جب آپ کتابیں نہیں پڑھتے تو پھر آپ ہندوستان پر ترکوں کو چھ سو سال راج کرنے کا کریڈٹ دیتے ہیں اور فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔ جو کام ترک نہیں کرسکے وہ ایک ہی ہلے میں ہم نے کر دیا۔ یقینا ترک بھی سوچتے ہوں گے کہ ہمارے پرکھوں نے تو ہمیں کبھی نہیں بتایا کہ ہم نے ہندوستان پر چھ سو سال حکومت کی تھی۔ ہوسکتا ہے وطن واپسی پر طیب اردوان ایک انکوائری آرڈر کرائیں کہ ہم ترکوں نے اپنی درسی کتب میں عظیم ترکوں کا یہ کارنامہ کیوں نہیں چھاپا ‘تاکہ ہماری نئی نسلوں کو پتہ چلتا کہ ہم کتنے بہادر تھے کہ کروڑوں لوگوں کو چھ سو سال تک ہندوستان میں اپنی رعایا بنا ئے رکھا۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ ترک ایک بہادر قوم ہے اور اس نے دنیا کے مختلف حصوں پر طویل حکمرانی کی‘ لیکن ایک خطے پر چھ صدیوں تک حکمرانی تو گورے بھی جدید اسلحے اور ٹیکنالوجی کے ساتھ نہیں کرسکے تھے اور سو ڈیڑھ سو سال بعد انہیں بھی اپنا بوریا بستر گول کرنا پڑ گیا تھا۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ گورے نالائق ہوگئے تھے اور ہندوستانی ان سے تعلیم اور سائنس میں بہت آگے نکل گئے تھے اورگورے خوفزدہ ہوکر ہندوستان چھوڑ گئے۔ گورے اس لیے ہندوستان سے صرف سو ڈیڑھ سو سال بعد نکل گئے کہ ان کے خیال میں ہندوستان اب ایک بوجھ بن رہا تھا۔ چالیس کروڑ آبادی کا ملک اب ان کے لیے کسی کام کا نہیں رہا تھا۔ جو کچھ سمیٹنا تھا وہ سمیٹ لیا گیا تھا۔ دوسری طرف جنگ عظیم دوم نے گوروں کا کچومر نکال دیا تھا۔ چھ سال کی طویل جنگ نے انگریز سلطنت کا بھٹا بٹھا دیا‘ لہٰذا جنگ کے بعد سب سے پہلے یہ سوچا گیا کہ ان سلطنتوں سے کیسے جان چھڑائی جائے ۔ اگرچہ چرچل ڈٹا ہوا تھا کہ ہندوستان کو آزاد مت کرو ‘لیکن وزیراعظم ایٹلی کو علم تھا کہ وہ خرچ چلانے کے لیے امریکہ سے ایک ارب ڈالرز کا قرض مانگ رہے تھے اور امریکہ آج کے آئی ایم ایف کی طرح دو شرائط برطانیہ کو پیش کر رہا تھا‘اگر ایک ارب ڈالرز لینا ہیں تو پہلے اپنی کرنسی پاؤنڈ کو ڈی ویلیو کرو اور دوسرا ہندوستان سے قبضہ ختم کرو۔ انگریز اپنی کرنسی ڈی ویلیو کرنے کو تیار نہ ہوئے اور دوسرا آپشن یہی تھا کہ ہندوستان چھوڑ دیتے۔
گوروں نے ماضی کے حملہ آوروں کے برعکس پہلی دفعہ ہندوستان کو نئی دنیا کا ایکسپوژردیا۔ جہاں بہت کچھ یہاں سے نکال کر لے گئے‘وہیں انہوں نے ہندوستان کو دیا بھی بہت کچھ۔ اگر ہندوستان اور پاکستان کچھ جدید دنیا کے ساتھ جڑے نظر آتے ہیں تو اس میں گوروں کا سو ڈیرھ سو سال حکمرانی کا بھی ہاتھ ہے۔ اگرچہ بہت سے تاریخ دان یہ بھی کہتے ہیں کہ انگریزوں نے یہاں بہت ظلم کیے‘ مقامیوں کا استحصال کیا‘ ہندوستانی تاریخ کے بدترین قحط کی وجہ انگریز بنے‘ جس میں لاکھوں ہندوستانی مارے گئے۔ انگریزوں کی تعریف کریں تو کہا جاتا ہے یہ احساس ِکمتری ہے‘ غلامی کی فطرت ہے‘ جو کبھی نہیں جاتی۔ لیکن گوروں کو ہمیشہ ایک Edge رہا ہے کہ انہوں نے اپنی حکمرانی کے دور میں ہندوستانی معاشرے کو بہت کچھ واپس لوٹایا۔ سب سے بڑھ کر اس خطے میں جاری جنگوں کو کنٹرول کیا۔جمہوریت دی‘ جس سے کم از کم وہ خونریز لڑائیاں ختم ہوئیں‘ جو اس سے پہلے ہندوستان میں جاری تھیں۔انگریزوں نے ہی ہندوستان میں صدیوں سے جاری اس Myth کو ختم کیا کہ بادشاہ یا مہاراجہ قانون کو جواب دہ نہیں۔ سب ہندوستانیوں کو قانون کے سامنے برابر لا کھڑا کیا۔
انگریزوں کو دوسرے حملہ آوروں پر اس لیے برتری ہے کہ دیگر نے لوٹ مار کی‘ سامان ہاتھیوں پر لادا اور چلتے بنے۔ ہندوستان سے افغانستان‘ سینٹرل ایشیا‘ ایران اور یونان تک سے حملے ہوئے۔ سب اس ملک سے مال و دولت اکٹھی کر کے لے جاتے‘ اس خطے کو مزید غریب کر جاتے۔ سات دریائوں کی دھرتی کے باسی پھر محنت مزدوری سے کچھ کماتے تو پھر افغان اور ایرانی یا سینٹرل ایشین جتھے آتے اور سب کچھ لوٹ لے جاتے۔ نادر شاہ ایرانی نے تو دلی میں وہ لہو بہایا کہ گلیاں خون سے بھر گئیں۔ لوٹ مار کی اور لوٹ گئے۔ اگرچہ مغلوں نے اس روایت کو توڑا اور یہیں بسیرا کرنے کا لمبا منصوبہ بنایا‘ لیکن اس کے پیچھے بابر بادشاہ کی اپنی مجبوریاں بھی تھیں۔ اسے اپنے آبائی وطن میں جس طرح کی مزاحمت اور لڑائیوں کو سامنا کرنا پڑتا تھا اس کے مقابلے میں ہندوستان بہتر تھا‘ جہاں وہ نہ صرف آرام سے حکمرانی کر سکتا تھا‘ بلکہ یہاں دریائوں کی وجہ سے اُگانے اور کھانے پینے کو بھی وافر تھا۔ دوسرے ہندوستانی اقوام اس طرح خونخوار نہ تھیں جس کا سامنا وہ اپنے علاقوں میں کرتا آیا تھا‘ لہٰذا بہتر تھا کہ ابراہیم لودھی کی فوجوں کو شکست دینے کے بعد یہیں مستقل رہائش اختیار کر لے۔ اگر دیکھا جائے تو سطلنت دلی پر ایبک ‘ غوریوں‘ خلجی‘ تغلقوں‘ سید یا لودھی سلطنت کا خاتمہ بابر نے کیا تھا۔ ویسے ہندوستان میں افغان ‘ ترک‘ ایرانی‘ سینٹرل ایشین آپس میں ہی ایک دوسرے کے تختے الٹتے اور ایک دوسرے کا لہو بہاتے رہے۔ اگرچہ مقامی ہندو حکمرانوں سے بھی ان کی جنگیں ہوئیں ‘لیکن جب ایک دفعہ انہیں شکست ہوئی تو پھر مسلمان ہی آپس میں لڑتے۔ بابر نے بھی ایک مسلمان حکمران کو شکست دی تو نادر شاہ نے بھی ایران سے آکر مسلمان حکمران اور مسلمانوں کے لہو سے دلی بھر دی۔
