاسی سرگرمیوں میں گزرتا تھا اب مولانا آزاد روڑ پر واقع سرکاری کوارٹر میں ایام نظربندی تلاوت قرآن پاک، ادائیگی نماز پنجگانہ، قطری نشریاتی ادارہ الجزیرہ ٹی وی دیکھنے اور کتابیں پڑھنے میں گزار رہی ہیں۔

ساٹھ سالہ محبوبہ مفتی، جنہیں پانچ اگست 2019 کو حراست میں لیکر چشمہ شاہی کے گیسٹ ہائوس میں نظربند کیا گیا تھا، کو گزشتہ برس نومبر کے وسط میں مولانا آزاد روڑ پر واقع سرکاری کوارٹر منتقل کیا گیا ۔
التجا مفتی نے اپنی والدہ کی نظربندی کے دوران مصروفیات کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتے ہوئے بتایاکہ محبوبہ جی جو ہمیشہ اپنے لوگوں کے درمیان رہنا پسند کرتی تھیں اب اپنی نظربندی کے دوران الجزیرہ ٹی وی دیکھتی ہیں، کتابیں پڑھتی ہیں، قرآن پاک کی تلاوت کرتی ہیں، پانچ وقت کی نماز پابندی سے ادا کرتی ہیں۔

التجا، جنہوں نے اپنی والدہ کا ٹویٹر ہینڈل متحرک رکھا ہے اور اس ٹویٹر ہینڈل سے اکثر ٹویٹ کرتی رہتی ہیں، کے مطابق محبوبہ مفتی وقت گزاری اور اکتاہٹ کو دور کرنے کے لئے عالمی شہرت یافتہ مصنفین جیسے الف شفق، رضا اصلان، امیتو گھوش، نیلسن منڈیلا کی کتابیں پڑھتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ محبوبہ جی نے لکھنا بھی شروع کیا تھا لیکن وہ سلسلہ بعد میں بند ہوگیا۔ تاہم انہوں نے اس سوال کا جواب دینے سے انکار کیا کہ محبوبہ نے کب لکھنا شروع کیا تھا اور کیا کچھ لکھا ہے۔

التجا مفتی نے نظر بندی کے دوران محبوبہ مفتی کو دستیاب سہولیات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ محبوبہ جی کو ڈش ٹی وی کنکشن کی سہولیت دستیاب ہے لیکن ٹیلی فون اور انٹرنیٹ دستیاب نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ اپنی والدہ کو لوگوں کے بارے میں فیڈ بیک دیتی رہتی ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ لوگ کس حال میں ہیں میری محبوبہ جی کے ساتھ اس پر بات ہوتی ہے۔

انہیں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ حکومت عبداللہ اور مفتی خانوادے کی اہمیت و افادیت ختم کرنا چاہتی ہے، اس کا مطلب ہے کہ حکومت ہم سے گھبرائی ہوئی ہے۔


نیشنل کانفرنس کا پنچایتی انتخابات لڑنے کا فیصلہ

سری نگر ،

جموں و کشمیر کی مقامی سیاسی پارٹی نیشنل کانفرنس نے اگلے ماہ مارچ میں ہونے والے پنچایتی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔تاہم انہوں نے انتظامیہ پر زور دیا کہ پارٹی اسی صورت میں انتخابی مہم بہتر طریقے سے چلا سکتی ہے

جب نیشنل کانفرنس کے لیڈران اور کارکنان کو ایک بہتر ماحول فراہم کیا جاسکے اور تب ہی انتخابات میں امیدوار اور کارکنان آنے والے انتخابات میں اپنی مہم چلانے میں کامیاب ہونگے جب انتظامیہ ان کے خدشات کو دور کرسکے گی ۔

نیشنل کانفرنس کے سکریٹری رتن لال گپتا نے چیف الیکٹرول آفسر شیلندر کمار کے نام ایک مکتوب میں ان باتوں کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پارٹی ملک کی جمہوریت میں یقین رکھتے ہوئے 5مارچ سے آٹھویں مرحلے کے پنچایتی انتخابات میں بھر پور طریقے سے حصہ لے گی۔

این سی کے سنٹرل سکریٹری نے مزید کہا ہے کہ اگرچہ پارٹی نے اس مرحلے میں تمام سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا ہے

تاہم نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ، نائب صدر عمر عبداللہ اور جنرل سکریٹری علی محمد ساگر کے بغیر انتخابی مہم چلانے میں پارٹی کو کئی چلینجز کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

پارٹی کے صدر، نائب صدر اور جنرل سکریٹری گزشتہ 6 ماہ کے زائد عرصے نظر بند ہیں ۔


مقبوضہ جموں و کشمیر:پولیس پر ایک اور صحافی کو ہراساں کرنے کا الزام

سرینگر

کشمیر پریس کلب نے اپنے ایک پریس بیان میں صحافیوں اور فوٹو جرنلسٹس پر مسلسل پولیس کی جانب سے ہراساں کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔

اپنے ایک بیان میں پریس کلب کے ترجمان نے ملٹی میڈیا جرنلسٹ کامران یوسف کو پولیس کی جانب سے ہراساں کرنے اور ان کے ساتھ ایک مجرم کی طرح سلوک روا رکھنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

ترجمان نے پولیس کی طرف سے لگاتار وادیٔ کشمیر کے صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کے عمل کو اظہار رائے اور جمہوریت کے منافی قرار دیا ہے۔

پریس بیان میں کہا گیا ہے کشمیر کے صحافی گزشتہ چند ماہ سے جن مشکل حالات اور بغیر انٹرنیٹ کے اپنے پیشہ وارانہ فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اس سے ہر ایک بخوبی واقف ہے۔ اب پولیس کی طرف ٹویٹر ہینڈل، وہاٹس ایپ اور ای میل کے استعمال سے صحافیوں کو روکنا قانون اور جمہویت کے منافی ہے۔

پریس کے نام بیان میں کہا گیا ہے کہ پولیس کی جانب سے اس قسم کی کارروائیوں سے نہ صرف پولیس بلکہ انتظامیہ کے اعلی افسران کو بھی اس بات کا احساس کرنا چاہیے۔

نیوز کلک سے وابستہ ملٹی میڈیا جرنلسٹ کامران یوسف کو گزشتہ کل پولیس کی بھاری جمعیت نے اپنے گھر سے گرفتار کر کے ایک ہمنام ٹویٹر ہینڈل سے ٹویٹ کے متعلق پوچھ گچھ کے لیے مجرمانہ سلوک کیا۔ وہیں تلاشی کی آڑ میں ان کا فون بھی چھین لیا۔

کامران نے کہا کہ پولیس نے ان کے تمام سوشل میڈیا اکائنٹس اور ٹویٹر ہینڈل کو چیک کرنے کے بعد رات میں ایک بجے رہا کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ رات کے وقت گھر سے گرفتار کرنے سے نہ صرف انہیں ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ان کے گھر والوں کو بھی پولیس کی جانب کی گئی اس کارروائی سے کافی پریشانی اٹھانا پڑی۔

About The Author