دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بنیادی اصول کون سکھائے گا؟ ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چھوٹا بیٹا ساتھ تھا۔ ہمارے ڈرائیور نے مسکراتے ہوئے اسے مخاطب کر کے کہا کہ دیکھو عبداللہ ، یہ کیسے لڑ رہے ہیں۔

سوشل میڈیا کی خوبیوں، خامیوں پر طویل بحث ہوسکتی ہے، اس میں اصلاح کی بے پناہ گنجائش ہے اور کچھ ایسے مفید پہلو بھی ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ مختلف ممالک، کلچر، پس منظر کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ انٹرایکشن کر رہے ہیں۔

فیس بک پوسٹوں میں اچھی چیزیں مل جاتی ہیں، اگرچہ اس کے لئے اپنا حلقہ احتیاط سے بنانے کی ضرورت ہے۔کوشش کی جائے تو کچھ نہ کچھ مفید مل ہی جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک معروف فیس بکی بلاگر اور ٹورازم ایکسپرٹ محمد عبدو نے ایک دلچسپ پوسٹ کی۔

عبدو بڑے زبردست قسم کے انصافین ہیں اور اکثر قلم سے شمشیر براں کا کام لیتے ہوئے اپنی پارٹی اور لیڈر کا جارحانہ دفاع کرتے ہیں، سیاحت کے حوالے سے ان کا کام گراں قدر ہے، کئی کتابیں لکھیں، بے شمار ٹورز ارینج کرائے۔ خاصے عرصے سے جنوبی کوریا میں مقیم ہیں، اہلیہ کورین ہیں،خود عمدہ کورین زبان بولتے ہیں،اس لئے مقامی کلچر کے حوالے سے اچھالکھتے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے اپنے ایک دلچسپ مشاہدہ پرمبنی پوسٹ کی ۔ لکھتے ہیں:” میںورزش کے لئے جس جم میں جاتا ہوں ، وہاں ایک عجیب واقعہ پیش آیا ، ایک صاحب ویٹ ٹریننگ کر رہے تھے، اچانک ہی گرگئے ، ان کا پٹھہ چڑھ گیا اور شدید تکلیف سے کراہنے لگے۔

میرے قریب ہی ایک صاحب ورزش کر رہے تھے،ان کا جسم باڈی بلڈروں جیسا تھا، وہ کہنے لگے کہ میں چند دنوں سے دیکھ رہا تھا کہ یہ صاحب جو نیچے گرے پڑے ہیں، غلط طریقے سے ویٹ لفٹنگ کر رہے تھے۔

میں نے ان سے پوچھاکہ آپ نے پھر انہیں بتایا کیوں نہیں ؟ وہ کورین کہنے لگا کیونکہ انہوں نے مجھ سے اس بارے میں کبھی پوچھا نہیں ، اس جم کے اپنے ٹرینرز ہیں جو ہر ایک کی رہنمائی کرتے ہیں،ورزش کرنے والوں کی تکنیک پر نظر رکھنا اور غلط طریقے کی اصلاح کرنا ان کا کام ہے ۔

میں بلا مانگے کسی کے کام میں دخل کیسے دے سکتا ہوں؟ ہاں اگر یہ صاحب مجھ سے مشورہ لیتے یا رائے طلب کرتے تو یقینا اپنے علم اور تجربے کی حد تک میں انہیں رہنمائی فراہم کرتا۔ “عبدو نے یہ واقعہ بتانے کے بعد لکھا کہ بظاہر ہم پاکستانیوں کو یہ بات عجیب اور غلط لگی ہوگی، مگر یہ جنوبی کوریا کا عام رواج ہے۔

کورین لوگوں کو بچپن ہی سے اس کی تربیت دی جاتی ہے کہ اپنے کام سے کام رکھو اور بلاضرورت کسی دوسرے کے کام میں ٹانگ نہ اڑاﺅ۔ کوئی مشورہ مانگے تو ضرور دو، مگر بلا طلب کوئی رائے نہ دی جائے کہ ہر ایک کی اپنی پرائیویسی ہوتی ہے، اسے سپیس ملنی چاہیے۔کورین یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارناہر ایک کا حق ہے،دوسرے کے معاملات میں ناک گھسانا ان کی زندگی میں دخل دینے اور تکلیف پہنچانے کے مترادف ہے۔ “

کوئی چاہے تو جنوبی کورین کلچر کے اس پہلو پر تنقید کر سکتا ہے، اوپر بیان کئے گئے واقعہ میں ایک طرح کی شدت نظر آتی ہے۔ ہم پاکستانیوں کو بہرحال اس کورین رواج سے سیکھناچاہیے ۔ ہمارے ہاں دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی عام ہے۔ دو تین سال پہلے ٹی وی پر ایک اشتہار آتا جس میں پڑوسن خاتون ساتھ والے گھر میں کوئی چیز مانگنے جاتی اور پھر کچن میں سالن پکنے کی خوشبو سونگھ کر وہاں تک پہنچ جاتی، میزبان خاتون سے پوچھے بغیرہی ازخود تیز مسالہ ڈال دیتی کہ قورمہ تو سپائسی اچھا لگتا ہے۔ میزبان ہکے بکے دیکھتے رہ جاتے کہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے؟وہ اشتہار تھا،مگر ہم میں سے بہت سوں کو ایسے ہمسایوں یا رشتے داروں کا تجربہ ہوا ہوگا۔

روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ قریبی عزیزوں، جاننے والوں، دوستوں میں کوئی نئی گاڑی خریدے تو اس کے رنگ، ماڈل ،برانڈ پر تنقید کرنے والے کئی سامنے آ جاتے ہیں۔ بھئی تمہارا کیا تعلق ؟ جس کی گاڑی ہے ، وہی بہتر جانتا ہے۔آپ اپنا ہیر سٹائل تبدیل کرنے کی کوشش کریں، کلین شیو کرا دیں یا پھر ڈاڑھی رکھ لیں، پینٹ شرٹ پہننے والے شلوار قمیص میں دفتر چلے جائیں یا کرتہ شلوار پہننے والے کسی روز جینز پہن لیں…. کوئی نہ کوئی مہربان اپنے تنقیدی مشوروں سمیت ضرور سامنے آئے گا۔

کسی کے بال گررہے ہیں تو یہ اس کا ذاتی مسئلہ ہے۔ وہ مشورہ مانگے تو ضرور دیں، مگر ہمارے ہاں بن مانگے تنقید اور مشورہ ضرور دیا جائے گا۔کوئی صاحب ہومیو پیتھک، آکو پنکچر یا کسی اور طرزکا علاج کرانا پسند کرتے ہیں، انہیںاپنا معاملہ خود نمٹانے دیں۔اس کے بجائے کوئی نہ کوئی یہ احساس دلانے کا بیڑا ضرور اٹھائے گا کہ آپ جہالت کی دلدل میں دھنسے ہیں، فوری طور پر اپنا علاج تبدیل کرائیں، وغیرہ وغیرہ۔ ایک بار پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جن دنوں میرے پاس موٹرسائیکل تھی، ہرروز کوئی نہ کوئی مشورہ دیتا کہ ہیوی بائیک لو ، وہ تم پر سوٹ کرے گی۔ ایسے تو بہت تھے جو اپنی دانست میں بڑے خلوص سے کہتے کہ آپ اب گاڑی خرید لیں۔

اللہ کے بندو، اگر میرے پاس پیسے ہوں گے توگاڑی لینے سے پہلے تم سے اجازت لوں گا؟پھر ایک پرانی مہران گاڑی آئی تو ایسے سینکڑوں مشورہ دینے والے ملے جو تقریباً ہر روز یاد دلاتے کہ آپ کی شخصیت پر یہ 800 سی سی گاڑی جچتی نہیں، کم از کم ہزار سی سی یا تیرہ سو سی سی لیں،” صرف“بارہ چودہ لاکھ میں آ جائے گی(ان دنوں اتنے میں مل جاتی تھی)۔اس بلامانگے احمقانہ مشورے پر حیرت اور الجھن ہوتی کہ میرے حالات میں جانتا ہوں یایہ مشورے دینے والے صاحب ۔

یہ کالم لکھنے کی وجہ دو واقعات بنے، گنجائش زیادہ نہیں رہی، مختصرا بیان کرتا ہوں۔ چند دن پہلے شوکت خانم فلائی اوور کے پاس سے گزر رہا تھا کہ وہاں ایک نجی یونیورسٹی کے باہر کسی فیملی کی چند خواتین میں لڑائی ہوگئی۔

کوئی نجی معاملہ ہوگا، تلخی بڑھی اور سڑک کنارے ہی تلخ کلامی ہونے لگی۔ مجھے شدید حیرت ہوئی کہ یونیورسٹی کے کئی طلبہ اکٹھے ہو کر دھڑا دھڑ موبائل سے ویڈیوز بنانے لگے۔ شدید کوفت ہوئی کہ ان نوجوانوں کو کسی نے یہ نہیں سکھایا کہ یہ ان کا خانگی معاملہ ہے، بغیر پوچھے آخر کس طرح ویڈیوز بنا سکتے ہیں؟

