نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شاعر، ادیب، مترجم ، ڈاکٹر علی یاسر 44 برس کی عمر میں انتقال کر گئے

آپ کے والد کا نام حبیب حیدر ہے- علی یاسر کی عمر کے ابتدائی سولہ سال گوجرانوالہ میں ہی گزرے اور وہ 1994 میں اسلام آباد آ گئے تھے،۔

اسلام آباد: شاعر، ادیب، مترجم ، اینکر پرسن ڈاکٹر علی یاسر 44 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔

وہ اکادمی ادبیا ت پاکستان کے ایک محنتی افسر تھے۔

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود اور پارلیمانی سیکرٹری غزالہ سیفی نے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔

سیکرٹری ورثہ ڈویژن، انعام اللہ خان اورچئیرمین اکادمی، محمد سلمان نے دکھ کا اظہار کیا ہے۔

ان کی نماز جنازہ آبائی شہرگوجرانوالہ میں بعد از نما زعصر ادا کی جائے گی۔ ملک بھر کے اہل قلم اور ادبی تنظیموں نے ان کے اچانک انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔

19فروری2020 کو اکادمی ادبیات پاکستان میں تعزیتی ریفرنس ہوگا۔

شاعر، ادیب، محقق، نقاد، مترجم، ریڈیو ٹی وی رائیٹر اور اینکر پرسن ڈاکٹر علی یاسر کا تعلق اسلام آباد سے تھا اور وہ 13 دسمبر 1976 کو پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے-

آپ کے والد کا نام حبیب حیدر ہے- علی یاسر کی عمر کے ابتدائی سولہ سال گوجرانوالہ میں ہی گزرے اور وہ 1994 میں اسلام آباد آ گئے تھے،۔

علی یاسر نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے اردو کیا اور پھر علامہ اقبال یونیورسٹی اسلام آباد سے اردو میں ایم فِل کرنے کے بعد اسی مضمون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی ۔

علی یاسر نے 1990 میں شاعری کا آغاز کیا اور ابتدا میں اپنے دادا امیر علی ساتھی سے اصلاح لی- ان کی تعلیمی سرگرمیاں بھی اردو کے حوالوں سے جاری رہیں اور یوں ان کا ادبی ذوق اور مہارت بڑھتی رہی- انہوں نے ادبی حلقوں میں اپنی مضبوط پہچان اور جدا رنگ قائم کیا-

علی یاسر نے ادب کی سرپرستی کے لئے قائم حکومتی ادارے اکادمی ادبیات میں ملازمت اختیار کی اور یوں نہ صرف ملک بھر کے ادبی حلقوں سے وابستہ ہو گئے بلکہ شعر و ادب کی خدمت کا بیڑا بھی اٹھایا- وہ اکادمی ادبیات میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر مامور تھے۔

شاعری میں اپنی پہچان رکھنے والے علی یاسر میڈیا سے بھی وابستہ تھے اور ریڈیو اور ٹی وی کے پروگرامات میں شریک بھی ہوتے رہے اور ان کی میزبانی بھی کرتے رہے- وہ پاکستان ٹیلی ویژن، ریڈیو پاکستان اور علامہ اقبال یونیورسٹی ایف ایم ریڈیو پر باقاعدہ پروگرامات کے میزبان رہے۔

انہوں نے پی ٹی وی کے لئے بہت سی دستاویزی فلمیں، سکرپٹس اور نغمے لکھے- بطور مترجم انہوں نے انگریزی اور پنجابی سے اردو میں تراجم کئے جن میں “چین کی محبت کی نظمیں” اور “نوبل لیکچر” وغیرہ شامل ہیں- علی یاسر علامہ اقبال یونیورسٹی سے جُز وقتی استاد کے طور پر بھی وابستہ  رہے۔

علی یاسر تواتر سے مشاعروں میں شریک ہوتے رہے اور اکثر مشاعروں کی نظامت بھی کرتے رہے- وہ پاکستان کے مختلف شہروں میں ادبی محافل اور مشاعروں میں شرکت کے علاوہ دبئی، ابو ظہبی اور نئی دلی میں مشاعروں میں بھی شریک ہو چکے ہیں-

“ارادہ” کے نام سے علی یاسر کی غزلوں کا مجموعہ 2007 میں منظر عام پر آیا جبکہ 2016 میں ان کی غزلوں کا دوسرا مجموعہ “غزل بتائے گی” کے عنوان سے شائع ہوا- علی یاسر نے 2008 اور 2010 میں اہلِ قلم ڈائری کو مرتب کیا- “کلیاتِ منظور عارف” اور “اردو غزل میں تصورِ فنا و بقا” کے عنوانات سے کتابیں زیرِ طبع ہیں- ان کا کلام ادبی رسائل و جرائد میں تواتر سے شائع ہوتا ہے-

About The Author