ملک اور معاشرے سے جرائم کے خاتمے کے لیے اور سماجی مسائل کے حل کے لیے اگر سماج کے تمام طبقے اور تمام لوگ دیانتداری سے اپنا اپنا فرض نبھانے لگ جائیں. جرائم اور جرائم پیشہ عناصر کا کسی بھی وجہ سے رکھ رکھاو کرنا چھوڑ دیں.ظالم اور ظلم کی بجائے مظلوم اور سچ کا ساتھ دینے کا تہیہ کر لیں.
ظالم اور طاقت ور کے خوف سے خاموش رہنے کی روش ترک کردیں. قانون، قانون نفاذ کرنے والے اداروں اور محافظوں کے معاون بن جائیں تو یقین کریں کہ کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے معاشرے میں سے جرائم کا خاتمہ نہ ہو سکے. ہمارے مسائل کے حال میں آسانیاں اور حیران کن پیش رفت نہ ہو سکے. لیکن دوسری جانب یہ بھی کڑوا سچ ہے کہ جب سے اداروں میں سیاسی مداخلت بڑھی ہے.
سیاسی لوگوں نے اپنے اپنے کارندے ان اداروں میں گھسائے ہیں. تب سے حالات بد سے بدتر یوتے چلے گئے ہیں. اداروں کے اندر موجود کالی بھیڑوں کی وجہ سے عوامی گھیپ بڑھتا اور اعتماد کمزور ہوتا چلا گیا.
جب جرائم اور جرائم پیشہ عناصر کی نشاندہی کرنے والے خود نشان عبرت بننے لگے تو معاملہ بالکل ہی الٹ ہو گیا.پولیس کو قانون اور عوام کا محافظ کہنے کی بجائے کچھ اور کہا جانے لگا. خیر چھوڑیں یہ ایک علیحدہ اور طویل بحث ہے. ہم اپنے آج کے ہیڈ ٹاپک اور ایک ذیلی ٹاپک کی طرف آتے ہیں.
رحیم یار خان شہر کے پوش علاقے سٹیلائٹ ٹاون کے فیملی پارک زم زم گراؤنڈ سے 11فروری کی شام کو وہاں سیر کے لیے آنے والی ایک فیملی کی ڈیڑھ سالہ بچی خوشاب فاطمہ اچانک اور چپکے سے اغوا ہو گئی.
بس اتنا سا پتہ چل سکا کہ موقع سے اغوا کرنے والی عورت ہے. پتہ چلتے ہی یہ خبر سوشل میڈیا کے ذریعے فورا جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی. اطلاع ملتے ہی تھانہ بی ڈویژن کی پولیس موقع پر پہنچی.فرض شناسی کے حوالے سے شہرت یافتہ ڈی ایس پی جاوید اختر جتوئی اور ان کی ٹیم نے اپنے طریقے کار کے مطابق کاروائی اور تلاش کا کام شروع کر دیا. گذشتہ کچھ دنوں سے رحیم یارخان میں موٹر سائیکل چوری اور ڈکیتی کی یکے بعد دیگرے وارداتوں سے لوگ پہلے ہی پولیس کے بارے میں سوالیہ انداز میں کئی باتیں کرنے لگے تھے.
سوشل میڈیا منفی اور مثبت دونوں قسم کے اثرات رکھتا ہے. سوشل میڈیا کی وجہ سے ڈیڑہ سالہ بچی کے اغوا کی خبر اور اس کی تصویر ابتدائی دو تین گھنٹوں میں ہی گھر گھر پہنچ گئی. اس آگاہی کا ہی نتیجہ ہے کہ غوثیہ کالونی رحیم یار خان کےایک فرض شناس شہری کو اپنی ہمسائیگی میں بچی کے مسلسل رونے کی آوازیں آئیں. اللہ کا کرنا اسے شک گزارا اور خیال آیا اس نے چپکے سے پولیس کو آگاہ کرنے کا فیصلہ کر لیا.
پولیس کو کال کرکے صورت حال سے آگاہ کیا. ایس ایچ او بشارت نیازی فورا نفری کے ہمراہ پہنچے گھر پر ریڈ کیا.اللہ تعالی نے کامیابی سے نوازا. بچی کی بازیابی کے وقت ڈی ایس پی جاوید اختر جتوئی بھی موقع پر موجود تھے.