چھوٹا بیٹا ساتھ تھا۔ ہمارے ڈرائیور نے مسکراتے ہوئے اسے مخاطب کر کے کہا کہ دیکھو عبداللہ ، یہ کیسے لڑ رہے ہیں۔ میں نے بچے کو مخاطب کیا اور سمجھایا کہ یہ ان کا نجی معاملہ ہے، ہمیں اسے نظرانداز کرنا چاہیے، ہمیں تماشا دیکھنے کا کوئی حق نہیں۔ بعد میں گھر جا کر بھی سمجھایا کہ کسی فرد یا گھرانے کی پرائیویسی کیا ہوتی ہے اور ہمیں کس طرح دخل دینے سے گریز کرنا چاہیے۔

دوسرا واقعہ اگلے ہی روز ہوا۔ ایک بینک کے اے ٹی ایم سے پیسے نکلوا رہا تھا۔لنک سلو تھا تو مشین سے پیسے نکلنے میں دو تین منٹ لگ گئے، اس دوران باہر سے زور دارانداز میں دروازہ بجایا گیا، چندلمحوں کے بعد پھر دستک دی گئی، کیش نکلنے تک تین بار ایسا ہوا۔ باہر آیا تو اچھی بھلی پڑھی لکھی نظر آنے والی ماڈرن خاتون کھڑی آگ برساتی نظروں سے گھور رہی تھیں۔ میں نے معذرت کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ اندر چلنے والی موسیقی اچھی نہیں، گانوں کی سلیکشن بھی بری ہے۔ ایک لمحے کے لئے حیرت سے ان کا منہ کھلا رہ گیا۔ بے اختیار پوچھا ، اندر گانے لگے ہوئے ہیں؟جواب دیا کہ آپ تو شائد یہی سمجھ رہی تھیں کہ میں اندر کھڑا گانے سن رہا ہوں، اس لئے بار بار دستک دی کہ باہر آجاﺅ ، اب ہمیں گانے سننے دو۔ تب انہیں سمجھ آیا کہ طنز کیا گیا تھا۔ بغیر کسی شرمندگی کے، ڈھٹائی سے فرمانے لگیں ،میں سمجھی کہ شائد مشین چل نہیں رہی۔

عرض کیا کہ آپ کے دستک دینے سے کیا مشین نے چل پڑنا تھا؟یہ افسوسناک مشاہدہ بھی عام ہے۔ لوگ یہ بات نہیں سمجھتے کہ جو اے ٹی ایم کیبن کے اندر ہے، وہ کسی مجبوری کی وجہ ہی سے رکا ہوا ہے، اگر چند منٹ لگ گئے تو یقینی طور پر مشین سست کام کر رہی ہوگی ،دستک دینے سے کیا ہوجائے گا؟اسی طرح اکثر اشاروں پر سنگل سبز ہونے کے بعد آپ کی گاڑی ایک سکینڈ کے اندر آگے نہیں بڑھی تو پیچھے سے ہارن بجنا شروع ہوجاتے ہیں۔ کئی بارٹریفک بمپر ٹو بمپر چل رہی ہوتی ہے، ایسے میں بھی خواہ مخواہ ہارن بجنے لگتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ سڑک پر پھنسی ٹریفک میں وقت گزارنے کا کس کا جی چاہے گا؟ اگر کوئی گاڑی ایک جگہ رکی ہوئی ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ آگے والی گاڑی حرکت نہیں کر رہی ۔ایسے میں ہارن بجانا بے فائدہ ہے۔

سوال یہ ہے کہ ان بنیادی باتوں کے حوالے سے ہمیں کون تربیت دے گا؟ کچھ باتیں گھروں میں سکھانی چاہئیں، والدین کے پاس شائد اتنا وقت نہیں، کچھ گھروںمیںپرانی نسل کی اتنی استعداد یا تعلیم ہی نہیں۔ دوسرا بڑا اور اہم ترین مرکز تعلیمی ادارے ہیں۔ افسوس کہ وہاں تربیت نام کی کوئی چیز نہیں رہ گئی۔سکول سسٹم اس حوالے سے مکمل فیل ہوچکا، اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ترجیحات ہی دوسری ہیں۔ایک زمانے میں پی ٹی وی سے پبلک سروس میسج پر مبنی مختصر ویڈیوز کا سلسلہ چلا تھا، صفائی، ٹریفک ، سوک سینس وغیرہ پر۔

آج میڈیا کی بھی یہ ترجیح نہیں۔ ایسے میں تربیت کون کرے گا؟میرا تو خیال ہے کہ ہمیں ازخود اپنی استعداد، شعور اور سینس بڑھانی پڑے گی۔ اس کا مگر احساس کون دلائے گا؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈنا چاہیے۔

About The Author