جہاں بیرونی حملہ آور مقامی لوگوں کے لیے تباہی اور بربادی‘ لوٹ مار اور جنگ و جدل لاتے رہے ہیں وہیں ان حملہ آوروں نے دنیا بھر کی تہذیب و تمدن میں بھی اہم رول ادا کیا۔ اگر دنیا میں ایک دوسرے کے علاقے فتح نہ ہوتے تو بہت سے علاقے آج بھی غیر تہذیب یافتہ ہوتے۔ ان حملوں کی و جہ سے جو فوج یا ان کے ساتھ سول لوگ ہوتے وہ ان علاقوں کو اپنا مستقل مسکن بنالیتے ‘ مقامیوں کے ساتھ رشتہ داری اور خون کے رشتے قائم کرتے۔ بہت سے عالم فاضل ‘ فلاسفر‘ ہنر مند اور نئے نئے علوم کے ماہرین اس نئی دنیا میں بس جاتے ۔ وہ مقامی لوگوں کو وہ فن اور ہنر سکھاتے جو ان کے پاس نہ تھے‘ جس کی وجہ سے وہ پیچھے رہ گئے تھے۔ بیرونی حملوں کی وجہ سے اسلام ہندوستان میں آیا ۔ صوفیوں نے اس خطے کا رخ کیا اور یہاں ذات پات اور خرافات میں پھنسی قوموں کو کسی حد تک برابری کا میسج دیا جو ہندوستان میں پہلے ناپید تھا۔ ہندوستان میں بڑی تعداد میں لوگوں کے اپنا مذہب بدلنے کی بڑی وجہ بھی یہ تھی کہ ہندو معاشرہ جس طرح ذات پات اور برہمن اور اچھوت میں تقسیم تھا اس سے کچلے ہوئے طبقات کو نیا راستہ ملا۔ اس طرح اگر آپ دیکھیں تو انگریزوں نے ہی ہندوستان سے دو بڑی برائیاں ختم کیں جو کبھی نہ ہوتیں اگر یہ معاشرے مفتوح نہ ہوتے۔ انگریزوں کی سب سے بڑی کامیابی ستی کی رسم کا خاتمہ تھا۔ یہ وہ کام تھا جو افغانستان‘ ایران‘ سینٹرل ایشیایا عرب سے آئے مسلمان حکمران بھی نہ کر سکے تھے۔ مسلمان حکمرانوں نے مقامی رسم و رواج میں زیادہ مداخلت نہ کی‘ لیکن انگریز جدید دنیا اور خیالات کے لوگ تھے ‘لہٰذا انہوں نے اس پر زیرو ٹالرنس سے کام لیا اور ستی کو قتل سے تعبیر کیا۔ ایک دفعہ ایک انگریز کو اطلاع ملی کہ ایک گائوں میں ایک صاحب مرگئے ہیں اور ان کی بیوہ اس کی لاش کے ساتھ آگ میں جلے گی۔ وہ انگریز افسر موقع پر گیا تو اسے کہا گیا کہ انگریز بہادر آپ دخل نہ دیں‘ یہ ہندوستان کی ہزاروں سال پرانی روایت ہے۔ گورا بولا: ہماری یہ روایت ہے کہ بیوی مر جائے تو اس کے خاوند کو اس کے ساتھ جلایا جاتا ہے‘اگر کسی نے اس عورت کو جلایا تو وہ وہیں پھانسی گھاٹ قائم کر کے پورے گائوں کو پھانسی دے گا۔ یوں اس رسم کا خاتمہ ہوا۔ انگریزوں نے ٹھگوں کے خلاف کارروائیاں کیں‘ کیونکہ ٹھگ بہت بڑا خطرہ بن چکے تھے۔
ہندوستان پاکستان میں آج کل جب اقتدار بدلنے کا وقت آتا ہے تو لہو نہیں بہتا‘ اس میں گوروں کا بڑا ہاتھ ہے کہ جمہوریت سے انہوں نے وہ جنگ و جدل روکی جو ہر بادشاہ کے مرنے کے بعد شاہی خاندان کا مقدر ہوتی تھی۔ پورا خاندان مار دیا جاتا تھا۔ اگر یقین نہیں آتا تو کسی دن دلی سلطنت کی کہانیاں پڑھ لیں جس پر 33 بادشاہوں نے حکومت کی جو ترک النسل تھے اور بقول ہمارے وزیراعظم جنہوں نے چھ سو سال حکومت کی۔ ان 33 میں سے صرف تین بادشاہ ایسے تھے جن میں انسانیت تھی‘ باقی بادشاہوں کے مظالم کی کہانیاں پڑھ کر آج بھی آپ کی روح کانپ اٹھے گی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