میرے نزدیک بچی کی بازیابی میں ابتدائی کردار سوشل میڈیا کا ہے. جس کی وجہ سے گھر گھر اغوا کا علم اور آگاہی ہوئی. سب سے اہم ترین کردار اس عظیم شہری کا ہے جس نے جن وجوہات کی بنا پر بھی کچھ محسوس کیا. ہمسائیگی کی پرواہ کیے بغیر فورا چپکے سے پولیس کو آگاہ کر دیا.
اگر یہ شخص پولیس کو آگاہ نہ کرتا تو بچی کا ملنا اتنا آسان نہ تھا. پولیس اور اداروں کو ایسے شہریوں کی عزت اور قدر کرنی چاہئیے. یہی سوچ اور یہی کردار ہی کامیابی کی ضمانت ہیں.پولیس نے بروقت کاروائی کرکے اغوا ہونے والی بچی کو بازیاب کرالیا. پولیس اگر روایتی سستی کا مظاہرہ کرتی اغوا کار خاتون کا کالی بھیڑوں میں سے کسی کے ساتھ رابطہ ہوتا تو باہمی تعاون کے نتیجے میں ادھر اُدھر ہونا تو معمولی سے بات تھی.گرفتار ہونے والی ماریہ کا یقینا کسی بڑے گروہ سے واسطہ ہوگا.یہ گھر اور یہ لوگ جرائم اور دیگر دھندوں میں ملوث ہوں گے. پولیس کو چاہئیے کہ وہ باریک بینی سے چھان بین اور تحقیق کرے.
محترم قارئین کرام، رحیم یار خان کے بہترین کرائم رپورٹر صحافی نور محمد سومرو کی رپورٹ کی گئی ایک اور خبر بھی آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں. ُ ُ اقلیتی برادری کےافرادبیربل‘مکھناجی‘ آشارام ودیگرنے اہلخانہ کے ہمراہ احتجاج کرتے ہوئے میڈیاکوبتایاکہ چک نمبر96 پی کے با اثر زمیندار نے اقلیتی برادری کے لئے جو پینے کا پانی تھا اس جگہ پر قبضہ کرکے ان کے تالاب کو مٹی ڈال کر بند کر دیا ہے اب اقلیت برادری کے پاس پینے کے لئے پانی بھی موجود نہ ہے نہ ہی جانوروں کے پینے کے لئے پانی ہے اور گھریلو استعمال نہانے دھونے کے لئے پانی کی شدید قلت ہے سرکاری تالاب کا منظور شدہ پانی جو کہ 45 منٹ نہری پانی کو اپنی زمین کے لیے استعمال کرتا ہے لہذا اقلیت برادری پر ترس کھاتے ہوئے ان کے پینے کے پانی کے تالاب کو واگزار کروایا جائے اور اقلیت برادری کے لیے پینے کے پانی والے تالاب کو پختہ کیا جائے تاکہ اقلیت برادری پاکستان سکون کی زندگی گزار سکیں انہوں نے کمشنربہاولپوراورڈپٹی کمشنررحیم یارخان سے نوٹس لے کرپانی کی فراہمی یقینی بنانے کامطالبہ کیاہے۔ ٗ ٗ
یہ کوئی اچھی بات نہیں. اس پہلے کہ بات پھیل کر آگے نکل جائے اور جگ ہنسائی کا باعث بنے.انتظامیہ فورا معاملے کی حقیقت اور حقائق کو دیکھے. چودھراہٹ کا مظاہرہ اور انتہائی گھٹیا حرکت کرنے والے بااثر آدمی سے باز پرس کرے. اس نے کس حیثیت سے اور کن وجوہات کے تحت اقلیتی برادری کا پانی بند کیا ہے. اس کے خلاف قانونی کاروائی کرکے مسئلے کو حل کرے. یہ اقلیتی لوگ بھی صدیوں پرانے وسیب واسی اور پاکستانی ہیں.وہ بھی ہماری طرح شہری حقوق رکھتے ہیں. ان کے سرکاری منظور شدہ پانی کو بند کرنا کسی طرح بھی درست نہیں ہے.
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر